پاکستان میں تشویش ناک تعلیمی رجحانات
- September 7, 2018 8:33 pm PST
ماہ وش طالب
قوم کی ترقی کا اندازہ کل شرح خواندگی سے لگایا جاتا ہے۔ شرح خواندگی اور معیار تعلیم ہی کسی قوم کی ترقی اور کامیابی و ناکامی کا ضامن ہوسکتی ہے، پاکستان کی شرح خواندگی کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت 58 فیصد عوام خواندہ ہے اور صوبائی سطح پر کی گئی تحقیق کے مطابق پنجاب میں 61 فیصد، خیبر پختونخواہ میں 53 فیصد شرح خواندگی رپورٹ کی گئی ہے۔ ( یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کے پی کے میں گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں اس شرح میں اضافہ ہوا ہے)۔
صوبہ سندھ میں 56 فیصد جبکہ بلوچستان میں یہ شرح 43 فیصد پر آکر ٹھہرتی ہے، اور اس میں کسی حیرت کا احتمال نہیں ہونا چاہئیے کہ بلوچستان پاکستان کا سب سے نظر انداز کیا گیا صوبہ ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ترقی کے لئے صوبہء بلوچتسان علاقہء ممنوعہ ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں ہائیر ایجوکیشن کی تباہی
جس علاقے یا ملک میں غربت وافلاس کا راج ہو وہاں تعلیم جیسی بنیادی ضرورت محض ” فینٹسی” بن کر رہ جاتی ہے۔ اور ایسی قوموں کے لئے یہ قابل افسوس سے بھی بڑھ کر جان لیوا معاملے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اور ایسے زہر کے تریاق کے لئے حکومت و عوام کو مل کر سدِ باب کرنا ہے جس کے تاحال آثار نظر نہیں آتے۔ پاکستان میں اگر شرح خواندگی کی بات کریں تو یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ کیا پاکستان کا نظام تعلیم واقعی “معیاری ” ہے؟
پلے گروپ سے لے کر پوسٹ گریجویشن تک رائج تعلیمی رجحان کا جائزہ لیا جائے تو تعلیم حاصل کرنے سے زیادہ مقابلے بازی کا رجحان نظر آتا ہے، اس مقابلے کی دوڑ کے فوائد تو خیر کیا ہوں گے بلکہ نقصانات کا تناسب زیادہ ہے۔
ضرور پڑھیں: پینڈو اُردو میڈیم اور پاکستان کی تعلیم
دکھاوا، پوزیشن کاحصول اور رٹاازم اسی کمپیٹشن کی پیداوار ہیں۔اس کی مثال آپ یہی سمجھ لیں کہ کچھ نِجی اسکولز کے مونٹیسری کے نصاب میں اس طرح کے سوالات ہیں ” پاکستان میں کتنے صوبے ہیں؟ آپ ذرا غور کریں کہ تین سے پانچ برس کے بچہ جس کیلئے صوبوں، قوموں اور مذہب جیسے پیچدہ الفاظ ناقابل فہم ہیں وہ چھوٹی سی عمر میں اس بات کا رٹا تو لگا لے گا کہ پاکستان کے پانچ صوبے ہیں مگر لفظ ” صوبے” کا کانسیپٹ ادھورا ہی رہے گا۔
علاوہ ازیں مڈل کلاس کے بعد پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بُک بورڈ کے تحت ہونے والے میٹرک اور انٹر کے امتحانات کی تیاری جِس طریقے سے گزشتہ سات آٹھ برسوں سے اسکول ، کاجز میں کرائی جاتی ہے، اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ اگر جانوروں کو بھی اسی طرح ہانک کر پڑھایا جائے توعنقریب وہ بھی کچھ نہ کچھ سیکھ ھی لیں گے۔
اس ضمن میں نکڑ نکڑ کھلی اکیڈمیز اور ٹیوشن سنٹرز اہم کردار ادا کر رہے ہیں مقابلے بازی کی آڑ میں طلباء کی تربیت کو داؤ پر لگایا جارہا ہے۔اساتذہ مخصوص بچوں کو پکڑ کرانھیں ٹاپرز بنانے کیلئے دن رات ایک کر رہے ہیں۔
یہ پڑھیں: فرسودہ نظام تعلیم سے چھٹکارا کیسے؟
شدت پسندی اس قدر ہے کہ ادارے یا کلاس کے سب سے ذہین طالب علم کو امتحانات کی تیاری کے دنوں میں عام اوقات کے علاوہ رات رات بھر ٹھہرا کر پڑھایا جاتا ہے۔ والدیں کو یہ سکون اور خوش فہمی ہے کہ ہمارا بچہ جان توڑ محنت کررہا ہے اور کسی دوسرے کے بچے سے زیادہ نمبر لے گا ، ڈھمکانے میں ٹاپ کرے گا ۔
اب اگر تعلیمی بورڈ ( میں یہاں بنجاب بورڈکی بات کروں گی) کا جائزہ لیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے ، رٹاازم اس قدر عام ہوگیا ہے کہ طلباء 1100 میں سے 1099 نمبر حاصل کررہے ہیں ،جس طالب علم نے اپنے ذہن اور تخیل کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا اس کی کوئی قدر نہیں ہے۔ پھر لاہور سمیت دیگر شہروں کے بورڈز میں، پیرز کی چیکنگ اس قدر غیر سنجیدگی سے ہونے لگی ہے کہ جوابی پرچے بھی غائب ہوئے۔ نتیجتًا ذہن کو فیل کردیا گیا اور وہ لڑکے، لڑکیاں جو امتحانات سے محض دو ماہ قبل ہی کتابوں کو ہاتھ لگانے کی زحمت گوارا کرتے تھے نا صرف، پاس ہوئے بلکہ اے گریڈ بھی لائے۔
جانئیے: پاکستان کا نظام تعلیم ادب کی تخلیق میں رکاوٹ؟
چھوٹے چھوٹے بچوں میں فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشنز وغیرہ حاصل کرنے کے رجحان نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو سنوارنے کی بجائے انھیں احساس کمتری میں مبتلا کر رکھا ہے کہ پوزیشنز کا روڑا صرف نصابی نہیں بلکہ غیر نصابی سر گرمیوں میں اٹک کر حالات کو بگاڑے ہوئے ہے۔
میڈیکل, انجينئرنگ ,آرمی سمیت دیگر شعبوں میں سفارش اور رشوت خوری سے حقدار طلباء کو خودکشی پر مجبور کردیا جاتا ہے. پھر سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ سال کے وسط میں پہلی جماعت سے لے کر پی ایچ ڈی کے امتحانات لئے جاتے ہیں۔ نا قمری مہینوں کاحساب ہے نا شمسی سال سے مطابقت۔
یہ بھی پڑھیں: مستقبل کا کلاس روم کیسا ہوگا؟
اب جب کہ سال کے آٹھ سے دس ماہ موسم گرما کا راج رہتا ہے، سخت گرمی، لوڈ شیڈنگ اور روزے کی حالت میں طالب علم امتحان دیتے ہیں چاہے وہ سالانہ ہو، ایم ای کیٹ ہو , نسٹ ہو یا پاک فوج میں داخلے کا امتحان، طلباء کے لئے ہر طرف سے ہر حال میں دہرا امتحان ” شدت پسندی, اخلاقیات سے دوری اور مذہبی ناواقفیت”۔
جب بھی نئی حکومت بنتی ہے، نئے وزیر عہدے سنبھالتے ہیں، نئے بیانات جاری کیے جاتے ہیں، سکول سے لے کر کالج تک نئے تجربات کیے جاتے ہیں لیکن معیار تعلیم جوں کا توں رہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تعلیمی ڈھانچہ ہے جسے نہ تو چھیڑا جاتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی پیدا کی جاتی ہے چنانچہ سب کُچھ زبانی جمع خرچ تک رہ جاتا ہے اور اتنے میں پھر دوبارہ حکومت بدل جاتی ہے۔
Amazingly wriiten n explained… Bitter reality n pathetic situation..
Indebted neelam..
Impressive wrie up…
Thanks
بالکل صحیح لکھا ہے آپ نے… اس تعلیمی نظام نے بچوں کی ذہنوں پر قفل ڈال دیئے ہیں.. یی ذہنی بونوں کی نسل تیار کرہے ہیں…. بچوں سے ان کا بچپن چھن گیا ہے… نمبروں کی اس دوڑ نے انہوںذہنی دباؤ کا شکار کررکھا ہے… سمجھ نہین آتا اس نظام اور اس سے پیدا شدہ نتائج قوم کو کہاں لے کرجاءیں گے…..
Riffat to eradicate this havoc we have to start from the roots.. It will take immense effort.. But for the sake of better future taking an initiative become inevitable ..