بریڈ لا ہال انقلابی تحریکوں سے نیشنل کالج لاہور تک
- October 10, 2016 3:41 pm PST
اکمل سومرو
کتنے پاکستانیوں کا یہ معلوم ہوگا کہ 1920ء میں نیشنل کالج، لاہور میں قائم کیا گیا تھا؟ اور اس کالج کی بنیاد لالہ لاجپت رائے نے رکھی؟
یا پھر کتنے لاہوریوں کو یہ علم ہوگا لاہور کا بریڈ لا ہال ہی نیشنل کالج میں تبدیل کیا گیا تھا؟ بریڈ لا کون تھا اور پھر اس کے نام پربننے والی عمارت انقلابی تحریکوں کا مرکز کیسے بن گئی؟
یہ کتنی دلچسپ حقیقی داستان ہے کہ انگریز سرکار کا اپنا ہی ملازم خود انگریز سے باغی ہوگیا اور مقامی لوگوں کی انقلابی سوچ کی سرپرستی کرنے میں مصروف ہوگیا۔ پھراسی جُرم کی پاداش میں اُسے ہندوستان بدر کر دیا گیا۔
بریڈ لا ہال کی بوسیدہ عمارت حکومت کی تاریخ سے بیگانگی، انقلابیوں کی عظمت کی توہین اور غلامی کی زنجیریں توڑنے والوں کی قربانیوں سے روگردانی کرنے سے بھی بڑھ کر ہے۔
لاہور کی تاریخ پاکستان کی تاریخ سے زیادہ قدیم ہے اور لاہور نے ہی پاکستان کو پہچان دی لیکن یہی پاکستان لاہور کی انقلابی پہچان ختم کررہا ہے۔
بریڈ لا ہال کی کہانی کچھ یوں شروع ہوئی۔انگریز سرکار نے 1850ء میں لاہور میں نارتھ ویسٹرن ریلوے کی بنیاد رکھی اور اس علاقے میں ریلوے کا نظام چلانے اور ریلوے لائنوں کا جال بچھانے کے لیے سرکار نے چارلس بریڈ لا کے ساتھ ایک معائدہ کیا۔
یہ معائدہ بریڈ لا کے ساتھ اسی لیے کیا گیا کہ وہ پہلے انڈین آرمی میں سروس کرچکے تھے اور لاہور سے شناسائی بھی تھی۔
اس معائدے کی رو سے چارلس بریڈ لا نے پانچ سال کے عرصہ میں لاہور سے پنجاب کے دیگر اہم شہروں کو ریلوے لائن کے ساتھ ملانا تھا۔ اس معائدے کے باعث بریڈ لا کو دوبارہ ہندوستان آنے کا موقع ملا۔
انگریز سامراج کے خلاف ہندوستانیوں کو جنگ آزادی میں اگرچے شکست ہوگئی لیکن فکری محاذ پر مزاحمت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوگئی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد بریڈ لا نے آزادی کی تحریک میں شامل قوتوں کی حمایت کرنا شروع کر دی۔
اس لیے اُنہوں نے مقامی لوگوں کے حقوق کی تحریک پیدا کرنے میں کردار ادا کیا۔ مزدوروں، کسانوں اور عام آدمی میں آزادی کی سوچ منظم جدوجہد کے تحت پیدا کرنے میں بریڈ لا نے موثر کردار نبھایا۔
سیاسی نظریات کے پھیلاؤ اور تحریک کو عملی شکل دینے کی غرض سے بریڈ لا نے ریٹی گن روڈ سنٹرل ماڈل سکول کے قریب 8 کنال زمین خریدی۔ بریڈ لا کا یہ فیصلہ لاہور میں انقلابی قوتوں کو پہلا انتظامی مرکز فراہم کرنے کی طرف آغاز تھا۔
زمین کی خریداری کے بعد یہاں ہال کی تعمیر، نقشے کی منظوری اور کمیٹی کی تشکیل ہوچکی تھی۔ اس کمیٹی کو یہ ہدایت تھی کہ انگریز مخالف تحریک کا مرکز یہاں بننا چاہیے۔
بریڈ لا پہلے ہی یہ اعلان کر چکا تھا کہ انگریز کے خلاف لڑنے والے انقلابی یہاں رہائش رکھیں گے۔
ہال کی انتظامی کمیٹی ان انقلابیوں کی خوراک، لباس اور تمام امور کی نگہداشت کرنے کی پاپند ہوگی۔
لاہور میں اس زمین کی خریداری کی اطلاع جب انگریز سرکار کو پہنچی تو اُنہوں نے بریڈ لا کو وارننگ دی کہ وہ برطانیہ کے خلاف ہندستانیوں کی مدد سے گریز کرے جب بریڈ لا نے اس کی پرواہ نہ کی تو انگریز سرکار نے بالاخر ریلوے لائن کا ٹھیکہ منسوخ کر دیا۔
بریڈ لا کو24 گھنٹے میں ہندستان کی زمین چھوڑنےکا حکم دیا گیا۔ حکومت کو اُس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب بریڈ لا ایک کشتی سوار میں ہوا اور دریائے راوی میں رہنے لگا اور پولیس کو جواب دیا کہ وہ اب پانی پر رہ رہا ہے اور ہندستان کی زمین چھوڑ دی ہے۔
یوں بریڈ لا کئی دنوں تک اس کشتی میں رہا تاہم پولیس نے بالآخر گرفتار کر لیا اور زبردستی برطانیہ بھیج دیا گیا۔ انگریز سرکار کے خلاف جنگ آزادی کے بعد خود انگریز کی اس پیمانے پر مزاحمت کا یہ پہلا واقعہ تھا۔
برطانیہ واپس جاکر وہ خاموش نہیں ہوا بلکہ 1880ء میں الیکشن لڑا اور برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بن گئے۔ اس کے بعد بھی وہ تین مرتبہ پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہوا۔
بریڈ لا نے1889ء میں برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان میں جمہوری آئین کے نفاذ کے لیے بل پیش کیا۔ اس بل میں مطالبہ کیا گیا کہ ہندوستان کے جمہوری اداروں کا انتخاب خود ہندستانی کریں گے۔ بریڈ لا 14 کتابوں کے مصنف تھے۔
بریڈ لا کی 39 دفعات چرچ آف انگلینڈ کی دستاویز ہے۔اس دستاویز میں اُنہوں نے بائبل اور اینچلیکن چرچ میں تضادات وغیرہ پر تفصیلی بحث کی ہے۔
بریڈ لا کی 1891ء میں وفات ہوئی تاہم 1900ء میں بریڈ لا کی عمارت مکمل ہوئی۔ اس کا افتتاح کانگریس کے صدر سریندر نارتھ بینر جی نے کیا۔ عمارت کے سامنے والے حصے پر لگی تختی پر آج بھی سریندر نارتھ بینر جی کا نام لکھا ہے۔
بریڈ لا کو تو انگریز سرکار نے زبردستی ہندوستان سے نکال دیا لیکن یہاں انقلابی فکر کی آبیاری میں وہ اپنا حصہ ہمیشہ کے لیے ڈال گیا۔
اس ہال کی تعمیر کے بعد یہاں مزدوروں اور کسانوں کی تحریکوں کا آغاز ہوا۔1905ء میں پگڑی سنبھال جٹا تحریک کا آغاز بھی اسی بریڈ لا ہال سے ہوا۔1915ء میں غدر پارٹی نے انگریز کے خلاف سیاسی جدوجہد کا آغاز اسی ہال سے کیا تھا۔
لالہ لاجپت رائے نے 1920ء میں بریڈ لا ہال میں نیشنل کالج قائم کیا۔ اس کالج کے پہلے رجسٹرار پروفیسر بھیم سین سچیار تھے جو بعد میں بھارتی پنجاب کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔ اس کالج کے پرنسپل پروفیسر چھبیل داس مقرر ہوئے۔
بریڈ لا ہال میں قائم اسی نیشنل کالج میں تحریک آزادی کے عظیم ہیرو بھگت سنگھ نے تعلیم حاصل کی۔ 1922ء سے لے کر 1926ء تک وہ یہاں زیر تعلیم رہے۔ اس دوران سکھ پال، اوریش پال بھی یہاں طالبعلم رہے۔
نیشنل کالج انگریز کے خلاف تحریک کا مرکز بن گیا، جب سول نافرمانی کی تحریک چلی تو انگریز کے خلاف شامل اس تحریک کے انقلابی کارکنوں نے اپنے بچوں کو بھی سرکاری سکولوں سے اُٹھا لیا تھا جو بعد میں اسی کالج میں آکر پڑھنے لگے۔
انگریز سرکار کے خلاف شروع ہونے والے تحریکوں میں بریڈ لا ہال نے ہندستانیوں میں قومی وملی جذبے میں مزید حرارت پیدا کی۔ واضح رہے کہ اس ہال کے قریب گورنمنٹ کالج (یونیورسٹی) لاہور بھی واقع ہے، یہاں انگریز کا اثر و رسوخ زیادہ ہونے کی بناء پر مزاحمتی تحریک نے کبھی جنم نہیں لیا بلکہ انگریز کی پالیسیوں کے حامیوں کی کثرت پائی جاتی۔
بھگت سنگھ پر جب لاہور سازش کیس بنا تو اُن پر چلائے جانے والے مقدمات کی پیروی کی منصوبہ بندی اسی ہال میں ہوتی رہی حتیٰ کہ عدالتی کارروائیوں میں بھگت سنگھ سے رابطے کا پتہ بھی یہیں کا لکھا جاتا۔
اکتوبر 1930ء کو جب لاہور سازش کیس میں بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گورو کو سزائے موت کا اعلان ہوا تو بریڈ لا ہال انگریز کے خلاف تحریک کا زبردست مرکز بن گیا۔
بریڈ لا ہال انقلابیوں کا گھر بلکہ ہیڈ کوارٹر بن گیا۔ بھگت سنگھ سے متعلق مشہور ہے کہ وہ جب روپوشی کے دنوں میں داتا دربار لنگر لینے کے لیے گئے تو وہاں کے مجاور کو جب معلوم ہوا کہ وہ بریڈ لا ہال میں رہتے ہیں تو اُنہیں دیگچے میں لنگر دیا جاتا جس سے وہ بریڈ لا میں مقیم انقلابیوں میں تقسیم کرتے۔
تقسیم ہند تک بریڈ لا ہال انتظامی کمیٹی کے تحت چلتا رہا پھر برانڈ رتھ روڈ کی سائیمکس کمپنی کے مالک آفتاب نے اس ہال پر قبضہ کر لیا اور یہاں لوہے کا گودام بنا دیا گیا۔
حکومت پاکستان نے 1950ء میں انقلاب کے مرکز بریڈ لا ہال کو محکمہ خوراک کے حوالے کر دیا اور یہاں گندم کا گودام بنا دیا گیا۔ پھر یہاں 1957ء میں ملی تکینکی ادارہ قائم کر دیا گیا جو فنی تعلیم دینے کا مرکز تھا۔ ملی تکنیکی ادارہ کو یہ ہال ننانوے سال کے پٹہ پر متروکہ وقف املاک بورڈ کی جانب سے 10 روپے ماہانہ کرایہ پر دیا گیا۔
ملی تکینکی ادارہ کے رجسٹرار غلام کبریا خاں کے ڈرائیور حاجی رشید نے اس ہال کے ارد گرد کی جگہ پر قبضہ کر لیا۔ یہاں کی لکڑی کی چھتوں کو اُکھاڑا گیا، لکڑی بیچ دی گئی۔
اس ہال کے دوسری جانب ملی تکینکی ادارہ کے خاکروب اندر مسیح نے قبضہ کر لیا جہاں اب اس کے تین بیٹے رہائش پذیر ہیں۔
ہندوستان کی آزادی پسند تحریکوں کے کارکنوں نے تقسیم ہند کے پاس بریڈ لا ہال کی طرز پر دہلی میں بریڈ لا ہال تعمیر کیا تاکہ انقلاب کا مرکز رہنے والی اس جگہ کو یاد رکھا جائے۔
بھارت کے مشہور مصنف پران نوائل نے اپنی کتاب لاہور سینٹی مینٹل جرنی میں لکھا ہے کہ بریڈ لا ہال میں سیاسی جلسے، آزادی کی تحریک اور یہاں کی سرگرمیوں میں حصہ لینا اُسے کبھی نہیں بھولا۔
لاہور سٹوڈنٹس یونین کا پہلا سالانہ اجلاس بریڈ لا ہال میں ہوا۔ اس اجلاس میں جوش ملیح آبادی نے اپنا مشہور انقلابی کلام پڑھا۔
سنو اے بستگان زلف گیتی، ندا یہ آرہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر، غلامی کی حیات جادواں سے
پہلی جنگ عظیم کی خوشی میں انگریز سرکار نے جب پہلا قومی مشاعرہ کرایا تو بریڈ لا ہال کا انتخاب ہوا۔ اس مشاعرے کی صدارت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کی۔
یہاں پر دُنیا بھر سے چلنے والی انقلابی تحریکوں سے متعلق تصاویر اور لٹریچر رکھا جائے اور یہاں لائبریری قائم ہو۔
مسلم لیگ کا صوبائی تنظیمی کمیٹی کا ہیڈ کوارٹر لکشمی مینشن ہال روڈ پر تھا جب 1962ء میں مسلم لیگ کرائے کی مد میں مقروض ہوئی تو اسے یہاں سے نکال دیا گیا پھر کوشش کی گئی کہ بریڈ لا ہال کو مسلم لیگ کا ہیڈ کوارٹر بنایا جائے لیکن یہ منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔
اب ہال کو دیکھیں تو اس کی عمارت خستہ ہال، کھڑکیاں ٹوٹی، ہال کے اندر جائیں تو جو کلاس روم بنائے گئے وہاں ویرانی کے ڈیرے ہیں، چھت کی لکڑی بوسیدہ، فرش پر مٹی، عمارت کی مغربی سائٹ پر کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ انقلابی تحریکوں کے اس مرکز کے ارد گرد لینڈ مافیا کا قبضہ ہو چکا ہے۔ یہاں تاریخ کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ اس شاندار عمارت پر نظر دوڑائیں تو 116 سال پہلے اس عمارت کی عظمت رفتہ یاد آتی ہے۔
جب قوم کے حکمران تاریخ کو بھُلانے کی کوشش میں ہوں تو پھر سامراج کے خلاف قائم کیے گئے آزادی کے مراکز کو بھی بھلا دیا جاتا ہے۔ مذہبی بیر آزادی کی تحریکوں کے تشخص کو مسخ کیونکر کر سکتا ہے؟
بریڈ لا ہال ہندوستانیوں کا تھا، مسلمانوں کی، ہندوؤں کی اور سکھوں کی مشترکہ شناخت کی علامت ہے۔ یہاں پر مذہب شناخت نہیں تھا بلکہ انسان کی قدر تھی، آزادی کی سوچ کی قدر تھی۔
بریڈ لا ہال کو محفوظ بنانے کے لیے متروکہ وقف املاک بورڈ کی توجہ درکار ہے اور اس عمارت کو انقلابی تحریکوں میں قربانیاں دینے والوں کی تصویری گیلری اور لائبریری میں بدلنا ہوگا۔ تاکہ انقلابی سوچ کے اس مرکز کی اہمیت کو نئی نسل میں منتقل کیا جاسکے۔
اکمل صاحب اللہ آپ کو مزید ترقی دے بہت شاندار تحریر ہے جنید ا حمد خان