اساتذہ کا علمی احتساب

  • February 18, 2017 3:35 pm PST
taleemizavia single page

رسول بخش بہرام

ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کیلئے کورس ورک پالیسی کے نفاذ کے بعد اب ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کی طرف رجحان بھی بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ اب پیشہ ورانہ ترقی کیلئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی مشروط ہوچکی ہے ماضی میں اساتذہ کی بڑی تعداد پی ایچ ڈی کیے بغیر اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائرڈ ہوجاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

کیونکہ اب اسسٹنٹ پروفیسر کے بعد ترقی لینی ہے تو پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری کرنا ہوگی یہ شرط ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ملک بھر میں نافذ کر رکھی ہے۔ جبکہ اساتذہ کو تو ایم فل اور پی ایچ ڈی الاؤنس بھی مل جاتے ہیں۔

یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی بالخصوص ذمہ داری تدریس کے بعد تحقیق کرنا ہے تو ایچ ای سی نے اساتذہ کی ترقی کے ساتھ ریسرچ پیپرز کی اشاعت کی بھی شرط لگا دی ہے۔

لیکن اب جامعات کو ایک اور مسئلہ درپیش ہے جو کہ کوالٹی آف ایجوکیشن کا مسئلہ ہے۔ اساتذہ کی تقرری کے وقت اس امر کی چھان بین نہیں ہوتی کہ جس اُستاد کا تقرر کیا جارہا ہے اس میں علمی مزاج اور علمی و تحقیقی رجحان موجود بھی ہے یا نہیں۔

جب سلیکشن بورڈز کے ممبران کا معیار یہ ہو کہ اُمیدوار اچھی انگریزی بولنا جانتا ہےاور اُستاد کو کلاس مینجمنٹ، علمی رجحان کو اہمیت ہی نہ دی جائے تو پھر کیا معیار تعلیم پر کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ اگر اُستاد بننے کی کسوٹی انگریزی زبان ہے تو پھر ہوائی جہازوں میں ایئر ہوسٹس اور فائیو سٹار ہاٹلز کے بیرے بھی اس معیار پر زیادہ بہتر طریقے سے اُترتے ہیں۔

جانیئے؛ پنجاب یونیورسٹی اوریئنٹل کالج کی اندرونی کہانی

یہ بات درست ہے کہ علوم و فنون کے اعتبار سے انگریزی ایک امیر زبان بن چکی ہے لہذا اس زبان کی تحصیل ضروری ہے لیکن یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ عام طور پر سلیکشن بورڈ کے اراکین یہ جانچنے کی بجائے کہ اُمیدوار کی علمی استطاعت اور تحقیق کا ذوق کس معیار کا ہے۔ اُمیدوار کی انگریزی دانی سے ہی مرعوب ہوکر اس کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ یہاں ان سیاسی اثرات اور تعلقات کے استعمالات کا تذکرہ نہیں کیا گیا جو اُمیدوار کو اُستاد بنوانے سے لے کر پروفیسر بننے تک کی ترقی کے مراحل میں سہارا ہوتے ہیں۔

اب ہوا یہ کہ اس طریقہ کو اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ جامعات میں گزشتہ پندرہ سالوں میں ہونے والی بھرتیوں میں بیشتر لکھنے کا پڑھنے کا مزاج نہیں رکھتی۔ گویا اساتذہ کی گفت گو کا موضوع بالعموم جامعہ کی سیاست ہوتی ہے۔ اساتذہ کی محفلوں میں معاشرتی، قومی مسائل پر مباحثوں اور مکالموں کی جگہ جامعہ کی سیاست کا غلبہ ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛ سرائیکی زبان کے شیکسپیئر اور انقلابی شاعر کی کہانی

ناخواندگی کا مسئلہ، معیار تعلیم کی بحث، طریقہ و تدریس میں تبدیلی، نئے علوم کی تخلیق پر بحث، ایجادات پر تبادلہ خیال، نئی علمی وسائنسی دریافتوں پر مباحثے ان کی گفتگو کا حصہ ہی نہیں ہوتے۔ چنانچہ یہ اساتذہ جدید تعلیم و علوم کی بابت ٹھوس معلومات اور کسی ویژن سے بھی محروم ہوتے ہیں۔

دوسری جانب اساتذہ کا سنجیدہ طبقہ کا نظریہ ہے کہ وہ تو یونیورسٹی میں بطور اُستاد اس لیے آئے تھے کہ یہاں لکھنے پڑھنے کا ماحول ہوگا، کتابوں کی تصنیف و تالیف کا کام ہوگا لیکن یہاں پر علم کی ترسیل و تحصیل سے ہی بیر ہے۔ ہماری جامعات کی عام صورت حال یہی ہے کہ علمی اساتذہ اور غیر علمی اساتذہ میں کوئی فرق و امتیاز روا نہیں رکھا جاتا ہے۔ علمی و تدریسی ترقی اُس وقت تک ہو ہی نہیں سکتی جب تک اس اہم اور سنگین مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔

علم و تحقیق سے بیگانہ اُستاد کیلئے کیا سزا ہونی چاہیے؟ کیا جزا و سزا کا نظام نافذ کیے بغیر کسی یونیورسٹی کے علمی، تحقیق و تدریسی معیار کو بلند کیا جاسکتا ہے؟

جامعات میں سینئر اساتذہ یعنی پروفیسرز اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز اُن کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں جو یونیورسٹی میں لیکچررز اور اسسٹنٹ پروفیسرز کے عہدوں پر فائز ہوں۔ اگر سینئر اساتذہ کا غیر علمی رویہ ہوگا تو اس کا اثر جونیئر اساتذہ پر مرتب ہوتا ہے۔

یہ پڑھیں؛ پنجاب کے بھٹہ سکول بمقابلہ لاہور نالج پارک

ہائر ایجوکیشن کمیشن کو یونیورسٹیوں کو ریگولیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے اساتذہ کے گرد بھی گھیرا تنگ کرنا چاہیے، اساتذہ کو عالمی کانفرنسز میں بھیجنے کے لیے گرانٹ سے لے کر پی ایچ ڈی تھیسز کی سپُر وائزری میں معیار تک کے نظام کو موثر بنانا ہوگا۔ جب تک اساتذہ کا احتساب نہیں ہوگا اُس وقت تک علم کے شعبے میں پاکستان قومی سطح پر ترقی نہیں کر پائے گا۔

اُستاد اپنے طلباء کے لیے ماڈل ہوتے ہیں جب اُستاد کا رویہ غیر علمی ہوگا تو براہ راست طالبعلم اس سے متاثر ہوں گے۔ اپنے تیس سالہ تدریسی تجربہ کی بنیاد پر میں صرف ایک تجویز پیش کرتا ہوں کہ جامعات کو شدید اوورہالنگ کی ضرورت ہے، وائس چانسلر سے لے کر لیکچرر تک کی بھرتی کے لیے کڑے معیارات مقرر کرنے کی ضرورت ہے، اساتذہ کی ترقی کے پیمانے بدلنا ہوں گے وگرنہ ہم علمی پسماندگی کو دور کرنے کا چیلنج کبھی عبور نہیں کر پائیں گے۔


rasul bakhsh behram

رسول بخش بہرام علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی لاہور کے ریجنل ڈائریکٹر ہیں اور وہ فزکس کے اُستاد ہیں۔

  1. جو حکومت ایم فل اور سیم ایس میں فرق کرنا کامیابی سمجھے اور ملازمین کو الجھا کر خوش ہو وہاں اعلیٰ تعلیم کا حصول کس مقصد کے لیے ہو گا.
    وفاقی حکومت نے ایم ایس کی ڈگری کو ایم ایس کے متبادل ماننے سے انکار کر دیا ہے.
    پاکستان زندہ آباد

  2. Chotytabkyky mulaxmeen ko tu chuti bhi allowed nhi ha mphil phd karni ha tu apni without pay chuti lain jab kay lect or teacher or 17 scale ky logon ko with pay chuti mil jati ha….jahil ala ko ye bhi sochna chye sab ko aik jesa miyar tu du

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *