گورنر ہاؤس لاہور سے متعلق تاریخی مغالطہ
- December 2, 2018 10:39 pm PST
اکمل سومرو
سلطنت مغلیہ کے پانچویں شہنشاہ شاہ جہان (1592-1666ء) کے عہد میں لاہور میں سید بدر الدین گیلانی بزرگ گزرے ہیں، خدا پرستی، عابد و زاہد ان کی پہچان تھی۔ اسلام کی تبلیغ اور اس کی ترویج کے لیے سید بدر الدین گیلانی مشہور گزرے ہیں جب 1650ء میں اس کی وفات ہوئی تو اس کی قبر پر ایک عالی شان گنبد بنایا گیا۔
1799ء میں جب رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تو شہر کے متعدد تاریخی عمارات، مقبروں کو بھی ختم کیا گیا۔ رنجیت سنگھ کے عہد میں شہر کے پہلوانوں نے اس گنبد کے متصل کشتی لڑنے کا اکھاڑہ بنایا گویا یہ کُشتی والا گنبد مشہور ہوگیا۔
رنجیت سنگھ کے دربان جمعدار خوشحال سنگھ کے ماتحت فوج کی چھاؤنی اس مقبرے کے پاس کے میدان میں مقرر ہوئی تو جمعدار نے اس گنبد کی قبر (سید بدر الدین گیلانی) کو گرا دیا اور اس کے گرد خاص ہشت پہلو مقبرے کی قطعے کی کوٹھی بنوائی چنانچہ جمعدار سنگھ اس کوٹھی میں رہنے لگا۔ (یہ وہی جمعدار ہیں جن کی شاہی قلعہ کے عقب میں حویلی تھی اور جہاں اب فاطمہ جناح کالج چونا منڈی قائم ہے اسی حویلی سے متصل راجہ دھیان سنگھ کی حویلی بھی ہے جہاں گورنمنٹ کالج لاہور کی بنیاد رکھی گئی) جمعدار کے حکم پر اس کے ارد گرد باغیچہ لگایا گیا۔ ابتداء میں اس عمارت پر پتھر نصب نہیں کیے گئے تھے۔
1849ء میں سکھوں کو انگریزوں کی فوج سے شکست ہوئی مہاراجہ دلیپ سنگھ کی دستبرداری کے بعد پنجاب پر قبضہ ہوگیا اور لاہور انگریز سرکار کے ماتحت چلا گیا۔ شاہی قلعہ پر برطانوی سرکار نے اپنی سلطنت کا جھنڈا لہرا دیا۔ اب اس کوٹھی میں انگریز ڈپٹی کمشنر مسٹر بورنگ قیام پذیر ہوگئے، پھر ڈپٹی کمشنر میجر میگ ریگر پھر لفیٹننٹ گورنر رابرٹ منٹگمری قابض ہوگئے۔ منٹگمری نے برطانوی افسران کو یہ تجویز دی کہ یہ کوٹھی انگریز حکومت کی تحویل میں لے لی جائے اور جمعدار خوشحال سنگھ کے بھتیجے راجہ تیجہ سنگھ کو اس کوٹھی کا معاوضہ دے دیا جائے کیونکہ یہ کوٹھی راجہ تیجہ سنگھ کی ملکیت تھی۔
منٹگمری نے دوسری تجویز یہ دی کہ اس کوٹھی کے عوض تیجہ سنگھ سے کوئی سرکاری مبادلہ کر لیا جائے چونکہ اس عہد میں راجہ تیجہ سنگھ کی جاگیر میں سیالکوٹ کا علاقہ تھا۔ انگریز سرکار کے قبضے میں حویلی دیوان حاکم رائے تھی، راجہ تیجہ سنگھ نے اس کوٹھی کے عوض انگریز سےحویلی کا قبضہ واپس لیا۔ چنانچہ اب یہ کوٹھی سرکاری ملکیت ہوگئی اور لیفٹیننٹ گورنر کی رہائش گاہ قرار پائی جسے گورنمنٹ ہاؤس کا نام دیا گیا۔
اس سرکاری رہائش گاہ کو 1920ء میں گورنمنٹ ہاؤس سے بدل کر گورنر ہاؤس لاہور کر دیا گیا جو اب 700 کنال اراضی پر پھیلا ہے۔
اس گورنر ہاؤس میں سرکار کی سرپرستی میں پہلا قومی مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے کی اس مشاعرے میں انگریز راج، ملکہ برطانیہ کی شان میں قصیدے پڑھے گئے، انگریزوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے علامہ اقبال کو یکم جنوری 1923ء میں “سر” کا خطاب ملا تو ایک دم ہنگامہ برپا ہوگیا اگرچہ یہ خطاب انگریز وفاداری کے عوض نہیں ملا لیکن پورے ہندستان سے اس کا رد عمل آیا جس پر اُس وقت مولانا ظفر علی خان کی ادارت میں چلنے والے زمیندار اخبار میں عبد المجید سالک نے علامہ اقبال کے خلاف نظم لکھ ڈالی.
لو مدرسہ علم ہوا قصر حکومت
افسوس کہ سر ہو گئے اقبال
پہلے تو سر ملت بیضا کے وہ تھے تاج
اب اور سونو تاج کے سر ہو گئے اقبال
پہلے تو مسلمانوں کے سر ہوتے تھے اکثر
تنگ آ کے اب انگریز کے سر ہو گئے اقبال
کہتا تھا کل ٹھنڈی سڑک پر کوئی گستاخ
سرکار کی دہلیز پہ سر ہو گئے اقبال
سر ہو گیا ترکوں کی شجاعت سے سمرنا
سرکار کی تدبیر سے سر ہو گئے اقبال
لاہور کی تاریخ پر دو کتابوں کو مستند سمجھا جاتا ہے ایک کتاب لاہور کے نامور انجینئر کنیہا لال کی ہے جو 1886ء میں پہلی بار شائع ہوئی اور دوسری کتاب سید محمد لطیف کی ہے جو 1892ء میں شائع ہوئی۔ گورنر ہاؤس لاہور سے متعلق اب یہاں پر دو تاریخی غلطیاں عمومی رائے میں پائی جاتی ہیں۔
ایک تو یہ کہ انگریزوں نے راجہ تیجہ سنگھ کو ڈھائی ہزار روپے ادا کر کے یہ کوٹھی خریدی تھی اس کوئی مستند حوالہ موجود نہیں ہے اس کوٹھی کے قبضے کے عوض حویلی دیوان حاکم رائے کا قبضہ انگریزوں نے چھوڑا تھا جس کا تذکرہ ہو چکا ہے۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ گورنر ہاؤس میں موجود مقبرہ اکبر بادشاہ کے کزن محمد قاسم خان ہے اس کا بھی کوئی مستند حوالہ موجود نہیں ہے۔ بلکہ یہ مقبرہ سید بدر الدین گیلانی کا ہے، لاہور پر تحقیق کرنے والے محقیقین کو چاہیے کہ وہ اس تاریخی مغالطے کو درست کرنے میں رہنمائی کریں۔
گورنر ہاؤس کا موجودہ نقشہ 120 سال پرانا ہے۔ گورنر ہاؤس کی مرکزی عمارت کے بہ جانب شرق ساٹھ فٹ طویل، تیس فٹ ارض اور تیرہ فٹ عمیق زینہ دار بنایا گیا جو آج بھی نہر کے پانی سے بھرا رہتا ہے۔ گھوڑوں کا اصطبل، اشیاء کا گودام، شُتر خانہ، فیل خانہ اور ملازموں کی رہائش کے لیے آٹھ پختہ مکان بنائے گئے تھے۔
پاکستان کےچاروں صوبوں کے گورنرز ہاؤس اگست 2018ء سے زیر بحث ہیں، نئی حکومت کی جانب سے گورنرز ہاؤس کو تعلیمی اداروں یا درسگاہوں میں بدلنے کے فیصلے اور پھر عوام کے لیے انھیں کھولنے کے بعد گورنر ہاؤس کے چرچے خبروں کی زینت ہیں. لیکن دو روز سے گورنر ہاؤس لاہور پر تو میراتھن ٹرانسمیشن چل رہی ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس کی دیواریں گرانے اور جنگلے لگانے کا حکم صادر کر دیا ہے. یہ حکم جمہوری سے زیادہ آمرانہ سوچ کا نمائندہ لگ رہا ہے.
وفاق جب اپنے ہی گورنر پنجاب کو گورنر ہاؤس خالی کرنے پر آمادہ نہ کرسکی تو اس کا غصہ دیواریں گرا کر نکالا جارہا ہے کہ ہم اس گھر کو ہی ننگا کر دیں گے جس گھر میں حکمران رہتا ہے. حکومت کو اگر عوامی تعلیم سے اتنی ہمدردی ہے تو پھر گورنر ہاؤس کے سامنے لارنس ہال میں قائم لائبریری کی طرف دھیان کر لیں جہاں گرمیوں میں سارا دن بجلی نہیں ہوتی، مال روڈ پر ہی واقع پنجاب پبلک لائبریری کو دیکھ لیں جہاں پر ڈیڑھ سو سالہ تاریخی ریکارڈ دیمک چاٹ رہی ہے. اگر اس سے بھی زیادہ ہمدردی ہے تو پھر سول سیکرٹیریٹ کے قبضے میں مقبرہ انار کلی میں قائم پنجاب آرکائیوز پر ہی نظر ڈال لیں جہاں عام طالبعلم کا داخلہ ہی بند ہے.
گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانے سے یا پھر اس انگریز راج کی نشانی کو عوام کے لیے ہفتے میں ایک دن کھول دینے سے نہ تو لاہور کی تاریخ کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی انگریز راج میں لاہور کے شاہی قلعہ اور گورنر ہاؤس سے چوری کیے گئے نوادرات برٹش میوزیم سے واپس لائے جاسکتے ہیں کیونکہ اس کے لیے نو آبادیاتی عہد کے قانونی نظام سے آزادی حاصل کرنا ہوگی.