بعثت نبویﷺ کے مقاصد

  • November 23, 2018 10:06 am PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر تنویرقاسم

اللہ تعالی کو اپنی اور اپنے محبوب کی محبت کے لیے نظریاتی مسلمان درکار ہیں۔ اسلام میں کسی راہنماء کی شخصی خوبیوں اور اوصاف کے گن گانے کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اسے کسی قبیلے، گروہ، رنگ ونسل اور قومیت یا وراثت سے کوئی سروکار ہے۔اسے نہ تو اللہ تعالی کی وحدانیت اس کی الوہیت اور ربوبیت کے ساتھ شریک ٹھرانے والوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی شرک فی الرسالت ﷺ کے مرتکبین کی۔

یہ نظریاتی صفت اگر چپٹی ناک والے، کالے رنگ والے، پست قد والے حبشی النسل بلال ؓکے ہاں موجود ہے تو اس کی عظمت دیکھئے کہ وہ زمین پر چلتا ہے توآواز آسمان پر سنائی دیتی ہے اور اگر یہ نظریاتی صفت حضور ﷺکے اپنے سگے چچا میں موجود نہیں تو اسکی دنیا وآخرت میں کوئی عزت نہیں۔

مشرکین مکہ اور سرداران قریش تو آپﷺ کو عطائے نبوت سے پہلے صادق وامین کا لقب دے چکے تھے، آپ کی دنیا پر تشریف لانے پر خوشی کا اظہار بھی کرچکے تھے، آپ کے چہرہ انور، آپ کی زلفیں، آپ کے جمالیاتی حسن اور شخصی اوصاف کی تعریفیں کرتے تو تھکتے ہی نہیں تھے۔

مگر جب وہی محمد بن عبداللہ کوہ صفا پر مکہ کے لوگوں کے مجمع سے اپنے خطاب میں کہتا ہے کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آرہا ہے اور تم پر حملہ کردے گا تو کیا تم میری بات پر یقین کرلو گے ؟تو لوگوں نے کہا کہ آپ تو صادق ہیں آپ نے تو کبھی جھوٹ بولا ہی نہیں۔ پھر کیا ہوا ؟

جب آپ ﷺ نے کہا کہ قولولاالہ الا اللہ تفلحوا’”کہ تم کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ تو وہ سب تعریفیں کرنے والے بدترین مخالف ہو جاتے ہیں، دہشت گردی اور انتہاپسندی پر اترآتے ہیں ۔یہاں سے شروع ہوتی ہے نظریاتی لڑائی ۔

اب انہیں وہی محمد بن عبداللہ جب محمد الرسول اللہ بن کر توحید کی دعوت دیتا ہے تو تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے ہمارا وقت ضائع کیا۔حبیب کبریا ﷺ کی بعثت کا بنیادی مقصد جہالت اور ظلمات کا شکار بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ راست پر لانا تھا۔آپﷺ کی دنیا میں تشریف آوری انسانیت پر عظیم الشان احسان الہی اور نعمت عظمی ہے۔

اللہ تعالی کو مقصود اطاعت واتباع محمد الرسول اللہ کی ہے محمد بن عبداللہ کی نہیں ہے۔ اس لیے کہ محمد بن عبداللہ کی حیثیت سے تو آپ متنازع تھے ہی نہیں۔ ساری جنگ تو بعثت کے بعد شروع ہوتی ہے۔

رسول اکرم ۖ کی بعثت کی اصل وجہ ہے (بَعَثَہُ اِلَیْکُم) ( اس رسول ۖ کو تمہاری طرف بھیجا)، وہ رسولۖ تمہارے لیے قرآن اور ان آیات:

”وَیُزَکِّیہِم وَیُعَلِّمُہُمُ الکِتابَ وَالْحِکْمَة” (سورہ جمعہ ،آیت ٢)
” (وہ رسولۖ) ان کا تزکیہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے”

کی تلاوت کرتا ہے۔شاید ان آیات کی مقصودیا ہدف یہی ہوکہ رسول اکرم ۖتزکیہ اور تمام افراد کی تعلیم وتربیت اور اسی کتاب وحکمت کی تعلیم کیلئے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔

پس بعثت رسول اکرم ۖ کی وجہ وحی اور قرآن کا نزول ہے اور انسانوں کیلئے تلاوت قرآن کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا تزکیہ کریں اور ان کے نفوس گناہ کی اس ظلمت وتاریکی سے پاک ہوں جو ان کے اپنے اندر موجود ہے اور اس پاکیزگی اور تزکیہ کے بعد ان کی روحیں اور اذہان اس قابل ہوں کہ کتاب وحکمت کو سمجھ کر سکیں ۔

اسلام کا نظام تعلیم صرف حدیث و تفسیر تک محدود نہیں بلکہ اس میں سائنس، سیاسیات، معاشیات، عمرانیات، جغرافیہ، طبیعات، فلکیات، ارضیات، نباتات، حیوانات اور تاریخ سب شامل ہیں۔

رسول پاکؐ پر جو پہلی وحی سورہ ’’اقرا‘‘ نازل ہوئی۔ اس میں خواندگی کی تلقین کی گئی ہے اور قلم کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کی فضیلت کا اعلان کیا گیا ہے۔

اس پہلی وحی کو اسلامی نظام تعلیم کا سنگ بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو قرآن مجید نے سورہ بقرہ میں حضرت آدمؑ کی فرشتوں پر جو برتری کا سبب بتایا ہے تو وہ یہی تعلیم ہے چنانچہ قرآن مجید کا ارشاد ہے ’’اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے یعنی علوم سکھائے‘‘ اس آیت کریمہ سے علم و دانش کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں اہل علم کی برتری کے سلسلے میں مختلف آیات ملتی ہیں۔

سورہ الزمر میں ارشاد ہے ’’اے پیغمبر کہہ دیجئے کہ کیا اہلِ تعلیم اور جاہل لوگ برابر ہو سکتے ہیں‘‘۔ ایک اور موقع پر سورہ مجادلہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان والوں کے اور اُن لوگوں کے جن کو تعلیم عطا ہوئی ہے درجات بلند کرے گا‘‘۔ اس طرح سورہ توبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی تعلیم حاصل کرتے رہیں اور جب وہ تعلیم حاصل کر کے واپس آئیں تو اپنی قوم کو تعلیم دے۔

اللہ تعالیٰ سے ڈرائیں تاکہ وہ آگاہ ہو جائیں اور بری باتوں سے پرہیز کریں‘‘۔ اس آیت کریمہ میں دین اور دنیا دونوں کو فلسفہ تعلیم میں شامل کیا گیا ہے۔ اس طرح سورہ نعل میں ارشاد ہے ’’اگر تم کو علم نہ ہو تو اہلِ تعلیم سے پوچھ لیا کرو‘‘۔ سورہ فاطر میں ارشاد فرمایا کہ ’’بلاشبہ اللہ سے اس کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں‘‘

ربیع الاول میں مسلمانوں کی حضور سے محبت کا اظہار بہت والہانہ ہوتا ہے،کسی کے محبت کے انداز پر بدگمانی کرنا یا کسی کی نیت پر شک کرنابھی مناسب نہیں تاہم میرے نزدیک دن منانے یا نہ منانے کی بحث میں اصل پیغام پس منظر میں چلا جاتا ہے اور وہ ہے مقصد بعثت نبویﷺ اور سیرت پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ اور وہ محبت جس کا اظہار اللہ تعالی کرتا ہے کہ”قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ“۔ (آل عمران:۱۳)ترجمہ”آپ فرمادیجئے اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا“۔

چھٹ جائے اگر دولتِ کونین تو کیا غم
چھوٹے نہ مگر ہاتھ سے دامانِ محمدﷺ

گزشتہ 105 سالوں میں مٹھی بھر یہودیوں نے180 جبکہ مسلمانوں نے صرف4نوبل انعام حاصل کئے ہیں۔ ہم توجیح تو دے دیتے ہیں کہ نوبل انعام کی جیوری پر یہودیوں کا غلبہ ہے مگر کیا ہم نے ایسا کوئی اقدام کیا ہے جس سے مثبت نتائج کی توقع ہو۔

ان سب ناکامیوں کے اگر اسباب پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ علم سے دوری نے مسلمانوں سے اقتدار کی عظمتیں چھین لی ہیں۔ تعلیمی درسگاہوں سے دوری اس تنزلی کی اصل وجہ۔ قارئین حیران ہوں گے کہ تمام اسلامی ممالک میں 500 جبکہ صرف امریکہ میں 5758 اور بھارت میں 8407 یونیورسٹیاں ہیں۔ جبکہ ایک چھوٹے سے اسرائیل میں جامعات اور کالجوں کی تعداد 1134 ہے۔ کسی بھی اسلامی ملک کی یونیورسٹی کا نام دنیا کی پانچ سو بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔

جبکہ صرف اسرائیل کی 6 یونیورسٹیاں دنیا کی 500 بہترین جامعات میں شامل ہیں۔اگر پڑھے لکھے لوگوں کی شرح تناسب کو دیکھا جائے تو مغربی ملکوں میں 90 فیصد پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ جبکہ مسلمان ممالک میں یہی تناسب صرف 40 فیصد ہے۔

اسرائیل میں پڑھے لکھے لوگوں کی شرح تناسب 95 فیصد سے زیادہ ہے۔ مغربی ملکوں میں 15ممالک ایسے ہیں جہاں پڑھے لکھے لوگوں کا شرح تناسب 100 فیصد ہے جبکہ مسلمانوں کا کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں ہے۔ مغربی ممالک میں پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کا تناسب 98 فیصد ہے جبکہ مسلمان ممالک میں یہی تناسب 50 فیصد ہے۔

مغرب میں یونیورسٹیوں میں داخلے کا شرح تناسب 40 فیصد ہے جبکہ مسلمان ممالک میں یہی تناسب صرف 2 فیصد ہے۔ جب حالات ایسے ہونگے تو تنائج تو پھر خود سب کے سامنے ہیں۔ مظلومیت اور سینہ کوبی کو اپنا ہرچم بنانے کے بجائے جدوجہد کو شعار بنانا ہوگا۔جو بڑھ کر خود اٹھالے جام اسی کا ہے ساقی۔


tanvir-qasim

ڈاکٹر رانا تنویر قاسم یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے بطور اُستاد وابستہ ہیں۔ صحافت و تدریس میں ۔وہ مثبت تنقیدی نقطء نظر کو اپنی قوت سمجھتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.