انقلاب روس کی ایک صدی کا تعلیمی خاکہ

  • August 22, 2019 6:20 pm PST
taleemizavia single page

آصف رشید

روس 1917ء کے انقلاب سے قبل ایک پسماندہ زرعی ملک تھا، جس کی آبادی کی اکثریت ناخواندہ تھی۔ سوویت یونین کو ایک عظیم صنعتی ریاست میں بدلنے کا زیادہ انحصار اس بات پر تھا کہ لوگوں کو فوری طور پر تعلیم دی جائے۔ سوویت حکومت کے قیام کے چار دن بعد ہی بالشویکوں نے ایک جامع تعلیمی منصوبہ (سوویت کمیونزم) شائع کیا۔

اس منصوبے کا عمومی خاکہ کچھ اسطرح ہے: بچوں اور نوجوانوں سمیت تمام عمر کے افراد کے لیے ایک آفاقی اور غیر طبقاتی نظام تعلیم، جو مکمل طور پر عملی تربیت اور روشن خیالی پر مبنی ہو۔ مسلمہ طور پر نصاب سے تمام تر فرسودہ اور دقیانوسی روایات کا خاتمہ کرتے ہوئے نظام تعلیم کوجدید سائنسی بنیادوں پراستوارکیا جائے۔ ہر قسم کی توہم پرستی سے پاک نظام، جس میں ہر فرد کی زندگی کا حتمی مقصد معاشرے کی خدمت کرنا ہو۔ اصولی طور پر سارے کا سارا نظام مفت، لازمی اور سیکولر ہو گا۔

یہ خاکہ ہمیں سوویت یونین کے نظام تعلیم کے بارے میں حقیقی معلومات فراہم کرتا ہے اور ایک منصوبہ مند معیشت کے طریقہ کا ر اور مقاصد پر مزید مطالعہ کی بنیاد مہیا کرتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ تعلیم کسی معاشرے کی زندگی میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے۔

چند عمومی حقائق

سوویت یونین کے آئین میں ہر سطح پر مفت تعلیم اور 15 سال کی عمر تک اس کا حصول ہر فرد کے لیے لازمی قرار دیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 121 کے مطابق تعلیم کا حصول سوویت باشندوں کا بنیادی حق ہے۔ بنیادی تعلیم کا حصول لازمی اور اعلیٰ تعلیم سمیت ہر سطح پر تعلیم کی مفت فراہمی کا بندوبست کیا گیا۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی وسیع اکثریت کے لیے حکومتی وظائف کا نظام متعارف کروایا گیا۔ اس آرٹیکل کے مطابق سکولوں میں تعلیم مقامی زبان میں دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ فیکٹریوں، ریاستی اور اجتماعی فارمز، مشین اور ٹریکٹر اسٹیشنوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو عملی تکنیکی اور زرعی تربیت دینے کے لیے تنظیمیں بنائی گئیں۔

سوویت یونین کی تمام جمہوریاؤں (ری پبلکس) میں تعلیم مقامی زبان میں دی جاتی ا ور مخلوط نظام تعلیم رائج کیا گیا۔ 15 سال کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے بہت قلیل فیس رکھی گئی وہ طلبہ جو ایک مخصوص معیار تک پہنچ جاتے انکو حکومتی وظیفہ دیا جاتا جو پڑھائی کے دوران انکی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوتا تھا۔ اس حوالے سے ایک لطیفہ زبان زدعام ہوگیا کہ سوویت طلبہ بیرون ممالک سے آنے والے طلبہ سے پوچھتے کہ آپ کی حکومت تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپکو کتنے پیسے دیتی ہے۔

نوجوانوں کے لیے تعلیم صرف کمرہ جماعت تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ مفت صنعتی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ وسیع اکثریت کے لیے تعلیم زندگی کا لازمی جزو تھی، ایک رہنما اصول تھا کہ تعلیم صرف کتابیں رٹنا نہیں بلکہ یہ حقیقی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ بچوں کو ایسے تربیت دی جاتی کے وہ اپنی عملی زندگی اور مجموعی طور پر معاشرے کے لیے ایک مفید کارکن کے طور پر تیار ہو سکیں اورتعلیم انکو مستقبل میں زندگی اور سماج کے تمام پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد دے سکے۔

تعلیم، افراد اور ریاست

سوویت یونین کا تعلیمی نظام مختلف یونینوں کے کمیساروں اور خود مختار جمہوریاؤں کے اشتراک سے مرکزی سطح پر تیار کیا جاتا تھا۔ بعض مخصوص حالات کے پیش نظر اس میں ترامیم کی مناسب گنجائش موجود ہوتی تھی۔ مرکزی پلاننگ کمیشن، جو کہ سارے سوویت یونین کی معاشی منصوبہ بندی کا ذمہ دار تھا، کاعمومی تعلیمی منصوبے کی تشکیل میں ایک ثقافتی حصہ تھا جو اس بات کا تعین کرتا تھا کہ کتنے نئے سکول بنائے جائیں، یہ سکول کس قسم کے ہوں گے، نئے اساتذہ کی تعداد کتنی ہونی چاہیے، کتنی نئی لائبریریاں بنائی جائیں وغیرہ وغیرہ۔

مثلاً تیسرے 5 سالہ منصوبے میں 20 ہزار نئے سکول بنانے اور 5 لاکھ نئے اساتذہ کی تربیت کا پلان بنایا گیا۔ پلاننگ کمیشن اس بات کا فیصلہ کرتا کہ ہر کام کے لیے کتنی رقم مختص کی جائے۔ مرکزی بجٹ میں تعلیم کے لیے رقم رکھی جاتی اور جمہوریاؤں میں تعلیم کے کمیسار عمومی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ بجٹ کے اخرجات اور تعلیم کے نظم ونسق کی ذ مہ داری ادا کرتے تھے۔

مرکزاور جمہوریہ کے درمیان تعلیمی معمولات کو چلانے کے لیے تقسیم کار موجود تھی، جس کا مقصد کمیساروں کا مرکزی تعلیمی کمیٹی کے ساتھ ملکر بنیادی اصولوں کا تعین کرنا اور ہدایات جاری کرنا تھا، تاکہ مختلف جمہوریاؤں کے کمیسار ان اصولوں کو لاگو کروانے کے لیے مزید تفصیلی ہدایات جاری کر سکیں۔ جیسے ٹائم ٹیبل کی بہتر تقسیم وغیرہ۔ والدین پر مشتمل اجلاس، مقامی سوویتوں کا تعلیمی کمیشن، ٹریڈ یونینز اور دوسری اہم تنظیمیں تعلیم کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ اس طریقہ کار کے ذریعے تعلیمی اخراجات میں تیزی سے اضافہ کیا جانے لگا۔ 1931ء سے 1941ء کے دوران ہر فرد کی تعلیم پر اخراجات میں 8 گنااضافہ ہواجو اس وقت کی داخلی پیداوار کا 12 فیصد بنتا تھا۔

تاریخی پس منظر

روس میں سوویت حکومت کے قیام سے قبل کوئی وفاقی نظام تعلیم موجود نہیں تھا۔ لاکھوں بچے سکول نہیں جاتے تھے۔ کسان آبادی کی اکثریت پسماندہ، ناخواندہ اور توہم پرستی کا شکار تھی۔ اقلیتوں کی صورتحال بدترین تھی۔ اسکی وجہ انقلاب سے قبل زار حکومت کی پالیسی تھی کہ قومیتوں کی ثقافت کو برباد کر دیا جائے۔ جیسے یوکرائن اور جارجیا والوں کو اخبارات، کتابوں اور عدالتوں میں اپنی زبان استعمال کرنے کی ممانعت تھی۔ ان اقلیتی اقوام میں جو لوگ سکول جاتے بھی تھے انہیں روسی زبان میں ہی پڑھنا پڑتا تھا۔

تعلیم کی طرف حکومت کا رویہ شسکوؤو، جو زار حکومت میں وزیر اطلاعات تھا، کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ علم تب ہی مفید ہے جب اسکو کھانے میں نمک کی طرح محدود پیمانے پر لوگوں کے حالات اور ضروریات کے مطابق استعمال کیا جائے، عوام کی وسیع اکثریت کو تعلیم دینا فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اسی حکومت کے ایک اور ممتاز نمائندے کا کہنا تھا کہ تعلیم کا تناسب تعلیم یافتہ افراد کی خوشحالی کے حساب سے ہونا چایئے۔ جو سکول و کالج موجود تھے وہ بھی بورژوا طبقے کے بچوں کے لیے ہی تھے۔ بے جا سختی اور پابندیوں نے ان تعلیمی اداروں سے تمام ثقافتی اقدار کا خاتمہ کر دیا تھا۔

حالات اتنے خراب تھے کہ بچوں میں خود کشی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ ہبس پیل اپنی کتاب ’یوتھ آف روس ‘میں لکھتی ہیں کہ یہ بات بہت تشویشناک ہے کہ مواصلات کی وزارت کو بچوں میں خود کشی کی وجوہات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دینا پڑا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بالغ آبادی کا 73 فیصد ناخواندہ تھا۔ جبکہ اقلیتوں میں خواندگی کی شرح 5 فیصد سے بھی کم تھی۔ قازقستان میں 2 فیصد، ازبکستان میں 1 فیصداورتاجکستان میں یہ شرح 5 فیصد تھی۔

روس میں 175 قومیتوں میں سے 124 کا اپنا رسم الخط موجود نہیں تھا۔ اس دگرگوں صورتحال میں 1917ء کے انقلاب کے بعد سوویت یونین کا تعلیمی نظام مصنوعی طریقے سے تیز رفتار ترقی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ صورتحال 1921ء کے بد ترین قحط کے بعد مزید خراب ہو گئی۔ قحط اور جنگ نے بڑی تعداد میں نوجوان نسل کو بے گھر، یتیم، لاوارث اور محروم کر دیا۔ یہ نوجوان غنڈہ گردی، قانون شکنی اور جرائم کا شکار ہو کر ملک کے طول و عرض میں دہشت کا باعث بن گئے۔ گوداموں اور گندی جگہوں پر رہنے کی وجہ سے نوجوان بہت سی مہلک ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے۔ ایسے بچوں کو اخلاقی اور تعلیمی حوصلہ افزائی کی اشد ضرورت تھی۔

اتنے گہرے اور شدید نوعیت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے تعمیری کوششوں پر مشتمل کئی سال درکار تھے۔ تعلیم کی تیز ترین بڑھوتری کے لیے دستیاب وسائل بہت محدود تھے۔ روس میں عمارتوں، کتابوں، اساتذہ اور دیگر ضروری سازوسامان کی شدید قلت تھی۔ کئی سال تک گنجان آباد علاقوں بالخصوص ماسکو میں دوہری شفٹیں چلانی پڑتی تھیں۔ جہالت اور توہم پرستی پر قابو پانے کی اشد ضرورت تھی۔ دور دراز علاقوں میں بسنے والے پسے ہوئے قدیم قبائل اساتذہ کی شدید مخالفت کرتے تھے۔

نئی تعلیمی پالیسی

آٹھ سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے نگہداشت کے مراکز، کنڈرگارٹنز، کھیل کے مراکز اور نرسری سکول بنائے گئے۔ یہ سب آپشنل تھے۔ والدین اپنی مرضی سے ان میں سے کسی کا بھی انتخاب کر سکتے تھے۔

آٹھ سے 15 سال کی عمر کے تمام بچوں کے لیے سات سالہ سکولنگ کانظام ترتیب دیا گیا۔ 10 سالہ سکولنگ جنگ سے قبل قصبوں اور دیہاتوں میں لازمی قرار دی گئی۔ لازمی تعلیم 15 سال کی عمر میں ختم ہو جاتی تھی۔ صنعتی سکول فیکٹری اور تجارتی سکولوں پر مشتمل تھے۔ پیشہ ورانہ تعلیم کے لیے پیشہ ورانہ سکول اور اکیڈمیاں موجود تھیں۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹیاں اور مخصوص ادارے بنائے گئے۔ تعلیم بالغاں کے لیے کلب، معاون کورسز، فلمیں اور تھیٹر وغیرہ بنائے گئے۔

1913ء میں پرائمری اور سیکنڈری سکولوں میں بچوں کی تعداد 78 لاکھ تھی جو کہ 1940ء میں بڑھ کر3 کروڑ 50 لاکھ ہو گئی۔ جبکہ اسی عرصے میں تکنیکی سکولوں کی تعداد 35 ہزار 8 سو سے بڑھ کر 9 لاکھ 51 ہزار 9 سو ہو گئی تھی۔ یونیورسٹیوں کی تعداد 71 سے بڑھ کر 718 ہو گئی جبکہ یونیورسٹی میں ہر سال طلباکی تعداد 1 لاکھ 12 ہزار سے بڑھ کر 6 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔

پری سکول تعلیم

سوویت حکومت نے 8 سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے ایک آپشنل پری سکول ایجوکیشن سسٹم متعارف کروایا۔ اس سے قبل بچوں کی نگہداشت کے لیے صرف 550 مراکز موجود تھے۔ ان مراکز کی تعداد 1932ء میں 6 لاکھ جبکہ 1937ء میں 30 لاکھ ہوگئی، جس میں مسلسل اضافہ جاری رہا۔ یہ مراکز فیکٹری، اجتماعی فارموں، فلیٹس اور کام کی جگہوں کے ساتھ بنائے جاتے تھے۔ فیکٹریوں کی ٹریڈ یونینز، عوامی کمیٹیاں، والدین، انتظامی کمیٹیاں اور صحت کے کمیسار ان مراکز کو چلانے میں تعاون کرتے تھے۔

نگہداشت کے مراکز کام کی جگہوں کے ساتھ اس لیے بنائے گئے کیونکہ مائیں شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے کے لیے کم وقت میں وہاں پہنچ سکتی تھیں۔ مرکز چلانے والی ’مس بیٹرس کنگ‘ بیان کرتی ہیں کہ ’’ان مراکز میں کمرے بہت بڑے، کشادہ، روشن اور شاندار ہیں۔ ہر کمرے کے ساتھ ملحقہ برآمدہ ہے جہاں بچے گرمیوں اور سردیوں میں سو سکتے ہیں۔ ایک بڑا کچن ہے جہاں باورچی اجتماعی کھانا تیار کرتے ہیں۔ ان مراکز میں لانڈری، باغات اور کھیل کی جگہیں بھی موجود ہیں۔ ہر 12 سے 15 بچوں کے گروپ کے لیے ایک تربیت یافتہ شخص مامور ہے، جسکی مدد کے لیے ایک غیر تربیت یافتہ معاون بھی موجود ہے۔‘‘

یہ مراکز والدین کی تربیت کے لیے بہت ہی طاقتور ادارے تھے۔ بہت چھوٹے بچوں کے سکول بھی نگہداشت کے مراکز کے طور پر کام کرتے تھے جہاں داخلہ رضاکارانہ بنیاد پر ہوتا تھا۔ ان مراکز میں آنے والے بچوں کی تعداد 1940ء میں 8 لاکھ سے بڑھ کر 35 لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ والدین اور اساتذہ کے درمیان سٹاف کونسل اور والدین کی کونسل کی ماہانہ میٹنگز کے ذریعے باہمی تعاون موجود تھا۔

والدین کی سکولوں میں اور اساتذہ کی بچوں کے گھروں میں آمد کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ بچوں کے نصاب میں عمر کے حساب سے چند اسباق کے علاوہ زیادہ تر کھیلنا، کھانا پینا اور سونا شامل ہوتا تھا۔ رسمی تعلیم 6 سال کی عمر سے شروع ہوتی۔ تمام بڑے ریلوے اسٹیشنوں پر بھی بچوں کے لیے مخصوص کمرے اور کھیل کی جگہیں موجود تھیں۔

نگہداشت کے مراکز اور نرسری سکولوں کے ذریعے بچوں کی نہ صرف دیکھ بھال کی جاتی بلکہ صحت و صفائی کے اصول بھی سکھائے جاتے۔ ڈاکٹر ہر سکول کے عملے کا حصہ ہوتا۔ کھیل سمیت ہر سرگرمی کا تعین اس طرح کیا جاتا کہ معاشرتی اقدار، خود انحصاری اور احساس ذمہ داری کو پروان چڑھایا جاسکے۔ مثلاً بچوں کا رنگین اینٹوں کا ایک کھلونا تھا، ان اینٹوں کا مخصوص وزن اور جسامت ہوتی تھی، یہ اینٹیں اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاناایک اکیلے بچے کے لیے مشکل ہوتا تھا۔ بچوں کو ان اینٹوں سے کھیلنے کے لیے دوسرے بچے سے مدد کی درخواست کرنی پڑتی تھی۔

چھوٹے بچوں کی ماؤں کے لیے کام پر جانے اور سماجی سرگرمی میں حصہ لینے کے لیے ایک نظام بنایا گیاتاکہ گھر میں جکڑے رہنے کے بر عکس عورت اور مرد کے درمیان حقیقی عملی اور نظریاتی برابری قائم ہو سکے۔ اگر والدین چاہتے تو انفرادی طور پر نگہداشت کے مراکز اور سکولوں سے بچوں کی پرورش کے بہتر طریقے سیکھ سکتے تھے۔

پرائمری اور سیکنڈری سکول

سوویت منصوبہ بند معیشت کے تحت تعلیم کے شعبے میں بے پناہ ترقی ہوئی۔ پرائمری اور ثانوی سکولوں میں 1913ء میں بچوں کی تعداد 78 لاکھ تھی جو کہ 1942ء میں بڑھ کر 4 کروڑ تک پہنچ گئی تھی۔ سارے سوویت یونین میں لازمی تعلیم مرحلہ وار 8 سے 15 سال تک ترتیب دی گئی۔ اب یہ کہا جا سکتا تھاکہ ہر گاؤں کا اپنا سکول ہے۔ دوسرے 5 سالہ منصوبے میں 20 ہزارنئے سکول تعمیر کیے گئے اور پھر تیسرے 5 سالہ منصوبے میں مزید 20 ہزار سکول تعمیر کیے گئے، جن میں سے 16 ہزار دیہی علاقوں اور 4 ہزار قصبوں میں بنائے گئے۔

سوویت یونین کے زیادہ پسماندہ حصوں کو حکومت کی طرف سے اضافی امداد دی جاتی تاکہ وہ پورے ملک کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کر سکیں۔ حتمی مقصد تمام بچوں کے لیے دس سالہ تعلیم کے نظام کوتشکیل دیناتھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تیسرے5 سالہ منصوبے میں شہروں میں 18 سال کی عمر تک لازمی تعلیم کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہ منصوبہ بہت کامیاب رہا اور ملک میں دس سالہ تعلیم کے سکولوں میں بچوں کی تعداد میں دیو ہیکل اضافہ ہوا۔

ستمبر 1940ء میں عالمی صورتحال نے یہ ضروری کر دیا کہ اس سلسلے کو روکا جائے۔ اس لیے قصبوں میں8 سے 15 سال کی عمر تک ہی تعلیم لازمی قرار دی گئی، جس طرح سے باقی پورے ملک میں تھی۔ اس ضمن میں دس سالہ تعلیم کو رضاکارانہ بنا دیا گیا (یعنی جو چاہے وہ پڑھ سکتا ہے)۔ ایک مختصر حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں نوجوانوں کو فیکٹریوں میں اور تجارتی سکولوں میں تربیت دینے کا آغاز ہوا۔

طریقہ کار

تعلیم سے متعلق مختلف طریقوں پر تجربات کرنے کے بعد سوویت یونین نے تعلیم کا منظم نظام ترتیب دیا۔ بہت زیادہ اہمیت اس بات کو دی گئی کہ تعلیم سے منسلک ہر چیز کو حقیقی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔ نہ صرف کتابیں پڑھی جائیں بلکہ ہر ممکن حد تک ا س بات کو یقینی بنایا گیا کہ اسباق کو عملی سرگرمی کے ساتھ جوڑا جائے۔ فیکٹریوں اور فارمز کے ساتھ ملحقہ تھیٹر، عجائب گھر اور تفریخی مقامات بنائے گئے۔

ہر سکول میں سینمابنائے گئے تاکہ تعلیم دینے اور سیکھانے کے لیے فلم کا استعمال کیا جائے۔ فیکٹری اور اجتماعی فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے ذریعے سکول کی زندگی اورمعاشرتی زندگی میں ربط قائم کیاگیا۔ سر برناڈ پیرس روس پر اپنی کتاب ’ایم ایس پینگوئن‘ میں لکھتا ہے کہ سوویت تعلیم کا ایک اہم جزو یہ تھا کہ ہر محنت کش کو ہر کام آنا چاہیے، اسے پوری سمجھ بوجھ ہونی چاہیے۔ وہ صرف ایک کا م تک محدود نہ ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کھیل کے دوران بھی اسکو سیکھنا چاہیے۔

سکول کے نصاب میں فطرت، فن، موسیقی، جسمانی اور سماجی سائنس کے متعلق علوم شامل تھے۔ ستمبر 1940ء کے ایک حکم نامے کے مطابق 12 سال کی عمر کے بعد ہر طالبعلم کے لیے ایک غیر ملکی زبان مثلاً انگریزی، جرمن یا فرانسیسی سیکھنا لازمی قرار دیا گیا۔۔۔ جاری ہے۔۔


بشکریہ سٹرگل ڈاٹ پی کے