پاکستانی ہائیر ایجوکیشن ”بوسٹن گروپ“ کے شکنجہ میں

  • March 31, 2021 12:42 am PST
taleemizavia single page

اکمل سومرو

مغربی یورپ اور امریکا نے عالمی سطح پر اپنی علمی اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے علم کی ادارہ جاتی تشکیل کی اور یورپی  شناخت کو علمی تصورات میں داخل کیا گیا۔ استعماریت کی جڑوں کو سماج میں پیوست کرنے کے لیے ثقافتی و تہذیبی بالادستی قائم رکھنے کے لیے حکمت عملی بنائی گئی۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمہ پر عالمی طاقت کا مرکزہ جب برطانیہ سے امریکا منتقل ہوا تو یورپی افضلیت کے ساتھ مغرب کی مرکزیت کا تصور نئی شکل میں اُبھرا۔ عالمی اقتصادیات کو کنٹرول کرنے والے اداروں کے مراکز، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مرکزی دفتر انھی ممالک میں قائم ہوئے جہاں سے حاکمیت کے تصورات کی جڑیں دُنیا بھر میں پھیلی۔ 

امریکا کی سیلیکون ویلی یا یورپ میں قائم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر میں ایشیائی و افریقی اقوام کے اذہان بھی کام کرتے ہیں، لیکن وہاں پر ہونے والی ایجادات و نئے تصورات کو ہمیشہ مغربی افضلیت سے منسلک کیا جاتا ہے۔ ہمیں ان تصورات کا تحلیل و تجزیہ کرنا چاہیے چونکہ نوآبادکاروں/ حاکم کے ہاتھوں میں سب سے طاقت ور ہتھیار محکوموں کا دماغ ہوتا ہے۔ اس دماغ کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکا اور مغربی یورپ مستقل سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ 

یورپی مرکزیت کو رد کرنے کے لیے اکیسویں صدی کے آغاز میں گلوبل ساؤتھ کا تصور قوت کے ساتھ ابھرا، یہ تصور نیو لبرل عالمگیریت کے مستقبل کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا، یہ دراصل رد نوآبادیات کی جدوجہد کو طاقت دینے کا تصور ہے جو علوم کی ڈی کالونائزیشن کو ناگزیر قرار دیتا ہے جس کی بنیادیں نوآبادیاتی عہد میں رکھی گئیں۔ یہ تصور دراصل جدیدیت کے یورپی تصور کا رد ہے جسے گلوبل ساؤتھ میں یورپ کی حاکمیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔

مابعد نوآبادیاتی عہد میں، بالخصوص پاکستان میں رد استعماریت اور رد نوآبادیات کے تصورات کو پنپنے سے روکنے کی ٹھوس منصوبہ بندی کی جاتی رہی ہے۔ پاکستان میں نوآبادیاتی عزائم کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے تعلیمی تصورات رائج کرنے میں استعماری حکمت عملی رہی ہے۔ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کی تشکیل کیلئے محکومیت پر مبنی ترقی کا تعلیمی تصور رائج ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان کا سماج صرف بہ طور صارف یا کموڈیٹی برقرار رہے۔ 

ہمارے نصاب تعلیم میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ جنرل ایوب کے عہد میں رائج ہونے والی تعلیمی پالیسی کی رپورٹ مرتب کرنے میں فورڈ فاؤنڈیشن، کارینگی انسٹیٹیوٹ، کیمبرج، انڈیانا اور کولمبیا یونیورسٹی کے ماہرین اور ان اداروں کی فنڈنگ شامل تھی جس کے تحت تعلیم کو مغرب کے اقتصادی مفادات کے تابع کیا گیا اور ان اداروں کی سفارشات کو ملک میں نافذ کیا گیا۔ روس، مغربی یورپ اور امریکا کا حریف ہے جس کے باعث پاکستان عالمی استعمار کیلئے تزویراتی اثاثہ بن گیا۔

چنانچہ ستر کی دہائی میں سماج کو امریکی منشاء کے مطابق مخصوص اسلامائزڈ کرنے کی غرض سے تعلیمی نصاب رائج ہوئے جو جنرل ایوب کے عہد کی پالیسیوں کے برعکس تھے گویا پاکستان کی حیثیت محض بفر ریاست کے طور پر رکھی گئی، جب عالمی استعمار نے اپنے اہداف مکمل کر لیے تو نئی نسل کی ذہنی آبیاری کیلئے اسلامائزڈ تصورات فرسودہ قرار دیے گئے۔

اس نئے عہد میں پاکستان کی تعلیمی پالیسی کی نئی سمت مقرر کی گئی، امریکا نے پاکستان میں نیو لبرل اقتصادی و تعلیمی تصور رائج کرنے کا فیصلہ کیا اس کے لیے پہلے علمی بالا تر طبقات کی ذہن سازی کی گئی۔ چنانچہ ورلڈ بینک اور یونیسکو کی فنڈنگ سے ترقی پذیر ممالک میں ہائیر ایجوکیشن کا نیا ڈھانچہ تجویز کرنے کے لیے ٹاسک فورس تشکیل کی گئی۔ اس ٹاسک فورس کے لیے ورلڈ بینک نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کا انتخاب کیا اور لمز کے پرو چانسلر سید بابر علی کو ٹاسک فورس میں پاکستان کی نمائندگی دی گئی۔ واضح رہے کہ لمز کی تعمیر کے لیے امریکا نے ایک کروڑ ڈالرز فراہم کیے تھے۔ پاکستان میں ہائیر ایجوکیشن کا نیا اُفق تلاش کیا جا چکا تھا اس اُفق پر بوسٹن گروپ طلوع ہوا۔ 

بنگال کے جگت سیٹھ ہاؤس اور بوسٹن گروپ کا کردار یکساں ہے۔ جگت سیٹھ ہاؤس ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندستان میں پنجے گاڑنے کے لیے مالی معاونت کمپنی کو دے رہا تھا، جب یہ اقتصادی طاقت کمپنی کو مقامی سطح پر حاصل ہوگئی تو سراج الدولہ کا تخت گرا دیا گیا۔ بوسٹن گروپ جگت سیٹھ ہاؤس کے روپ میں پاکستان میں امریکی پنجوں کو مضبوط کر رہا ہے، بوسٹن گروپ میں ایسے پاکستانی شامل ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں۔ 

ورلڈ بینک نے ترقی پذیر ممالک کی ہائیر ایجوکیشن کیلئے ٹاسک فورس نے پالیسی دستاویز مرتب کی جسے مستقبل میں اساسی قانون کی حیثیت حاصل ہوئی۔ ورلڈ بینک کی اس دستاویز کے تناظر میں جنرل پرویز مشرف کی ہدایت پر وفاقی وزیر زبیدہ جلال نے پاکستان میں یونیورسٹیوں کا رُخ متعین کرنے اور نئی یونیورسٹیوں کے قیام کی سفارشات مرتب کرنے کے لیے پاکستان کی ٹاسک فورس تشکیل دی، سید بابر علی اور ڈاکٹر شمس لاکھا کو ٹاسک فورس کا مشترکہ سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس ٹاسک فورس نے ہائیر ایجوکیشن ان پاکستان: ٹوورڈز ریفارمز ایجنڈا کے عنوان سے رپورٹ مرتب کی۔

یہ دستاویز پاکستان میں ہائیر ایجوکیشن کا روڈ میپ طے کرنے کے لیے بنیاد بنی، بالکل اُسی طرح، جیسے انڈیا ایکٹ 1935ء کی اساس پر دستور پاکستان تشکیل دیا گیا اور پاکستان میں نوآبادیاتی عہد کے قوانین کو من و عن نافذ کر دیا گیا۔

اس دستاویز کی ابتداء میں درج ہے کہ بوسٹن گروپ نے دستاویز کی تیاری میں ٹاسک فورس کی معاونت کی، اسی دستاویز کی بنیاد پر ایچ ای سی قائم ہوئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آخر بوسٹن گروپ کیا ہے؟ آپ میں سے متعدد افراد کیلئے یہ نام بالکل نیا ہوگا۔ اس گروپ کی تعریف بھی دستاویز کے آغاز میں درج ہے۔ بوسٹن گروپ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کا تھنک ٹینک ہے، جس میں ماہرین تعلیم اور پیشہ ور افراد شامل ہیں، یہ گروپ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی پالیسیوں کو مرتب کرنے کے لیے اثر انداز ہوتا ہے۔ 

بوسٹن گروپ کے تحت تشکیل پانے والی اس دستاویز کو مرتب کرنے میں ڈاکٹر طارق بنوری، عاطف میاں، عادل نجم ، پرویز ہود بھائی اور بلال مشرف کا نام نمایاں تھا۔ بعض ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس دستاویز کی تیاری میں 57 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ یہاں یہ بھی انتہائی قابل غور ہے کہ بعد ازاں بوسٹن گروپ سے وابستہ عادل نجم کو لمز کا وائس چانسلر لگایا گیا، عاطف میاں کا نام مشیر اقتصادیات حکومت پاکستان کے لیے تجویز کیا گیا، ڈاکٹر طارق بنوری کو چیئرمین ایچ ای سی تعینات کیا گیا۔ 

طارق بنوری کا انتخاب کرنے والی سرچ کمیٹی کے سربراہ سید بابر علی تھے۔ اب کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ کیا سید بابر علی نے طارق بنوری کا چناؤ کرنے کے بعد، حکومت کو مطلع کیا تھا کہ ایچ ای سی کی تشکیل کے وقت وہ طارق بنوری کے ساتھ کام کر چکے ہیں؟ کیا یہاں میرٹ پر سمجھوتہ کرنے کا امکان موجود نہیں ہے؟ کیا چیئرمین ایچ ای سی کا عہدہ سنبھالنے کے لیے امریکی یا برطانوی نژاد ہونا کافی ہے؟ کیا انتظامی عہدہ رکھنے کا تجربہ نہ ہونے اور محض چار تحقیقی مقالہ جات چیئرمین ایچ ای سی کی شرائط پورا کرتے ہیں؟

بوسٹن گروپ کی مشاورت سے تیار کی گئی پالیسی دستاویز میں ایچ ای سی کو حکومتی دباؤ سے آزاد رکھنے کی سفارش کی گئی تھی اور جب ایچ ای سی آرڈیننس جاری ہوا تو وزیر اعظم کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ چیئرمین ایچ ای سی کو بغیر ٹھوس وجوہات کے عہدے سے ہٹا سکیں، یہی وجہ ہے کہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے کمیشن ایکٹ کی شق پانچ اور چھ میں ترامیم کرنا پڑیں۔ 

اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بوسٹن گروپ کے پاکستان میں کیا اہداف تھے؟ یہ اہداف بھی پالیسی دستاویز کے مطالعہ سے عیاں ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں یونیورسٹیوں کو حکومتی مداخلت سے آزاد رکھنا اور سرمایہ کاروں کو نجی یونیورسٹیاں کھولنے کی اجازت دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایچ ای سی قائم ہونے کے بعد پاکستان میں 90 سے زائد نجی یونیورسٹیاں بن چکی ہیں۔ پاکستان میں کالج کی سطح کی تعلیم میں اصلاحات کرنا اور امریکی تعلیمی نظام سے منسلک نئے ڈگری پروگرام شروع کرنا، کمیشن کے اہداف میں شامل تھا۔ 

ایچ ای سی کے فاؤنڈنگ چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن، بوسٹن گروپ کی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکے لیکن پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں پر ان کے اثرات برقرار رہے۔ بوسٹن گروپ سے ہم آہنگ افراد کی بہ طور وائس چانسلرز سرکاری یونیورسٹیوں میں تقرریوں کے لیے اس گروپ کے اہم افراد کو وائس چانسلرز سرچ کمیٹی میں شامل کرایا گیا جس میں لمز کے پرو چانسلر، لمز کے ایسوسی ایٹ پروفیسرز کے نام بھی شامل ہیں۔ یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ پاکستان کی سرکاری یونیورسٹیوں میں تین تین دہائیوں تک کام کرنے والے فل پروفیسرز ایک نجی یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کا عہدہ رکھنے والے سامنے بہ طور اُمیدوار انٹرویوز کیلئے پیش ہوتے ہیں۔

سید بابر علی خود وائس چانسلرز سرچ کمیٹی کے آٹھ برس تک سربراہ تعینات رہے اور پنجاب کی بیس سے زائد یونیورسٹیوں میں ان کی سفارش پر وائس چانسلرز تعینات کیے گئے، حتیٰ کہ پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن میں بھی بوسٹن گروپ کی نمائندگی موجود ہے۔ یو ایس ایڈ کے چیف پارٹی آفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال قریشی بھی پی ایچ ای سی اور سرچ کمیٹی میں ممبر رہ چکے ہیں۔ 

سید بابر علی کی سفارش پر جب طارق بنوری کو چیئرمین ایچ ای سی تعینات کیا گیا تو کمیشن نے دو کام انتہائی برق رفتاری سے مکمل کیے۔ اول، نئی انڈرگریجویٹ پالیسی کا نفاذ اور پاکستان میں ڈیڑھ صدی سے جاری دو سالہ ڈگریوں کا خاتمہ کرنا، دوم، یونیورسٹیوں کے اساتذہ کیلئے نیشنل اکیڈمی فار ہائیر ایجوکیشن تشکیل دے کر اس کے ذریعے غیر ملکی ماہرین سے پاکستانی یونیورسٹیوں کو ٹریننگ کورسز کرانا شامل ہے۔ 

اس مقصد کیلئے بوسٹن گروپ سے وابستہ طارق بنوری کو ورلڈ بینک نے بھاری گرانٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ جون 2019ء میں ورلڈ بینک نے پانچ نکاتی اصلاحاتی ایجنڈے کے نفاذ کے لیے ایچ ای سی کو 40 کروڑ ڈالرز دینے کا مشروط معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی گورننس کو ڈی سنٹرلائزڈ کرنے کی شرط بھی شامل ہے۔ طارق بنوری کمیشن میں ورلڈ بینک کے اصلاحاتی ایجنڈوں کو مکمل کرنے سے پہلے ہی برطرف کر دیے گئے۔

اس برطرفی پر بوسٹن گروپ سے وابستہ ممبران کو سخت تکلیف پہنچی، چنانچہ سید بابر علی سے منسوب ایک چٹھی زیر گردش ہے جس میں وہ حکومتی فیصلے کی مذمت کر رہے ہیں اور اپنی تعلیمی خدمات کو بہ طور حوالہ پیش کیا ہے۔ اب یہ شُنید ہے کہ بوسٹن گروپ کے ممبران متحرک ہیں اور وہ ہر صورت طارق بنوری کی بحالی چاہتے ہیں اس کے لیے وہ قانونی راستہ بھی اختیار کر چکے ہیں۔ 

بوسٹن گروپ اپنے مقاصد میں بالکل واضح ہے، یہ گروپ تعلیمی پالیسیوں پر مباحثوں کا قائل ہے اور اپنی گرفت کو مضبوط رکھنا اہم اہداف میں شامل ہے۔ بوسٹن گروپ صرف یونیورسٹیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ سکولوں پر بھی اثر انداز ہے۔ اس گروپ سے وابستہ سٹیزن فاؤنڈیشن پاکستان بھر میں ہزاروں سرکاری سکولوں کا انتظامی کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے اور سٹیزن فاؤنڈیشن بوسٹن گروپ کی باقاعدہ شاخ موجود ہے۔ کورونا وباء کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش ہوئی تو حکومت نے سرکاری ٹیلی ویژن پر ٹیلی سکول ٹرانسمیشن کا آغاز کیا، ٹیلی سکول پر سٹیزن فاؤنڈیشن کے سپانسرڈ اور ریکارڈ شدہ اسباق نشر کیے جارہے ہیں۔ 

بوسٹن گروپ اپنے عزائم میں جگت سیٹھ ہاؤس جیسا مقصد لیے ہوئے ہے، پاکستان میں نئی قومی تعلیمی پالیسی کا نفاذ آخری مراحل میں ہے، اس پالیسی کا مسودہ تیار کرنے میں بوسٹن گروپ سے وابستہ افراد سے مشاورت کی گئی ہے۔ اس گروپ میں ایسے پاکستانی نژاد امریکی شامل ہیں جو سرحد پار بیٹھ کر پاکستان کی تعلیمی پالیسیوں میں مداخلت کر رہے ہیں۔

لابنگ گروپوں کا بنیادی مقصد ایک خاص طرز کی رائے تشکیل کرنا ہوتا ہے، جیسے ان سرچ کمیٹیوں کے ذریعے سے یہ رائے ہموار کی گئی کہ امریکا یا برطانیہ کے پی ایچ ڈی یافتہ افراد زیادہ با صلاحیت ہوتے ہیں اور انھیں پاکستان سے پی ایچ ڈی کرنے والوں پر فوقیت دی جانی چاہیے۔ لابنگ گروپ یورپی یا مغربی افضلیت کے اس تصور کو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی سلیکشن میں رائج کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کی تمام ڈگریوں کو ہی ردی کی ٹوکری تصور کیا جائے، یہ نظریہ یہاں پر کن لوگوں نے رائج کیا؟

چند برس قبل، پاکستان میں بلیک واٹر خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا گیا تھا، یہ اہلکار پاکستان میں جاسوسی کا نیٹ ورک چلا رہے تھے جنھیں پاکستان سے نکال دیا گیا تاہم تعلیمی ڈھانچہ میں بیٹھے جاسوس اہلکاروں کی نگرانی کرنا بھی ناگزیر ہے۔ ہماری درس گاہوں میں نوجوان نسل کی ذہنی آبیاری مخصوص تصورات اور استعماری عزائم کے تناظر میں کی جاتی رہی تو مقامی طور پر جگت سیٹھ کمپنی بہادر کی جڑیں مضبوط کرتے رہیں گے جس کا لازمی نتیجہ انسانی گردنوں کی غلامی ہے۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *