اسکول ہمارے عہد کے
- September 27, 2018 11:08 pm PST

ماہ وش طالب
اپنے بچوں کو جدید عرف مہنگے تعلیمی اداروں میں داخلہ دلوانا عصرِ حاضر کی ضرورت سے زیادہ مجبوری بن چکا ہے نامور اسکولوں کو تو چھوڑیے کہ وہاں اپنے بچے کے ایڈمیشن کا خواب دیکھنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے سفید پوش علاقے کا رہائشی ڈیفنس میں اپنا بنگلہ لینے کی آرزو کرتا ہے ۔
برانڈیڈ سکولز
ظاہر ہے ان اسکولوں بشمول کانوینٹس کا اپنا ایک معیار اور میرٹ ہے جس پر حقیقتاً ہر بچہ پورا نہیں اترتا اسباب چاہے کچھ بھی ہوں مگر یہ تلخ ہی سہی حقیقت ہے اب تو متوسط رینکنگ کے حامل سکول کے مالکان بھی سینہ سپر کیے میدان میں آگئے ہیں ۔
تعلیمی اخراجات اس قدر ہیں کہ والدین بچوں کو ایک بار اسکول میں ڈال دیں تو آگے کنواں پیچھے کھائی والا معاملہ ہوجاتا ہے کہ اسی اسکول یا اسی طرح کے کسی اور اسکول میں داخل کرایا تو وہی منہ پھاڑ فیسیں جن کے ساتھ ہی “فکسڈ پرائس” کا نوٹ بھی چسپاں ہوتا ہے کے واؤچر پکڑادیے جائیں گے۔
اور اگر کسی کم فیس والے اسکول میں داخلہ کرایا تو ایک تو بچے کا سال ضائع ہوجانے کا خدشہ دوسرے معیار پر سمجھوتہ کرنے کا رسک اور اب تو اعلٰی معیار کے ان تعلیمی اداروں کا یہ دیو قامت پیڑ اس قدر جڑ پکڑ چکا ہے کہ کوئی بھی ان کی زیادتیوں کو زیادہ دل پہ نہیں لیتا۔
پھر ایک مسئلہ ان کے ایڈمیشن پراسیس کا بھی ہے، پلے گروپ سے لے کر میٹرک/او لیول کے بچے کا ٹیسٹ اور انٹرویو ایک بڑی پخ ہے۔ پچھلے دنوں ایک خاتون اپنے تین سالہ بچے کے ایڈمیشن کی روادا سنارہی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اپنے بچے کی اچھی “بیس/بنیاد” بنانے کی غرض سے انہوں نے ایک نامی گرامی پرائیوٹ اسکول کا رخ کیا, ہزاروں روپے رجسٹرین فیس جمع کرانے کے بعد بچے کے ٹیسٹ, انٹرویو کا مرحلہ آیا جس میں والدین کو ویٹنگ روم میں مکھیاں مارنے کی ذمہ داری سونپ کر بچے کو ایک الگ دفتر میں لے جایا گیا پندرہ منٹ بعد ٹیچر سمیت بچہ ویٹنگ روم سے واپس آیا تو والدہ نے بھی ہاتھ جھاڑے اور ان کی جانب متوجہ ہوئیں۔
چار سے پانچ کاغذوں پر مشتمل ایک پلندہ والدین کے سامنے کیا (لہرایا) گیا جس میں بچے کے امتحان کی غرض سے ہندسے, الف بے, فونکس(متروک شدہ A.B.C) شیپس وغیرہ بنی ہوئی تھیں، “جی آپ کا بچہ کونفیڈینٹ ہے، بولتا بھی ٹھیک ہے مگر اسے نمبرز کی پہچان نہیں، شیپس کا آئیڈیا نہیں، اے بی سی آتی ہے مگر ہم تو فونکس کے پیروکار ہیں۔
اور یہ !ٹیچر نے کاغذ پر بنے ہوئے ایلیفینٹ پر انگلی رکھی .. آپ کے بچے نے اسے ہاتھی کہا اور پھر نیچے والی ڈایاگرام جس میں فش پانی میں شغل فرما رہی تھی پر انگلی رکھتے ہوئے ارشاد کرنے لگیں اس کو آپ کے بچے نے مچھلی کہا… ”
یعنی سکول کا سٹاف درپردہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ تین سالہ بچے کو اگر اے بی سی ,رنگوں کی پہچان ہے اور خود اعتماد بھی ہے تو اس میں بچے یا والدین کا کوئی کمال نہیں اس بھی زیادہ اسے سیکھ کر آنا چاہئیے تھا، کب اور کیسے؟
اور ایسے کیسز کی حقیقت کا اندازہ آپ کو “المشہور بحریہ ٹاؤن لاہور والے ” اسکولز میں جاکر ہوجائے گا..
اگرچہ میں اس بات سے بھی متفق ہوں کہ یہ تعلیمی ادارے جتنے بھی مہنگے سہی مگر تعلیم کے اعلیٰ (انگریزی) معیار پر یہاں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لئے خاطر خواہ اقدامات کیے جاتے ہیں جو محض وقت کی ضرورت نہیں بلکہ ناگزیر ہوچکا ہے۔
اسلامی سکولز
اسی طرح آج کل اسلامی ٹرسٹ کے نام سے اسکول کھولنے کا فیشن بھی جڑ پکڑتا جارہا ہے، اسکول کے بل بورڈ پر بڑے اور چمکتے حروف میں لکھا ‘اسلامک ٹرسٹ اسکول’ والدین کوناصرف اپنی جانب متوجہ کرتا ہے بلکہ پیرنٹس یہ سوچے سجھے بغیر ہی اسکولوں کے پرنسپل/ ڈائریکٹر کو مہنگی فیس کی شکل میں منہ مانگے دام دینے کو بھی تیار ہوجاتے ہیں کہ اگر یہ ٹرسٹ ہے تو یہ ادارہ فنڈنگ سے چلے گا نہ کہ معصوم والدین کے ہڈیوں کے گودے سے۔
دوسرا بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان اسلامی فلاحی تعلیمی اداروں اور بیشتر دیگر نجی اسکولز بالخصوص کنڈر گارٹن کے سیکشنز میں ایک کلاس میں طلباء کی تعداد بلامبالغہ پچاس کا ہندسہ عبور کرجاتی ہے، جبکہ وہاں نگران ٹیچر یا انچارج ایک ہوتا ہے اور دوسرا ٹیچر اسسٹنٹ… اب فیصلہ کیجیئے کہ سرکاری اسکولوں اور ان میں کیا فرق رہ گیا؟ ٹیچرز دو ہوں یا چار، ایک ایک بچے کو مناسب توجہ پھر بھی نہیں مل پاتی۔
اس کے بعد آتے ہیں سکول سسٹم کے نام پر چلنے والے وہ قصائی گھر جو بڑے بڑے چین سکولز کا نام چرا کر جگہ جگہ اپنا چُھرا تیز کرتے پائے جاتے ہیں.. ایسے اسکول کے مالکان خالصتاً کاروباری ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں جنہیں ننھے بچوں کی پرورش اور ذہنی نشونونما سے چنداں دلچسپی نہیں، پرنسپل کے نام پہ کرائے پر لی گئ چودہ جماعتیں پاس پکی عمر کی خواتین ان مالکان کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اور کسی بھی قسم کے معیار کے بغیر ٹیچنگ اسٹاف کو ہائر کرکے والدین کو اُلّو کا گوشت کھلاتی رہتی ہیں۔
وہ بھی والدین کے پیسوں کا خریدا ہوا اس ضمن میں خاص طور پر تین سے چار اصلی سکولوں کی مٹی پلید ہورہی ہے, جن کے کاپی رائٹ کی دھجیاں بکھیر کر یہ ضمیر فروش لوگ اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں اور یقین کیجیے یہ اسکولوں کی سب سے خطرناک قسم ہے کہ ‘اصلی پیسے سے تیار کردہ ہائی اسکلول سسٹم ‘جو کرتے ہیں کم از کم ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں اور کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ بھی نہیں کرتے۔
دوسری صورت یہ بھی ہے کہ “اصلی اسکول سسٹم ‘والے خود ‘ ہوشیار’ رہتے ہوئے والدین کو بھی “نقالوں سے ہوشیار ” رہنے کی تلقین کرتے رہیں وگرنہ یہ “ماسٹر ریپلیکا” والوں کو ہی چاہیئے کہ اسکول کے بورڈز پر “تصدیق شدہ ” لکھ کر اپنے ذرا سا پڑھا لکھا ہونے کا ثبوت پیش کریں۔
کھوکھا سکولز
اسکولز کی آخری قسم “کھوکھا سکول ” ہیں جو ہر گلی کے بائیں، دائیں,نکڑ یا مین پر لازمًا واقع ہونگے
سپرٹ سکول سسٹم
سول (Soul) سکول سسٹم
اِنفریر ( inferior )سکول اینڈ کالج
کانفیڈینٹ ہائی سکول اینڈ اکیڈمی… اور نہ جانے کیا کیا!!
راہ چلتے ہوئے آپ کے نظر اٹھانے کی دیر ہے… یہ سی گریڈ سے بھی نچلے لیول کے تین مرلہ اور تین منزلہ اسکول مال روڈ کے سگنلز کی مانند آپ کا راستہ روکتے رہیں گے۔
ان تمام تر تلخ حقائق سے واقف ہونے کے باوجود میں اور آپ مجبور ہیں کہ اپنے بچوں کے مستقبل کو مضبوط اور انہیں معاشی طور پر مستحکم کرنے کی غرض سے ان کی اچھی بنیاد بنائی جائے.. اور اس کے لیے ہم ‘ برانڈڈ’تعلیمی اداروں کا رخ ہی کریں گے۔
نجی ادارے بچوں کی تربیت پر جس طرح سے پیسہ (والدین کا) لگا رہے ہیں اور جس طرح سے پورا اسٹاف محنت کرتا ہے وہ بلاشبہ قابلِ ستائش ہے مگر صرف یہ کافی نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے سرکاری اسکولوں اور پرائیوٹ اسکولز کے اس غیر متوازن لیول کو کیسے برابری کی سطح پر لایا جاسکے کہ نہ ایک سرکاری سکول کا طالبِ علم انگلش میڈیم بچے کو دیکھ کر احساسِ کمتری کا شکار ہوسکے اور نہ گرامر سکول کا اسٹوڈنٹ بستہ پہن کر اسکول جانے والے بچے کو دیکھ کر خود میں پراؤڈ محسوس کرنے لگے۔ بلکہ ہونا یہ چاہئیے کہ دونوں ایک دوسرے کو برابری اور رشک کی نگاہ سے دیکھیں. اور صحتمند ذہن کے ساتھ ملکی ترقی میں کردار ادا کرسکیں۔
اس کے لیے ہمارے پاس سوچ کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ امید کی کرن اب تبدیلی کے نعرے سے ٹکراسکتی ہے کہ یہ اسکول ہمارے عہد کے اپنا تعلیمی معیار اونچا ضرور رکھیں مگر ہوشربا خرچوں کے گراف کو ذرا نیچے کرلیں۔