ادھی چھٹی ساری؛ گر اُستاد نہ ہوتے تو پکوڑے بیچتے

  • June 25, 2017 3:28 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر رانا تنویر قاسم

پرائمری، مڈل میٹرک اور انٹر کے کلاس فیلوز کے ساتھ افطاری اور پھر کارخانہ بازار کی وہ تاریخی مسجد جہاں اوائل عمری کی خوشگواراور روحانی یادیں وابستہ ہیں، میں وقت گزار کے بڑی طمانیت محسوس ہوئی، یار لوگوں کے اصرار پر ہم نے “وعظ” بھی فرمایا۔

وہیں پر بھائی امتیاز نے معتکفین کے ساتھ ہمارے لیے سحری کا انتظام کررکھا تھا، ہر معتکف کا پکوان دوسرے سے مختلف، گھروں سے بڑے اہتمام کے ساتھ آئے ہوئے مختلف انواع کے کھانوں کا سجادستر خوان ان کے خوش خوراک ہونے کا ثبوت پیش کررہا تھا۔

والد گرامی کے پھیلے ہوئے شاگردوں کا یہ شہرفیصل آباد اور سمندری کے درمیان واقع ڈجکوٹ اب بہت بدل گیا ہے۔ مگر دوستوں کی محبت اور خلوص میں کوئی تبدیلی نہیں آئی،سکول میں کی گئی شرارتوں سے لیکر اساتذہ کرام کے ساتھ گزرے تلخ وشیریں واقعات کہاں بھولتے ہیں۔فٹ بال، ہاکی، کرکٹ، کبڈی سے لیکر ڈبیٹنگ،حسن قرات ونعت کے مقابلہ جات کا رحجان ہمارے سکول کا خاصہ تھا۔

غیر نصابی سرگرمیوں میں ڈویژنل سطح پر ہمارا سکول ہمیشہ نمایاں پوزیشنز لیتا۔تعلیم کے ساتھ تربیت پرزور دیا جاتا تھا ،اساتذہ سکول کے علاوہ گلی محلے میں نظر آتے طالب علم کوبھی نصیحت کرنےاور اپنے بچوں کی طرح سمھجانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔

بدقسمتی سے آج یہ روایات دم توڑ رہی ہیں ۔اساتذہ کچھ اللہ کو پیارے ہو گئے اوربعض ریٹائرڈ زندگی گزاررہے ہیں ۔اللہ تعالی انہیں صحت وعافیت والی زندگی دے۔رانا طارق محمود بڑا بولڈ سپیکر تھا، اسکےگھر افطاری کے دوران ہونے والی گفتگو میں اسکا وہی بانکپن نمایاں تھا۔

مرزا ثنااللہ بیگ کی شگفتہ مزاجی، اعظم کی جگت بازی، عمران کا منفرد اور دوٹوک طرز تکلم، امتیاز بھولے کا ٹھرائو، شہزاد نزیر کھرل کا تبسم بھرا انداز، فیصل چاند کی کا دھیما پن سب نےاپنی روائت نہیں بدلی، یوں لگ رہا تھا کہ ابھی ہم کلاس میں بیٹھے تبادلہ خٰیال کررہے ہوں،. دوران گفتگو ہمارے مرحوم دوست حافظ محمد عرفان کی یاد کیسے بھلائی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛ یو ای ٹی کے خوش قسمت مُردے

پولیس انسپکٹر کی حیثیت سے اس نے اپنی ایمانداری، فرض شناسی اوراصول پسندی کے ایسے انمنٹ نقوش چھوڑے ہیں کہ دنیا آج بھی اس مرد درویش کو یاد کرکے روتی ہے ۔افسوس کہ وہ بن کھلے ہی مرجھا گیا ،پھر اس شہر کا ایک اور ہیرا مقصود احمد فاروقی جس نے کشمیر میں جام شہادت نوش کیا کی یاد بھی نہیں بھلا ئی جاسکتی۔

یہ دونوں والد گرامی علیہ رحمہ کے ہونہار شاگردوں میں تھے ۔ جن کی قرات اورخطابت کا چرچا اس شہر کی فضائوں میں عام تھا ۔اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے آمین۔ ۔سکول میں مار نہیں پیارکے جدید فلسفے سے ہمارے اساتذہ بالکل ناآشنا تھے۔ڈنڈوں کا خوب استعمال ہوتا،ٹھٹھرتے دسمبر کے مہینے میں ہم لنڈے سے خریدے۔

زیرجامہ لباس کا خوب اہتمام کرتے تاکہ ڈنڈے کی چوٹ کم محسوس ہو، مگر اساتذہ شاید جس طرح پڑھا ہے اسی طرح پڑھائیں گے اصول کے تحت بالکل رحم نہ کھاتے، ہماری رحم کی اپیلیں ہمیشہ مسترد ہوتیں۔

میں کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ آج ہم جس مقام پر ہیں شاید یہ اسی ڈنڈے کا کمال ہے۔ورنہ ہم بھی فیقے اور شیدے کی طرح پکوڑے بیج رہے ہوتے ۔اس زمانے میں باپ بچے کو سکول داخل کراتے ہوئے ماسٹر جی سے کہا کرتا تھاکہ بچے کی ہڈیاں ہماری اور چمڑی آپ کی ہے۔

مسجد میں اساتذہ ماسٹر یونس صاحب اور عبدالرحمن صاحب سے ملاقات ہوئی۔ مل کر بہت خوشی ہوئی۔ عبدالرحمن صاحب فرمانے لگے کہ انٹر میں آپ نے ہائیر سیکننڈری سکول میں سب سے زیادہ نمبر لیے تھے اور سکول میں لگے بورڈ پر جب بھی آپ کا نام دیکھتا ہوں تو بہت خوشی ہوتی ہے ۔ یہ سب والدین کی دعائوں اورمحترم اساتذہ کی شفقت اور محنت کا نتیجہ ہے ۔ اس زمانے میں ہمارےسکول میں پھٹے ہوئے ٹاٹ ہوا کرتے تھے،ایک نلکا ہوتا تھا جس کے کھارے پانی سے ہم مستفید ہوتے تھے۔ اپنے سکول اور اس زمانے کی منظر کشی شبیرقدیمی کی اس نظم میں ملتی ہے۔

سوتیاں نی رہنا تے ماں نے جگانا
سُورج کدی واوا سیکا وی لانا
اوٹھ کے سکُولاں دی کرنی تیاری
کدی چُھٹی اَدھی کدی ہونی ساری
او لکڑ دی پھٹی نہ بستے چ پینی
گاچی دی ٹیلی وی چیتے نہ رہنی
کالی سیاہی جا ہٹی توں لینی
یاراں دی پِھکی تے کوڑی وی سہنی
ٹاٹاں تے بیندے ساں جا کے سکُولے
او قلماں نہ رہیاں دواتاں نہ رہیاں
او گلاں نہ رہیاں او باتاں نہ رہیاں
اسی طرح ایک اور پنجابی کے شعر میرے کانوں میں گونج رہے ہیں
یار بیلی سجن پیارے کِتھے گئے
بیندے سَن جیہڑے رَل مِل سارے کِتھے گئے
منجی ٹالی بوڑ وی نظری اَوندا نئیں
کُھو سن جیہڑے مِٹھے کھارے کِتھے گئے

اسی طرح بچپن کی اور نظم یاد آرہی ہے کہ

آدھی چھٹی ساری
میاں مکھی ماری
میاں گئے دِلی
اوتھوں لیاندی بِلی
بِلی نے دِتے بچے
اللہ میاں سچے

وہ وضع داری، وہ خلوص وہ تڑپ، وہ جذبے، وہ احساس، وہ ایثار اور وہ اقدار دم توڑ گئیں۔ تعلیم سرمایہ داروں کے قبضے میں چلی گئی۔ طبقاتی نظام تعلیم نسل نو کو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا رہا ہے ۔سماج، ریاست اور قومیت کے بارے میں مشاہیرکی فراہم کردہ اقداردم توڑ رہی ہیں۔ فاسٹ فوڈ اور وائی فائی کے ماحول میں پلنے والی نسل کیا جانے کہ آج بڑے مناصب پر فائز شخصیات انہی ٹاٹ سکولوں فارغ التحصیل ہوئی ہیں۔ ترقی کے زینے پر سوار ہوکر بھی آج سرکاری سکول جدید سہولتوں سے محروم ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں؛ علم سے فراڈ پھر بابا غائب ہوگیا

پچھلے دنوں ایک رپورٹ نظر سے گزری کہ پنجاب کے 6514 سرکاری سکولوں کی عمارتیں خستہ حال ہیں۔5486 سکولوں میں پینے کاصاف پانی میسر نہیں۔2706 سرکاری سکولوں کی چاردیواری موجود نہیں۔12970اسکولوں میں بچوں کیلئے کرسیاں اور ڈیسک موجود نہیں ہیں جبکہ اس وقت سرکاری سکولوں میں 62 ہزار 775 اساتذہ کی آسامیاں خالی پڑی ہیں۔9 فیصد سرکاری سکولوں میں صرف ایک کمرہ موجود ہے۔کئی سکولوں کی توعمارت تک نہیں۔

دوسری طرف مہنگے تعلیمی اداروں اور سرکاری سکولوں کے نصاب تعلیم میں فرق طبقاتی احساس کمتری کا سبب بن رہا ہے۔ تعلیمی ادارے کمرشل ادارے بن چکے ہیں اور بہترین منافع بخش کاروبار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ حالانکہ اسلام میں تعلیم کو ذریعہ معاش بنانے کی ممانعت کی گئی ہے۔

امیر طبقہ اور جاگیردار اپنی اولادوں کی ہزاروں کی فیس دے کر تعلیمی اداروں کے اخراجات بآسانی پورے کر رہے ہیں۔ اور اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرونی ممالک کی مہنگی ترین یونیورسٹیوں میں داخلہ دلوا دیتے ہیں۔ دوسری جانب غریب طبقہ اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم دلوانے کے قابل بھی نہیں ہیں۔

یوں لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ متوسط طبقے کے طلباء تعلیمی میدان میں اعلیٰ کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود بیروزگار ہیں اور ملازمت کے مواقع مہنگے تعلیمی اداروں کے طلباء کو میسر ہو رہے ہیں۔

ہمارے تعلیمی معاشرے میں انگلش میڈیم اور اردو میڈیم نظام تعلیم کو ختم کرتے ہوئے تمام تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب تعلیم متعارف کروایا جائے۔ میں یہاں کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گیاہوں اور بڑی ثقیل باتیں ہوگئیں۔

میں مسجد بیٹھا دیکھ رہا تھا سکول کے زمانے کے جوان بوڑھے اور بچے جوان ہوگئے، ہم جماعتوں کے بال بھی سفید ہو گئے ۔اللہ تعالی سب کو اپنی امان میں رکھے۔ یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا کے مصداق، بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ۔زندگی رہی تو اپنی خود نوشت میں بیان کروں گا ۔


tanvir-qasim

رانا تنویر قاسم یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے بطور اُستاد وابستہ ہیں۔ اُنہوں نے اسلامیات کے مضمون میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔وہ مثبت تنقیدی نقطء نظر کو اپنی قوت سمجھتے ہیں۔

  1. ڈاکٹر صاحب بہت خوب۔ بچپن یاد دلا دیا۔موجودہ نظام تعلیم کی موحودگی کے ہم بھی ذمہ دار ہیں۔اس کی بہتری کے لئےکوششیں کرنی چاہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *