عدالت کا سرچ کمیٹی کے فائنل کردہ ناموں سے وائس چانسلرز لگانے کا حکم

  • April 27, 2017 7:05 pm PST
taleemizavia single page

لاہور: آمنہ مسعود

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی سربراہی میں قائم ڈویژن بنچ نے پنجاب میں وائس چانسلر تقرری کیس کا فیصلہ سنادیا ہے۔ عدالت نے پنجاب حکومت کو حکم جاری کیا ہے کہ سرچ کمیٹی کے فائنل کردہ تین تین ناموں میں سے ہی وائس چانسلر تقرر کیا جائے۔

عدالت نے حکومت کو حکم جاری کیا ہے کہ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، یونیورسٹی آف سرگودھا اور محمد نواز شریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹٰیکنالوجی میں فوری طور پر مستقل وائس چانسلرز تعینات کرے اور اس کے لیے سرچ کمیٹی کی سفارشات میں سے ناموں کو ہی کنسیڈر کیا جائے۔

سرچ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کے لیے ڈاکٹر رخسانہ کوثر، ڈاکٹر شاہدہ حسنین، ڈاکٹر عظمیٰ قریشی کا نام شامل ہے۔

یونیورسٹی آف سرگودھا کے لیے ڈاکٹر اشتیاق احمد، ڈاکٹر طاہر کامران، ڈاکٹر ظفر معین ناصر کا نام شامل ہے۔ محمد نواز شریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان کے لیے ڈاکٹر عامر اعجاز، ڈاکٹر محمد زبیر، ڈاکٹر شاہد مُنیر کا نام شامل ہے۔

سرچ کمیٹی نے پنجاب حکومت کو اپنی سفارشات میں پنجاب یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی تعیناتی کے لیے ڈاکٹر محمد زکریا ذاکر، ڈاکٹر مجاہد کامران اور ڈاکٹر ظفر معین ناصر کا نام بھیج رکھا ہے۔

ڈاکٹر مجاہد کامران کا نام سمری میں شامل کرنے کے ساتھ ایک پیراگراف بھی لکھا گیا ہے جس میں اُنہیں تیسرا اور میرٹ کے مطابق اُمیدوار کنسیڈر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛ وائس چانسلرز سمری میں مجاہد کامران کا نام شامل یا نہیں، معمہ حل ہوگیا

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سرچ کمیٹی کی تشکیل میرٹ کے مطابق کی گئی تھی اور وائس چانسلرز تقرری کے لیے پنجاب حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے طے کردہ ضوابط پر عمل درآمد کیا ہے۔

عدالتی فیصلے میں انڈین ایکٹ 1935ء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تعلیم پر قانون سازی صوبائی حکومت کا اختیار ہے اور اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم سے متعلق تمام فیصلہ جات صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

عدالت نے وفاقی حکومت اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ آئندہ مستقبل میں پالیسی اور گائیڈ لائنز جاری کرنے سے پہلے اس کی کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) سے منظوری لینے کا پاپند ہوگا۔ فیصلے کے مطابق ایچ ای سی کی پالیسی اور گائیڈ لائنز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی اگر وہ ان کی منظوری سی سی آئی سے نہیں لیتی۔

ڈویژن بنچ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت اس مرحلے پر تین وجوہات کی بناء پر وائس چانسلرز تقرری میں مداخلت نہیں کر سکتی؛

الف؛ پنجاب حکومت کی قائم کردہ سرچ کمیٹی پر اعتراضات کی کوئی واضح وجوہات سامنے نہیں آئیں۔

ب؛ عدالت نے تمام ریکارڈ چیک کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وائس چانسلرز تعیناتی کے لیے جو طریقہ پنجاب حکومت نے اختیار کیا ہے کہ وہ ایچ ای سی کے ضوابط اور قانون کے مطابق ہے۔

پ؛ سرچ کمیٹی کی سفارشات پر پہلے ہی سات یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز تعینات کیے گئے ہیں اب مداخلت کرنے سے ان سات یونیورسٹیوں میں بھی وائس چانسلرز تعیناتیوں پر ابہام پیدا ہوجائے گا جو کہ عدالت میں زیر سماعت نہیں ہے۔

ان سات یونیورسٹیوں میں فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان، غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان، گورنمنٹ صادق کالج ویمن یونیورسٹی بہاولپور اور خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجیںئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یار خان شامل ہیں۔

چیف جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم کیے گئے اس ڈویژن بنچ نے پنجاب حکومت کو آئندہ وائس چانسلرز تقرری کے لیے گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں۔ عدالت نے پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سفارشات کومد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مستقبل میں ہر یونیورسٹی کے لیے الگ الگ سرچ کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔

سرچ کمیٹی میں ممبران ایک جیسے تو ہوسکتے ہیں تاہم ہر یونیورسٹی کے ایکٹ اور ضوابط کے تحت سرچ کمیٹی کا الگ الگ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔

عدالت نے حکم جاری کیا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی، کمپیوٹر سائنس، میڈیکل، ہیلتھ، ایگری کلچر، ویمن اور جنرل یونیورسٹیز کی سرچ کمیٹی کے ممبران کی اہلیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔

اس حوالے سے عدالت نے خیبر پختونخوا احتساب کمیشن ایکٹ 2014ء کی سرچ کمیٹی اور سکروٹنی کمیٹی کی ہدایات پر عمل درآمد کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جب تک پنجاب حکومت مستقل وائس چانسلرز تعینات نہیں کرتی اُس وقت تک عبوری وائس چانسلرز کام کرتے رہیں گے۔ عدالت نے مذکورہ چار یونیورسٹیوں میں بارہ جنوری کو عبوری وائس چانسلرز تعینات کیے تھے۔

دوسری جانب چیف جسٹس نے پنجاب یونیورسٹی کے عبوری وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین ناصر کی نااہلیت پر دائر کیس کی بھی سماعت کی جس پر اُنہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ظفر معین ناصر اب پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر نہیں ہیں تاہم اگر پنجاب حکومت کی جانب سے انہیں وائس چانسلر تعینات کر دیا جاتا ہے تو ان کی نااہلی کی درخواست پرسماعت کی جائے گی۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر ظفر معین کا نام سرچ کمیٹی کی جانب سے میرٹ کے خلاف شارٹ لسٹ کرنے پر کیس لاہور ہائیکورٹ میں دائر کیا گیا تھا جس میں ان کا تعلیمی تجربہ اور ریسرچ پیپرز کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے کا اعتراض لگایا گیاہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *