پاکستان کا نظام تعلیم ادب کی تخلیق میں رکاوٹ؟
- May 6, 2018 12:17 pm PST

ڈاکٹر فردوس انور قاضی
ہر ملک اور قوم کی تہذیب میں ادب، ثقافت اور جمہوریت کےانداز مختلف ہیں۔ اپنے ملک میں مذکورہ بالا تین سمندروں کی دریافت کے حوالے سے بات اور بھی مشکل ہے، کیوں کہ میں اس عہد کی مصلحت اندیشی سے بے خبر ہونے کے سبب لکھنا ہو یا بولنا، موقع پرستی کے ہرانداز سے ناآشناہوں، نتیجہ یہ کہ سچ کا زہر میری تحریر کو عہدِ حاضر میں ملکی تقاضے پورے کرنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔
رہ گئی بات ان اقدار کی، جن پر ادب، ثقافت اور جمہوریت کی اجتماعی سوچ پر مشتمل عمارت تعمیر ہوا کرتی ہے تو ان کو اپنے ملک میں ڈھونڈنے کے لیے چراغ ِ الٰہ دین درکار ہے اور میرے پاس وہ چراغ نہیں۔
سیاست اور جمہوریت میں اگر کسی حکم ران کی آگاہی اور شعور کا یہ عالم ہو کہ وہ ملک کا حکم ران ہوتے ہوئے بھی کسی ادیب یا دانش ور کی مخالفانہ روش اور افکار کے بُعدِ عظیم کے باوجود اس کی دانش کا ادراک رکھتا ہو اور اس کا احترام بھی کرتا ہو تو یہ بات اس عہد میں کم از کم مجھے تو محیّر العقول واقعات کا کوئی حصہ معلوم ہوتی ہے۔
ثقافت کُل ہے اور تہذیب اس کا جزو، ثقافت رواں دواں اور مسلسل ترقّی پذیر حقیقت کا نام ہے اور تہذیب صدیوں پر محیط انسانی زندگی میں پیدا ہونے والے نظم و ضبط اور اعلیٰ تنظیم کا نام ہے، یہاں پر اوسوالڈ اسپینگلر اور آرنلڈ ٹوائم بی دونوں نے ثقافت کی تعریف کرتے وقت اسے علوم و فنون، فلسفہ، موسیقی، سیاست اور ریاست کے حوالے سے ایک ایسا مذہبی اور اخلاقی نظام قرار دیا ہے۔
جس میں رسوم و رواج، نظریات و افکار میں اشتراکِ عمل اور یک جہتی کا تصوّر مرکزی حیثیت رکھتا ہے، اِس کا صاف مطلب یہ ہے کہ سماجی شعور انسانی تاریخ اور اس کے تمام پہلوئوں کی ایک منظّم ترتیب سے پیدا ہوتا ہے، اس لیے انسانی تاریخ کو سمجھنے کے لیے سماجی پس منظر کو مدّ ِ نظر رکھنا ضروری ہے۔
کیوں کہ کسی قوم کی مضبوط اور مخصوص ثقافت ہی اُس کی پہچان کا ذریعہ بنتی ہے، جیسے فرانسیسی، امریکن، چینی ، جاپانی، رشین، جرمن اور دیگر ترقی یافتہ اقوام اپنی مشترکہ قومی زبان اور مشترکہ قومی شناخت رکھتی ہیں۔
اِسی حوالے سے میرے ذہن میں بار بار ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہ حیثیت پاکستانی ہماری مشترکہ قومی شناخت کیا ہے اور وہ کون سی ثقافت ہے، جسے مرکّب سالمیت کا نام دیا جاسکے۔ ریاست اور سیاست کے حوالے سے وہ کون سا مذہبی اور اخلاقی نظام ہے، جس میں اشتراک ِ عمل اور یک جہتی کا تصوّر پایا جاتا ہو۔
اشتراک ِ عمل اور یک جہتی کے تصوّر کو لے کر اگر پاکستانی ثقافت کا جائزہ لیا جائے تو چاروں صوبوں کے حوالے سے یہ اشتراک کہیں نظر نہیں آتا اور نہ یک جہتی کا وہ رنگ نظر آتا ہے، جسے ملکی سطح پر مشترکہ مفادات کے تحت مرکّب سالمیت کا نام دیا جاسکے۔
یہ ٹھیک ہے کہ علاقائی سطح پر ثقافت، یعنی رہن سہن، انداز ِ گفت گو اور لباس کی تراش خراش کے بڑے مضبوط اور شوخ رنگ اپنی ایک علیحٰدہ شناخت رکھتے ہیں، جہاں تہذیبی عوامل اور افکار میں گہرا اشتراک بھی شاید موجود ہو، لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستانی ثقافت اور قومی شناخت کے حوالے سے ہم علیحٰدہ علیحٰدہ علاقائی ثقافتوں کے ذریعے اپنے پاکستانی ہونے کی پہچان کراسکیں۔
کیا دو قومی نظریے کی بنیاد پر بننے والا یہ ملک پاکستان نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود کسی ایسی قوم کا ترجمان بن سکا، جو قومی سطح پر اندرونی تنظیم اور مرکزی روح کا حامل ہو؟ جس نے کسی ایسے جذبے کو پروان چڑھایا ہو، جو پوری قوم کو ایک ہی قسم کے مذہبی، معاشرتی اور قومی رشتوں سے منسلک کرکے کوئی مشترکہ نصب العین عطا کرتا؟
جہاں تک ثقافت کا تعلق ہے۔ یہ ایک تغّیر پذیر صفت کا نام ہے۔ غار کے عہد سے لے کر موجودہ ترقی یافتہ دور تک انسانی زندگی میں بود و باش، رسوم و رواج ، علوم و فنون، ارتقائی منازل طے کرتے رہے ہیں۔ ہر قوم میں وقت کے ساتھ ساتھ فرسودہ طریقے ختم ہوکر نئے اور بہتر طریقے رواج پاتے ہیں۔
بیرونی اثرات اور دیگر اقوام بھی کسی قوم کی ثقافت کو متاثر کرسکتی ہیں، لیکن اس کے باوجود بہ حیثیت قوم ایک اندرونی تنظیم ، کچھ اصول اور ضابطےاپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔ یہ عمل تاریخ سے کٹ کر انجام نہیں دیا جاسکتا۔
ثقافت کے حوالے سے اشتراک ِ عمل اور یک جہتی کا تصوّر ایک اور طبقے میں یکساں اقدار کا حامل ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے، جو راتوں رات کروڑ پتی بننے کا گُر جانتا ہے، اس طبقے کے رہن سہن ، بودوباش، سیرو تفریح کے انداز، دعوتوں کے اہتمام ، سیاست، ریاست اور حکومت، غرض ہر شعبے میں ایک خاص قسم کا اشتراکِ عمل پایا جاتا ہے، جس کا خوب صورت رنگ و روغن، علم و آگہی کی بجائے پیسے کی فراوانی کا مرہونِ منّت ہے، اس ماحول کے اثرات، ادب نے بھی قبول کیے۔
ہمارے بڑے ادیب اور شاعر علم و ادب کے فروغ کو اہمیت دینے کی بجائے صرف وہاں جانا پسند کرتے ہیں، جہاں انہیں بڑے بڑے ہوٹلوں میں طعام و قیام کی سہولت میسّر ہو۔ موجودہ دور کے چند ادیبوں اور شاعروں کو چھوڑ کر بیش تر ادیبوں اور شاعروں کے طرزِ عمل میں ایک خاص قسم کی مماثلت اور قومی یگانگت پائی جاتی ہے، جس کے باعث گروپ بندی کے رجحان نے فروغ پایا۔
تخلیقی کارناموں کی ضرورت اور اہمیت ختم ہوکر ایک دوسرے کی ذاتی تشہیر کے رجحان کو تقویت ملی، کیوں کہ یہی وہ طریقہ تھا، جس کے ذریعے محنت اور اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کے بغیرشہرت حاصل کی جاسکتی تھی۔ یہ گروہ بندیاں ماضی کی اس گروہ بندی سے یک سر مختلف ہیں، جہاں یہ گروپ یا حلقے نظریات و افکار کی ہم آہنگی یا اختلافِ رائے سے تشکیل پاتے تھے، جو علمی مباحث، ادب اور زندگی کے رشتوں کی تلاش اور سراغ کا ذریعہ تھے، لیکن موجودہ ترقی یافتہ اور تیز رفتارعہد میں اس قسم کے علمی مباحث کے لیےوقت ذرا کم ہی ملتا ہے، بلکہ ملتا ہی نہیں۔
جہاں تک ادب کا تعلق ہے ، اس عہد میں یہ ایک مشکل سوال ہے، کیوں کہ ادب کے سُوتے تعلیم سے پھوٹتے ہیں، لیکن قومی سطح پر دہرے تعلیمی معیار نے نقل کے عفریت کو جنم دے کر ادب کے مفہوم کو دھندلادیا ہے، جس کے سبب کرپشن کی دیمک نے قومی یکجہتی اور انسانیت جیسی قو ّتوں کو پنپنے کا موقع نہیں دیا۔
ادب کے متعلق سوال کا جواب آنے والا وقت دے گا،جو یقیناً امید افزا ہوگا،کیوں کہ برائیوں کا بھی ایک نقطۂ عروج ہوتا ہے، جس کے بعد آخر کار ایسے بھی زوال آئے گا اور ہمارے ملک میں بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح ادب ،ثقافت اور مثبت سیاست کے خوب صورت اندازِ زندگی میں سکون اور امن کی راہیں ہموار کردیں گے۔