پنجاب یونیورسٹی اوریئنٹل کالج کی اندرونی کہانی

  • January 25, 2017 4:08 pm PST
taleemizavia single page

ہمایوں خالد

پنجاب یونیورسٹی لاہور کا اورئینٹل کالج مشرقی زبانوں کی تدریس کا یونیورسٹی سے بھی قدیم ادارہ ہے۔ یہاں عربی، فارسی، اُردو، کشمیری اور پنجابی ادب پڑھایا جاتا ہے۔ میں یکم دسمبر اُنیس سو اکیاسی کو شعبہ پنجابی سے بطور لیکچرار وابستہ ہوا اور مارچ دو ہزار بارہ میں تیس برس کی تدریس کے بعد ریٹائرڈ ہوگیا۔

میں نے سروس کے آخری چند سال نہایت بے دلی اور بیزاری کے ساتھ گزارے۔ اس کی بڑی وجہ پورے کالج کا تدریسی طریق کار تھا جس سے میں قلبی اور ذہنی طور پر اپنے آپ کو ہم آہنگ نہ کرسکا۔ بلکہ بعض معاملا ت میں صاحبان اختیار سے اختلاف کرنے کی پاداش میں کئی طرح کی اذیتیں بھی برداشت کیں ۔

اصل میں شعبے سے وابستگی کے جلد ہی بعد مجھے تدریسی نظام کی فرسودگی کا احساس ہوگیا اور میں نے اپنے اور دیگر شعبہ جات کے اساتذہ کرام سے تبادلہ خیال شروع کر دیا اور یہ سلسلہ ریٹائرمنٹ تک جاری رہا۔ میری ریٹائرمنٹ کے وقت جناب ڈاکٹر سید مظہر معین پرنسپل کالج تھے انہوں نے میرے اعزاز میں جو الوداعی تقریب منعقد کی ۔ اس تقریب کے دوران میں نے بتایا کہ اصل میں تو میں شعبہ سے کئی سال پہلے ہی ریٹائرڈ ہوگیا تھا کیونکہ میں تدریسی نظام کو جدید خطورط پر استوار کرانا چاہتا تھا لیکن میں کسی کو بھی قائل نہ کرسکا۔

خاص طور پر مقتدر اصحاب تو میرا نقطء نظر سمجھ ہی نہ پائے یا انہوں نے نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا، شاید وہ تبدیلی کا دروازہ کھولنا نہیں چاہتے تھے۔ کیونکہ اس صورت میں ان کی ذمہ داریاں بڑھ جانے کا امکان تھا ۔ کالج کے اکثر رفقاء کا نصب العین تو پروفیسر یا ڈین بننا تھ اور اس کے لیے وہ ریسرچ پیپرز کی مطلوبہ تعداد پوری کرنے میں ہمہ وقت جتے رہتے تھے۔

ریٹائرمنٹ کے فوری بعد مجھے یونیورسٹی کی طرف سے ہر سال معمول کے مطابق بی اے پنجابی کے پرچے موصول ہوئے۔ ظاہر ہے پرچوں کی مارکنگ مالی منفعت کا ذریعہ ہوتی ہے لیکن اب میں نے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ وائس چانسلر کو چٹھی لکھی کہ پرچے واپس منگوا لیے جائیں اور آئندہ مجھے کوئی پرچہ بنانے کا چیک کرنے کی ذمہ داری نہ سونپی جائے۔ نصابات اور تدریسی طریقہ کار کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرانے کے لیے میری تمام کوششیں بے ثمر ہو گئی مجھے اب اس کام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

وائس چانسلر نے میری چٹھی پڑھی اور اسے روایتی طریق کار کے مطابق ڈین کو مارک کر دیا۔ ان دنوں ڈین اور ہمارے صدر شعبہ آپس میں گھی شکر تھے چنانچہ میری گزارشات فائلوں میں دب گئی۔ ہاں میں نے اپنی چٹھی کی اختتامی سطور میں لکھا تھاکہ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ میں نے اس سے پہلے ایسی کوئی چٹھی کیوں نہیں لکھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے اپنی طویل سروس سے یہ سبق سیکھاچکا ہوں کہ اگر کسی شعبے کا سربراہ کوئی کام نہ کرنا چاہے تو اسے حکام بالا کسی طرح بھی مجبور نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے پاس گریز کے ایک سو ایک بہانے ہوتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک مثال بھی عرض کر دوں جب ڈاکٹر جمیلہ شوکت ہماری ڈین تھیں تو ایک روز میں نے انہیں بتایا کہ ہمارا ایم اے پنجابی کا نصاب بتیس سال پرانا ہے تو انہیں جیسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ۔ کہنے لگی کہ نصاب میں تو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں ناگزیر ہوتی ہیں۔

چنانچہ انہوں نے میری ہی سربراہی میں تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی۔ جس میں میرے علاوہ دو اور رفقاء بھی شامل تھے ۔ ہم نے تین چار ماہ کی زبردست محنت کے بعد ایک معقول سا نصاب ترتیب دے دیا تو ڈین ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے پنجابی کے بورڈ آف سٹڈیز کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا ۔ جس میں ڈاکٹر وحید قریشی ، ڈاکٹر اختر حسین اختر اور پروفیسر شریف کنجاہی جیسے جید سکالرز کو بھی شرکت کی دعوت دی۔

ہماری کمیٹی کے ترتیب دیئے گئے نصاب کی جب ایک کاپی صدر شعبہ ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد کے سامنے آئی تو انہوں نے مذکورہ نصاب کے خلاف پراپیگنڈا مہم اٹھا دی۔ الزام یہ لگایا کہ نصاب سیکولر مزاج کا ہے ۔ ڈین ڈاکٹر جمیلہ نے چونکہ صدرِ شعبہ ڈاکٹر عصمت اللہ کو کمیٹی میں شامل نہیں کیا تھا اسلئے وہ اندر سے بھی ناراض تھے۔ بورڈ آف سٹڈیز کا اجلاس شروع ہوا تو شرکاء نے ہمارا مرتب کردہ نصاب یہ کہہ کر ایک طرف رکھ دیا کہ ابھی اتنی تبدیلیوں کی ضرورت نہیں۔ طے پایا کہ پرانے مروجہ نصاب ہی میں تھوڑی بہت تبدیلیاں کر لی جائیں۔ چنانچہ کافی بحث اور تمہیث کے بعد نظر ثانی شدہ نصاب پاس ہوگیا۔

مگر ادھر اجلاس ختم ہوا دھر صدر شعبہ نے بورڈ کی سفارشات کو فیکلٹی بورڈ کو بھیجنے کی بجائے سرد خانے میں بھیج دیا۔ بعد میں انہی صدر شعبہ پنجابی نے پرنسپل اور ڈین کے مناصب بھی سنبھال لئے ۔ تو اب انہیں کون پوچھتاان کے تو پاؤں بارہ ہوگئے۔

نئے عبوری وائس چانسلر کی خدمت میں دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ بڑی دیر سے یونیورسٹی کو یہ روگ لگا ہواہے کہ ایک شخص تین تین چار چار مناصب سنبھال کر بیٹھ جاتا ہے اور مراعات انجوائے کرتا ہے اس کے ساتھ ہی اس کی گردن میں جو اکڑاؤ آجاتا ہے وہ اس پر مستزاد ! کیا ہی اچھا ہو کہ ایک شخص ایک ہی کُرسی پر قناعت کر لے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرے۔

جناب وائس چانسلر! اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ دُنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں وقت کے ساتھ ساتھ نصابات اور طریقہ ہائے تدریس میں تبدیلیاں لائی جاتی ہیں لیکن اورئینٹل کالج کا باوا آدم نرالا ہے۔ شعبہ پنجابی نے تقریبا چالیس برس قبل بی اے اور ایم اے کے جو نصابات ترتیب دیے تھے آج تک ان میں ایک شوشہ بھی تبدیل نہیں کیا گیا۔

جب پنجابی مضمون نیا نیا متعارف کرایا گیا تھا تو اس کا نصاب بے حد مختصر رکھا گیاتھا دوسرے پنجابی پرچوں (بی اے اور ایم اے ) کی مارکنگ میں ہاتھ کھلا رکھنے کی خاموش پالیسی اختیار کی گئی تاکہ طلباء زیادہ سے زیادہ تعداد میں پنجابی پڑھنے کی طرف مائل ہو سکیں۔ یہ پالیسی آج بھی جاری ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس مضمون میں اب ہر سال ہزاروں کی تعداد میں اُمیدوار ریگولر اور پرائیویٹ دونوں سطح پر شریک امتحان ہوتے ہیں۔

گزشتہ چار دہائیوں کے دوران پنجابی نثر و نظم میں کئی نئے رجحانات متعارف ہوئے ہیں جنہیں نصاب کا حصہ بنانے کی اشد ضرورت لیکن شعبہ کی باگ دوڑ جن ہاتھوں میں رہی اُنہیں ذاتی ترقیوں کے حصول کے علاوہ کسی چیز سے قطعا کوئی دلچسپی نہ تھی۔

یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ یہاں طریقہ تدریس بھی فرسودہ ہے ہر پرچے کے چند لگے بندھے ٹاپکس ہوتے ہیں جنہیں اساتذہ ہر سال دہرا دیتے ہیں۔ سیشن کے اختتام پر امتحانات سے کوئی مہنہ بھر پہلے طلباء وطالبات ان لیکچرز کے نوٹس فوٹو سٹیٹ کرا کر رٹ لیتے ہیں اور بڑی آسانی سے امتحان پاس کر لیتے ہیں۔ ان کا مبلغ علم ان نوٹس تک ہی محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔

کوئی بارہ تیرہ برس پہلے سمیسٹر سسٹم رائج تھا ان میں اساتذہ کو بار بار پرچے بنانے دیکھنے اور نتائج تیار کرنے پڑتے تھے اسائنمنٹ الگ تھیں جن کو تیار کرنے کے لیے طلباء کو لائبریری جانا پڑتا تھا اس طرح سے وہ کچھ ریسرچ تکنیک سیکھ لیتے تھے اس سسٹم میں اساتذہ کو وقت زیادہ دینا پڑتا تھا بالاخر اساتذہ اس سے جنرل ارشد کے دور میں ختم کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ اب وہ لیکچر دینے کے بعد وہ اپنے مقالے لکھتے ہیں جن کی بناء پر انہیں تیزی سے ترقیاں ملتی جاتی ہیں۔

میری ذاتی اطلاع کے مطابق ڈاکٹر ظفر معین ناصر یونیورسٹی میں بعض اصلاحات عزم صمیم رکھتے ہیں اس لیے میں نے چند سطور قلم بند کر دیے ہیں ممکن ہے کہ وہ میری سفارشات کا قابل اعتناء سمجھ لیں اور شعبہ پنجابی کی ترقی کی کوئی سبیل بن جائے۔

طوفان نوح لانے سے اے چشم فائدہ
دو اشک ہی بہت ہیں گر کچھ اثر کریں


ہمایوں خالد پنجاب یونیورسٹی اوریئنٹل کالج سے بطور اُستاد ریٹائرڈ ہیں اُنہوں نے شعبہ پنجابی میں تین دہائیوں تک اپنی خدمات پیش کیں۔ وہ روزنامہ پاکستان میں مستقل طور پر کالم نگار بھی ہیں۔ اُن کا یہ کالم روزنامہ پاکستان میں بھی شائع ہو چکا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *