کارل مارکس کی شہرہ آفاق کتاب “داس کیپٹل” کا پہلا مقدمہ
- April 14, 2017 2:20 am PST
کارل مارکس: لندن، 25 جولائی 1867ء
میری کتاب کی یہ پہلی جلد جو میں عوام کے سامنے پیش کر رہا ہوں میری اس کتاب کی آخری کڑی ہے جو 1858ء میں اشاعت پذیر ہوئی تھی اور جس کانام فلسفہ معاشیات کی تنقید کے سلسلہ میں ایک بحث تھا۔ پہلے اور بعد کے حصوں میں جو طویل وقفہ آگیا اس کا سبب میری کئی سال کی علالت تھی جو بار بار کام میں رکاوٹ ڈالتی رہی۔
کتاب کے پہلے تین ابواب میں مذکورہ کتاب کا خلاصہ ہے۔ جہاں تک بھی حالات نے اجازت دی ان نکات کو جن کی طرف میری سابقہ کتاب میں محض اشارے ہی کیے گئے تھے یہاں پوری تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔
ہر کام کی ابتداء میں دُشواریاں پیدا ہوتی کرتی ہیں یہ اُصول تمام علوم پر منطبق ہوتا ہے۔ قیمت کی شکل، جس کی پوری طرح ترقی یافتہ صورت، زر کی شکل ہے ایک بالکل ابتدائی اور سیدھی سادی بات ہے لیکن اس سیدھی سی بات کو انسانی دماغ دو ہزار سال سے بھی زیادہ مساعی کے بعد بھی نہ سمجھ سکا۔ جبکہ اس کے برعکس یہ عجیب بات ہے کہ زیادہ مرکب اور پیچیدہ اشکال کے کامیاب تجزیہ میں بڑی حد تک منزل کو پا لیا گیا۔ اس کا سبب کیا ہے؟
سبب واضح طور پر یہ ہے کہ انسانی جسم کا نامی مجموعہ ہونے کی حیثیت سے مطالعہ اس سے کہیں آسان ہے کہ جدا جدا ایک خلیہ کا مطالعہ کیا جائے۔ معاشیاتی اشکال کے مطالعہ میں نہ خوردبین کام دیتی ہے نہ کیمیائی اثرات جانچنے والے آلات۔ یہاں ان دونوں کے بجائے قوت تجرید کام دیتی ہے۔ بورژوا سماج میں محنت کی پیداوار کی وہ حالت جو جنس کی شکل میں نمودار ہوتی ہے یا با الفاظ دیگر جنس کی قیمتی شکل معاشیاتی خلیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
سطحی نظر ڈالنے والوں کے لیے ان اشکال کا تجزیہ جزئیات میں پھنسنے کے مترادف ہے اور بلاشبہ یہ بحث جزئیات کی ہے بھی لیکن یہ جزئیات اتنی ہی اہمیت کی حامل ہیں جتنی ان جزئیات کی اہمیت ہوتی ہے جو تشریح الاعضاء میں زیر بحث آتی ہیں۔
ایک ماہر طبیعات دو طرح مشاہدہ کرتا ہے یا تو وہ طبعی مظاہر کا مطالعہ خاص اس مقام پر کرتا ہے جہاں وہ اپنی مثالی شکل میں رونما ہوں اور اضطراب خیز اثرات سے زیادہ سے زیادہ پاک ہوں اور یا پھر اگر ممکن ہوتو اپنے تجربات کے لیے ایسے حالات چنتا ہے جو کسی مظہر طبعی کے اس کے معمولی حال میں رونما ہونے کی ضمانت بن سکیں۔
زیر نظر کتاب میں مجھے سرمایہ داری طرز پیداوار اور پیداوار و مبادلہ کے ان حالات کا جائزہ لینا ہے جو اس طرز پیداوار سے ہم آہنگ ہوں۔ اب تک اس کا خاص مرکز انگلستان رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے نظریات کی توضیح میں بار بار میں نے انگلستان کو بطور مثال پیش کیا ہے۔ اس لیے اگر جرمن قارئین انگلستان کے ؒصنعتی و زرعی مزدوروں کی خراب حالت کے ذکر پر اظہار تبختر کریں یا پُرامید انداز میں اپنے دل کو یہ تسلی دینا چاہیں کہ جرمنی میں حالات ایسے بگڑے ہوئے نہیں ہیں تو انہیں واضح الفاظ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ایں خیال خام است۔
جوہری طور پر مسئلہ یہ نہیں ہے کہ سرمایہ داری طرز پیداوار کے فطری قوانین سے جو سماجی منافرت پیدا ہوتی ہے وہ کم درجہ پر بڑھتی ہے یا زیادہ درجہ پر بلکہ سوال خود ان قوانین کا ہے۔ مسئلہ تو ان رجحانات کا ہے جو قطعی ناگزیر طور پر مذکورہ نتائج پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
نظر بریں وہ ملک جو صنعتی طور پر زیادہ ترقی یافتہ ہوتا ہے دراصل اس مستقبل کا پتہ دیتا ہےجس کی طرف کم ترقی یافتہ ملکوں کو بہرحال پہنچنا ہے۔ لیکن معاملہ کے اس پہلو سے قطع نظر جرمنوں میں جہاں جہاں سرمایہ داری طرز پر پیداوار نے جگہ پکڑی ہے، مثلا کارخانوں میں حالات اس سے بھی زیادہ بد تر ہیں جیسے انگلستان میں۔ اس لیے کہ جرمنی میں قوانین کارخانہ جیسی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔
باقی زندگی کے تمام شعبوں میں براعظم یورپ کے مغربی حصوں کے تمام دوسرے ممالک کی طرح ہم بھی نہ صرف سرمایہ داری طرز پیداوار کے ارتقاء سے ہی نقصانات اُٹھا رہے ہیں بلکہ اس کے ناکافی ارتقاء کا خیمازہ بھی بھگت رہے ہیں۔ پھر جدید برائیوں کے ساتھ متوارث خرابیوں کا ایک ہجوم بھی ہمیں کچل رہا ہے جو فرسودہ طرز پیداوار کے زندہ بچ رہنے سے پیدا ہوتی ہے اور بعد از وقت سماجی و سیاسی خصوصیات کا ایک طویل اور ناگزیر سلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ہم زندوں کے مظالم ہی سے نہیں کچلے جارہے بلکہ مردوں کے مظالم سے بھی پس رہے ہیں۔
جرمنی اور براعظم یورپ کے مغربی حصے کے متعلق جو بھی سماجی اعداد وشمار موجود ہیں وہ انگلستان کے سماجی اعداد و شمار کے مقابل بڑے بھونڈے انداز میں مرتب کیے گئے ہیں لیکن وہ نقاب کو اس حد تک ضرور ہٹا دیتے ہیں کہ پیچھے کا مبہوت کن منظر نظر آجائے۔
اگر انگلستان کی طرح ہماری حکومتیں اور پارلیمنٹ بھی معاشی حالات کی تحقیقات کے لیے مختلف اوقات میں تحقیقاتی کمیشن بٹھایا کرتیں اور ان کمیشنوں کو واقعات کی چھان بین کے پورے اختیارات ملتے یا یہاں بھی مذکورہ مقصد کے لیے ایسے لائق غیرجانبدار اور اثرات سے آزاد افراد مل سکتے جیسے انگلستان کے کارخانوں کے انسپکٹر ہیں۔
نیز اگر خرابی صحت کی خبریں جمع کرنے والے طبی رپورٹر، عورتوں اور بچوں کے استحصال سے متعلق تحقیقات کرنے والے اور غذا و رہائش کے حالات کا جائزہ لینے والے کمیشن ہمارے وطن میں بھی بنتے تو ہم جرمنی کے اصلی حالات کو جان کر دہشت زدہ رہ جاتے۔
پرسیس نے ایک جادو کی ٹوپی اُوڑھ رکھی تھی تاکہ جن عفریتوں کا اسے شکار کرنا تھا وہ اسے نہ دیکھ سکیں گے مگر ہم نے یہ جادو کی ٹوپی آنکھوں اور کانوں پر منڈھ لی ہے تاکہ دل ہی دل میں ہ خوش ہوتے رہا کریں کہ عفریتوں کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے لیکن یاد رکھیے اس معاملہ میں خود کو دھوکہ دینا کوئی ہوش مندی لازما نہ ہوگی۔
اٹھارویں صدی میں امریکی جنگ آزادی نے یورپ کے طبقہ وسطیٰ کے لیے خطرہ کی گھنٹی بجا دی تھی اسی طرح اُنیسوویں صدی میں امریکہ کی خانہ جنگی نے یورپی مزدور طبقہ کے لیے خطرہ کی گھنٹی بجا دی ہے۔ انگلستان میں سماجی انتشار کا عمل واضح ہوچکا ہے جب یہ عمل ارتقاء کرتے کرتے ایک خاص درجہ تک پہنچ جائے گا تو اس کا براعظم یورپ میں رد عمل ہونا بالکل یقینی ہے۔
اب رہا یہ امر کہ براعظم میں یہ سماجی انتشار وحشیانہ رخ اختیار کرے گا یا رحمدلانہ سو اس کا انحصار خود مزدور طبقہ کے درجہ ارتقاء پر ہے۔ نظر بریں بلند تر مقاصد سے قطع نظر اپنے خالص اہم تر مفادات کے پیش نظر بھی یہ ضروری ہے کہ وہ طبقے جو اس وقت حکمران بنے ہوئے ہیں ان تمام دُشواریوں کو جو مزدور طبقہ کی ترقی میں حائل ہیں اور قانونی طور پر دور کی جاسکتی ہیں، دور کر ڈالیں۔
دوسری تمام وجوہ سے قطع نظر خالص مذکورہ پہلو کے پیش نظر بھی میں نے انگلستان کے قوانین کارخانہ جات کی تاریخ، تفصیلات اور نتائج کے زیر نظر کتاب کا کافی بڑا حصہ وقف کیا ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کے تجربات سے بہت کچھ سیکھتی ہے اسے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ گو سماج کی حرکت کے فطری قوانین کی دریافت، اور اس کتاب کی تصنیف کا مقصد ہی یہ ہے کہ جدید سماج کی حرکت کے معاشی قوانین کو واضح کیا جائے، کے سلسلہ میں صحیح راستہ پا لینے کے بعد بھی کوئی سماج جرات مندانہ اقدامات عمل میں لا کر یا قانونی رکاوٹیں دور کر کے بھی یہ توقع نہیں کرسکتا کہ وہ ان موانع کو دور کر لے گا جو اس کے حسب معمول ارتقاء کی مختلف منزلوں میں رفتہ رفتہ جمع ہوگئے ہیں۔
البتہ ایک نئے عہد کے پیدا ہونے کے وقت جس شدید درد و کرب سے سماج گزرا کرتا ہے اس طریقہ پر چل کر وہ اس کرب کو کم ضرور کر لے گا۔
غلط فہمی پیدا ہوجانے کا خوف ہے اس لیے چند الفاظ اور عرض کرتے ہیں۔ میں سرمایہ دار یا زمیندار کو بھدے رنگ میں پیش کرنے کی فکر میں ہرگز نہیں ہوں، یہاں افراد کی صرف اس حد تک اور اسی قدر اہمیت ہے جس حد تک وہ معاشی درجوں کی نمائندگی کرتے اور مخصوص طبقاتی رشتوں اور مفادات کا مظہر بنتے ہیں۔ میرا موقف جہاں سے کھڑے ہوکر سماج کی معاشی تشکیل کے ارتقاء کو تاریخ طبعی کے عمل کی حیثیت سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ دوسرے کسی بھی نقطء نظر سے بہت کم اس بات کا باعث بنےگا کہ وہ افراد کو ان رشتوں کے لیے ذمہ دار قرار دے جن رشتوں کی یہ افراد سماجی مخلوق بنے رہتے ہیں۔ گو یہ ان سے ذہنی طور پر خود کو کسی قدر بھی اونچا بنانے کی کوشش کیوں نہ کیا کریں۔
فلسفہ معاشیات کے میدان میں آزاد تحقیقات کو صرف انہیں دشمنوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو دوسری تحقیقات کے دوران سامنے آتے ہیں بلکہ اس مواد کی مخصوص نوعیت ہی جو فلسفہ معاشیات میں زیر بحث آتا ہے، انسان کے نہایت متشددانہ، ذلیل اور کینہ پرور جذبات کو بھی دُشمن بنا دینے کا باعث بن جاتی ہے۔
یہاں میری مُراد انفرادی مفادات کے پیدا کردہ منحوس سایوں سے ہے۔ اب مثلا قائم شدہ انگریزی کلیسا ہی ہے جو اپنے قانون کی 39 دفعات میں سے 38 پر حملہ کو تو آسانی سے معاف کردے گا مگر اپنی آمدنی کے 39 ویں حصہ پر حملہ کو بھی برداشت نہ کرے گا بلکہ اب تو مروجہ جائیدادی رشتوں پر تنقید کے مقابلہ میں الحاد کو بھی ایک عام سی فروگزاشت خیال کیا جانے لگا ہے۔ لیکن اس تاریک پس منظر میں ارتقاء کی بھی واضح علامتیں نظر آرہی ہیں۔
چنانچہ پریوی کونسل کی وہ رپورٹ ملاحظہ فرمائیے جو پچھلے چند ہفتوں میں ملکہ عالیہ کے غیر ملکی وفود سے صنعتی سوالات اور ٹریڈ یونینوں کے متعلق خط و کتابت کے نام سے چھپی ہے۔ اس خط و کتابت میں تاج برطانیہ کے غیر ملکی نمائندوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ جرمنی اور فرانس بلکہ مختصرا یوں کہیے کہ براعظم یورپ کے تمام مہذب ملکوں میں سرمایہ اور محنت کے موجود رشتوں میں زبردست تبدیلیوں کی علامتیں ایسی ہی واضح اور ایسی ہی یقینی نظر آرہی ہیں جیسی انگلستان میں پھر ادھر اٹلانٹک کے اُس پار ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نائب صدر مسٹر ویڈ عام جلسوں میں اعلان کر رہے ہیں۔
کہ تنسیخ غلامی کے بعد ملکیت اور سرمایہ باہمی رشتوں میں بنیادی پیدا کرنا وقت کا دوسرا اہم مطالبہ ہے۔ یہ سب وقت کی علامتیں ہیں جنہیں بھڑکیلے لباس اور شاندار چغے چھپا نہیں سکتے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ علامتیں کل ہی کوئی معجزہ پیدا کر دیں گی۔
ان سے تو صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ حکمران طبقوں ہی میں مستقبل کے خطرناک و امکانات کا احساس بیدار ہورہا ہے ہمارا یہ موجودہ سماج کوئی ٹھوس بلور تو ظاہر ہے نہیں۔ وہ ایک جسم نامی جو تبدیلی کی صلاحیت رکھتا ہے جو برابر بدل رہا ہے۔ ہر اُس رائے کا جو سائنسی تنقید پر مبنی ہوگی میں خیر مقدم کروں گا۔ رہے نام نہاد رائے عامہ کے تعصبات جسے میں نے کبھی بھی مراعات نہیں دیں سو اس کے متعلق میرا بھی وہی قول ہے جو عظیم فلورنس مفکر کا تھا؛
سیدھے راستہ پر چلنے سے کسی کا شوروغوغا مجھے نہیں روک سکتا۔
کارل مارکس: لندن، 25 جولائی 1867ء