کراچی؛ عالمی اردو کانفرنس اور رقص میں ہے سارا جہاں

  • December 24, 2017 11:39 am PST
taleemizavia single page

رپورٹ

پاکستان کے سب سے بڑے شہراور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں 21 دسمبر سے 10 ویں عالمی اردو کانفرنس شروع ہوئی، جس میں اردو ادب، صحافت، آرٹس، مجسمہ سازی، رقص، شاعری، کیلیگرافی، ڈراموں اور ایوارڈز کی تقاریب منعقد کی گئیں۔

شیما کرمانی نے تحریک حقوق نسواں کی جدوجہد کو رقص میں پیش کیا

دسویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز 21 دسمبر کی سہ پہر ہوا،افتتاحی تقریب میں مشتاق احمد یوسف زئی، زہرا نگاہ، ضیاء محی الدین، شمیم حنفی، مسعود اشعر، امر جلیل، کشور ناہید، رضا علی عابدی اور افتخار عارف سمیت متعدد ادیبوں و دانشوروں نے خطاب کیا۔ کانفرنس کے آغاز میں ہی اب تک کی ہونے والی نویں اردو عالمی کانفرنسز سے متعلق ایک مختصر دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔

عالمی کانفرنس کے پہلے دن کا سب سے بہترین پروگرام ’عہد مشتاق احمد یوسفی‘ رہا، جس میں ضیاء محی الدین نے مشتاق احمد یوسفی کی شاعری سے ناظرین کو محظوظ کیا۔ مجموعی طور پر عالمی اردو کانفرنس میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ رہی، تاہم عوام کی شرکت ابتدائی 2 دن میں خاص نہیں تھی، لیکن رقص کے پروگرام میں سب سے زیادہ لوگ دیکھے گئے۔

عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز پہلے دن کے مقابلے زیادہ رش رہا، دوسرے دن کا سب سے اہم ترین پروگرام ویسے تو ’رقص میں ہے سارا جہاں‘ رہا، جس میں نگہت چوہدری، شیما کرمانی اور مانی چاؤ کی ٹیم نے رقص کی صورت میں گزشتہ 70 سالوں کی تاریخ کو پیش کیا۔

urdu2

خواتین نے ایسے موضوعات پر بھی لکھا ہے، جن پر مرد نہیں لکھ سکے، زاہدہ حنا

تاہم دوسرے دن کے دیگراہم پروگرامات میں ’ہمارا ادبی و سماجی تناظر اور خواتین کا کردار‘ بھی اہم رہا، جس میں نامور خواتین لکھاریوں نے عالمی و ملکی سطح پر ادب میں خواتین کے کردار پر گفتگو کی۔ خواتین سے متعلق اس پروگرام کی اہم ترین بات یہ تھی کہ اس میں تمام شرکاء گفتگو سمیت نظامت اور مجلس صدارت کے فرائض بھی خواتین نے ہی سرانجام دیے۔

اس پروگرام میں رکن صوبائی اسمبلی مہتاب اکبر راشدی نے خواتین کی جانب سے لکھے گئے ادب کے سماج پر پڑنے والے اثرات پر بات کی، انہوں نے پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں خواتین کی ادبی خدمات کا مختصر جائزہ بھی لیا۔ اس پروگرام کا اہم ترین خطاب لکھاری زاہدہ حنا کا رہا، جنہوں نے کہا کہ ’عالمی سطح پر خواتین نے ایسے موضوعات کو بھی ادب کا حصہ بنایا، جن پر مرد حضرات بھی نہیں لکھتے‘۔

زاہدہ حنا نے اپنی تقریر میں وضاحت کی کہ’خواتین نے خود لذتی سے لے کر ہم جنسی پرستی و صنفی تفریق اور خودمختاری کے موضوعات پر اتنا کھل کر لکھا ہے کہ مرد حضرات بھی ایسے موضوعات پر ایسے نہیں لکھ سکتے۔ پروگرام کی صدر کشور ناہید نے اپنے منفرد مزاحیہ انداز میں اعتراض اٹھایا کہ ادب کے سماج پر پڑنے والے اثرات کے اس پروگرام میں صرف خواتین کو ہی کیوں بٹھایا گیا؟

ان کا کہنا تھا کہ اس پروگرام میں مرد لکھاریوں کو بھی بٹھایا جانا چاہیے تھا، تاکہ پتہ چلتا کہ مرد ادیب خواتین کو اپنے ادب میں کتنی اہمیت دیتے ہیں اور اسے کیسے کردار دینا چاہتے ہیں۔ اسی پروگرام کے آخر میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے جنرل سیکریٹری احمد شاہ نے اعلان کیا کہ ان کا ادارہ ہر سال خواتین فیسٹیول کا انعقاد کرائے گا، تاہم انہوں نے اس فیسٹیول کے لیے کشور ناہید اور امینہ سید سے مدد بھی طلب کی۔

urdu1

دوسرے روز عالمی اردو کانفرنس میں مصوری پر بھی خصوصی سیشن ’پاکستان میں مصوری کا ارتقائی سفر‘ رکھا گیا، جس میں خاتون آرٹسٹ مہر افروز نے سب سے اہم بات کہی کہ سقوط ڈھاکہ سے پاکستان کو جہاں سیاسی نقصان پہنچا، وہیں آرٹ اور مصوری کے میدان میں بھی کبھی پورا نہ ہونے والا نقصان پہنچا۔

مہر افروز کے مطابق بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں مصوری و پینٹگز سے متعلق رواں برس 40 ویں عالمی کانفرنس ہوئی، جس میں 120 ممالک کے مصوروں نے شرکت کی، مگر پاکستان میں آج تک مصوری سے متعلق کوئی کانفرنس منعقد نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ و تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں ’موہن جو دڑو، گندھارا اور ٹیکسلا‘ کی تاریخ پر محیط ہے، لیکن اس کے باوجود یہاں مصوری کے شعبے میں تاریخی کام نظر نہیں آتا۔

رقص میں ہے سارا جہاں‘ سیشن میں جہاں پاکستان کی کتھک ڈانسر نگہت چوہدری نے فیض احمد فیض کے گانے ’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ پر رقص پیش کیا، وہیں انہوں نے ’ لکھنؤ کے کتھک‘ اور ’موہے رنگ دے پیا‘ پر بھی خصوصی رقص کیا۔ معروف ڈانسر مانی چاؤ نے اسی سیشن میں سندھ کے مہان کوی ’شیخ ایاز‘ کی معروف غزل’ میرے دیدہ ورو، میرے دانشورو‘ پر رقص کرکے تمام شاعروں و ادیبوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

urdu

ڈانس کے آخری سیشن میں شیما کرمانی اور ان کی ٹیم نے تحریک نسواں کی 40 سالہ تاریخ سمیت پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں خواتین کی خودمختاری، جمہوریت کی بقا، آزادی اور ادب کی ترویج کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو رقص کی صورت میں پیش کیا۔ شیما کرمانی کی ٹیم نے رقص کے ذریعے تحریک نسواں کی تحریک کو اجاگر کیا

تیسرے روز کے اہم ترین سیشنز میں ’ہمارا سماج اور پاکستانی زبانیں،’ٹی وی ڈرامے کا سفر‘، ’بشریٰ انصاری کے ساتھ ایک مکالمہ‘ اور ’صحافت کے بدلتے چہرے‘ سمیت دیگر اہم سیشنز رکھے گئے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *