پنجاب یونیورسٹی کی مسخ شدہ تاریخ
- October 15, 2020 12:08 am PST
اکمل سومرو
برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندستان میں اپنے فوجی قبضے کو تقویت بخشنے کے لیے سیاسی منصوبے تشکیل دیے، ہندستان میں علاقوں کی فتوحات کے ساتھ ساتھ وہاں پر کمپنی نے اپنی نگرانی میں سیاسی اور تعلیمی ڈھانچہ مرتب کیا۔ کمپنی جب ہندستان کے جنوب مشرقی علاقوں سے شمال مغرب کی جانب بڑھی تو پنجاب پر قبضے کے بعد یہ پیش قدمی اپنے اختتام کو پہنچی۔
نوآبادیاتی مقاصد کے تحت ہندستان کے اذہان اور فکر و فلسفہ کو کنٹرول کرنے کیلئے ٹی بی میکالے 1835ءمیں تعلیمی پالیسی کا خاکہ پیش کر چکا تھا، اس منصوبے کی منظوری کے بعد کمپنی نے ہندستان میں تعلیمی اداروں کی بنیادیں رکھنا شروع کیں۔ چنانچہ پنجاب پر قبضے سے قبل، مدراس، کلکتہ اور بمبئی یونیورسٹیاں قائم ہوچکی تھیں، سن ستاون کی جنگ آزادی کے بعد، پنجاب میں بھی یونیورسٹی قائم کرنے کے لیے تحریک چلائی گئی۔
چنانچہ 1854ءمیں پنجاب میں سرشتہ تعلیم (ڈائیریکٹر پنجاب انسٹرکشنز کالجز) کا ادارہ بنایا گیا جس کا مقصد یہاں کے کالجوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ سرشتہ تعلیم قائم ہونے کے بعد، مشن کالج لاہور، کنگ ایڈور میڈیکل کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور قائم ہوئے۔ دس جون 1865ءمیں پنجاب کے گورنر سر ڈونلڈ میکلوڈ نے سرشتہ تعلیم پنجاب کے ڈائریکٹر کیپٹن ہالرائڈ کو مراسلہ بھیجا، جس میں مقامی زبان اور مغربی علوم و فنون کی ترویج کیلئے تجاویز مانگی گئیں۔
گورنر پنجاب کے اس مراسلے کے بعد، اگست 1865ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور کے تیسرے پرنسپل ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر نے شہر میں امراءکو جمع کیا اور لاہور میں ایک یونیورسٹی قائم کرنے کی تجویز پیش کی، جہاں مشرقی علوم کی تعلیم دی جائے اور گیارہ ستمبر کو انجمن پنجاب کے اجلاس میں لائٹنر نے بہ طور صدر انجمن ، اوریئنٹل یونیورسٹی کا منصوبہ پیش کیا۔ یونیورسٹی کا ابتدائی خاکہ، انجمن کی جانب سے گورنر میکلوڈکو تیرہ اکتوبر 1865ءمیں پیش کیا گیا، تاہم برٹش حکومت کی جانب سے اس یونیورسٹی کے منصوبے کو مسترد کر دیا گیا،
انجمن پنجاب کے بعد، برٹش انڈیا ایسوسی ایشن کی جانب سے وائسرائے کو 1867ءمیں ورنیکلر یونیورسٹی قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ایسوسی ایشن نے انگریزی تعلیم کے مقابلے پر مشرقی زبانوں میں علوم کی افادیت کو اُجاگر کیا، تاہم برطانوی سرکار نے اس مطالبے کو بھی مسترد کر دیا۔
انجمن پنجاب کی جانب سے 1868ءمیں لاہور میں یونیورسٹی میں قیام کے حوالے سے دوبارہ مطالبہ ہوا، گورنر پنجاب نے لارنس ہال (جناح لائبریری) میں تحریک یونیورسٹی کے افراد کو مدعو کیا۔ اس اجلاس میں یہ تجویز حتمی طور پر منظور ہوئی کہ پنجاب کیلئے لاہور میں ایک یونیورسٹی قائم کی جائے ،چانسلر، وائس چانسلر اور سینیٹ قائم کی جائے، دیسی زبان میں تعلیم دی جائے، انگریزی زبان جاننے والوں کو یونیورسٹی اعلیٰ خطابات سے نوازے اور لائق افراد کو بھی یہ خطاب عطاءکیے جائیں۔
گورنر میکلوڈ نے 27 مئی 1868ءمیں، یونیورسٹی قائم کرنے سے متعلق اجلاس کی سفارشات مرکزی حکومت کو ارسال کیں۔ گورنر نے مراسلے میں یہ بھی لکھا کہ اس یونیورسٹی کی آمدن تقریباً 21000 روپے ہوگی، جس میں سالانہ 13000روپے چندہ اور 8000روپے زر محفوظ سود سے حاصل ہوگا۔ گورنر پنجاب نے مراسلے میں مزید لکھا کہ اگر حکومت 21000 روپے بہ طور امدادی رقم فراہم کر دے تو یونیورسٹی قائم کرنے میں آسانی ہوگی۔مرکزی حکومت نے 19 ستمبر کو جوابی مراسلے میں امدادی رقم دینے سے انکار کر دیا اور یونیورسٹی قائم کرنے کا مطالبہ ایک بار پھر مسترد کر دیا گیا۔ مرکزی حکومت نے پنجاب کے گورنر کو آگاہ کیا کہ گورنمنٹ کالج لاہور کو ترقی دی جائے تو سرکار اس کے لیے سالانہ اکیس ہزار روپے فنڈز دینے کو تیار ہے۔
پنجاب حکومت نے گیارہ فروری 1869ءمیں سرکار کو تیسرا مراسلہ ارسال کیا۔23 مئی 1869ءمیں، اس مراسلے کے جواب میں مرکزی حکومت نے لاہور میں یونیورسٹی قائم کرنے کی مشروط اجازت دی جس میں اس یونیورسٹی کا نام ، لاہور یونیورسٹی کالج تجویز ہوا ۔ یہ ادارہ ڈگری دینے کا مجاز نہیں ہوگا بلکہ صرف اسناد دینے کا اختیار رکھتا ہوگا۔ یونیورسٹی سے الحاق کالجوں میں انگریزی تعلیم کو نمایاں حیثیت دی جائے گی۔ مرکزی حکومت نے 5اگست1869ءمیں یونیورسٹی قائم کرنے کی ابتدائی منظوری دی جبکہ 8دسمبر 1869ءمیں لاہور یونیورسٹی کالج قائم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔
برطانوی سرکار نے لاہور یونیورسٹی کالج کا آئین بھی جاری کر دیا، اس آئین کے تحت گورنر پنجاب سر میکلوڈ نے 11 جنوری 1870ءمیں سینیٹ کا پہلا اجلاس طلب کیا۔ پہلے اجلاس میں ہی سینیٹ نے اس کا نام تبدیل کر کے پنجاب یونیورسٹی کالج رکھنے کی منظوری دی۔ ڈاکٹر لائٹنر کو یونیورسٹی کا پہلا رجسٹرار مقرر کیا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی کالج کے تحت لاہور سے لے کر دہلی تک کے کالجوں کے طلباءکا پہلا امتحان 1871ءمیں منعقد ہوا۔ دوسال بعد لائٹنر چھٹیوں پر برطانیہ روانہ ہوگئے، مسٹر پارکر ، ان کی جگہ قائمقام رجسٹرار مقرر ہوئے۔ انھوں نے 1874ءمیں یونیورسٹی کا پہلا کیلنڈر جاری کیا۔
گورنر میکلوڈ نے اپنا کتب خانہ یونیورسٹی کو عطیہ کرنے کی بجائے، اسے یونیورسٹی کو فروخت کر دیا ، پنجاب یونیورسٹی کالج نے گورنر پنجاب کا ذاتی کتب خانہ 2500 روپے میں خرید لیا جس میں دو ہزار کتابیں شامل تھیں۔ ان کتابوں کو بمبئی سے لاہور منتقل کرنے کے 700 روپے کے اخراجات حکومت نے ادا کیے۔
پنجاب یونیورسٹی کی عمارت کی تعمیر کے لیے نواب آف بہاولپور نے سرمایہ فراہم کیا اور 1874ءمیں سینیٹ ہال کی تعمیر کے لیے نواب آف بہاولپور نے اپنی ذاتی جاگیر یونیورسٹی کو وقف کر دی ۔ نواب کے نام کی تختی آج بھی اولڈ کیمپس میں قائم سینیٹ ہال سے متصل عمارت کی پیشانی پر نصب ہے۔ پنجاب یونیورسٹی قائم ہونے کے بعد، گورنمنٹ کالج لاہور کا الحاق کلکتہ یونیورسٹی سے منسوخ کر کے پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ کر دیا گیا، گورنمنٹ کالج کی مرکزی لائبریری کی چھت پر آج بھی کلکتہ یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کے مونوگرام کنداں ہیں۔
گورنمنٹ کالج لاہور کے موجودہ عبد السلام ہال میں ، پنجاب یونیورسٹی کا پہلا کانووکیشن 14اکتوبر1882ءمیں منعقد ہوا اور معلوم پڑتا ہے کہ اسی دن کی مناسبت سے پنجاب یونیورسٹی کے قیام کی تاریخ مرتب کر دی گئی۔ حقائق کے برعکس ، یہ تاریخ کب اور کیسے مرتب ہوئی اس کی کھوج آج تک نہیں لگائی جاسکی۔
میں تو تاریخ کے اوراق پلٹ کر حیرانی کی انتہا پر پہنچ جاتا ہوں کہ یونیورسٹی کا پہلا تعلیمی کیلنڈر سن 1874ءمیں جاری ہوا اور مسخ شدہ تاریخ میں یونیورسٹی کی تشکیل اکتوبر 1882ء بنا دی گئی۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنا مڈل ، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے ہی پاس کیا تھا، ان امتحانات کے نتائج کے اصل گزٹ آج بھی یونیورسٹی میں محفوظ ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ سے متعلق میں نے تفصیلات اپنی زیر مطبوعہ کتاب میں درج کی ہیں، انھیں ابھی جاری کرنے کی وجوہات صرف اتنی ہیں کہ 14اکتوبر 1882ءکو پنجاب یونیورسٹی کی سالگرہ کے دن سے منسوب کیا گیا اور اس مسخ شدہ تاریخ کو آج تک درست کرنے کی زحمت نہیں کی گئی، جب قومی ادارے مسخ شدہ تاریخ کو کُریدنے کو تیار نہیں ہوں گے تو حقائق کیسے عیاں ہوں گے؟ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ سے اپیل ہے کہ یونیورسٹی سے متعلق پنجاب آرکائیوز میں رکھی سرکاری دستاویزات کا مطالعہ کریں اور یونیورسٹی کی مسخ شدہ تاریخ کو بحال کرنے کے لیے سنجیدہ کاوش کی جاوے۔
پنجاب یونیورسٹی کے قیام کو151 برس بیت چکے، یہ یونیورسٹی اپنی ڈیڑھ سو سالہ تقریبات کے انتظار میں مزید بارہ سال ضائع کر دے گی جبکہ ایف سی کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور اپنی ڈیڑھ سو سالہ تقریبات منانے کے بعد دو صدیوں کی تاریخ مرتب کرنے جا رہے ہیں۔
Mind Blowing
ان کا شاید کہنا یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی 1882 کو قائم ہوئی اور 1869 میں لاہور یونیورسٹی کالج قائم ہوا بالکل ویسے جیسے گورنمنٹ کالج لاہور 1864 میں قائم ہوا مگر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی 2002 میں قائم ہوئی۔ مزید برآں یہ کہ تحقیقی منہج کے تحت آپ کو جامعہ کے پہلے مورخین کے کام کا بھی احاطہ کرنا پڑے گا اور انہوں نے جو وجوہات بیان کی ہیں ان کا رد بھی کرنا پڑے گا۔ مثلاً پروفیسر بروس، جو جامعہ میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر تھے، انکی غالباً 1933 میں چھپنے والی اے ہسٹری آف پنجاب یونیورسٹی کا متعلقہ متن بھی دیکھنا ہوگا۔ اب تک کے میرے مطالعہ کہ مطابق پنجاب یونیورسٹی 1882 میں ہی قائم ہوئی،ہاں اس کا پہلا اوتار یونیورسٹی کالج کی شکل میں 1869 میں قائم ہو چکا تھا۔