سرائیکی قومیت پر لسانی تعصب کا الزام کیوں؟
- April 6, 2019 9:10 pm PST
محبوب تابش
تمام یورپی سیاسی مفکرین اور دانشوروں نے قوم کی جو تعریف کی ہے اُس میں زبان کو کسی بھی قوم کا لازمی عنصر کہا گیا ہے۔ سٹالن،بینے ڈک ایڈرسن، ہابس باؤم، کسی نہ کسی طرح قوم کی تشکیل میں زبان کی حقیقت و کردار کے معترف ہیں۔
سرائیکی خط جسے یہاں کے باسی آج سرائیکیستان کا نام دیتے ہیں تاریخی اعتبار سے اس کا جغرافیہ پہلے کی نسبت بڑی حد تک سمٹ کر رہ گیا ہے کیونکہ اب سرائیکی دھرتی پنجاب کا مقبوضہ علاقہ ہونے کی وجہ سے سرکاری طور پر جنوبی پنجاب کہلایا جاتا ہے۔
اس سمٹتے، سُکڑتے جغرافیہ کا سب سے بڑا سبب وہ حملہ آور ہیں جنہوں نے ہزاروں برسوں میں اپنی لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بنائے رکھا وگرنہ سرائیکی خطہ ماضی میں تو وسیع تر جغرافیہ کا حامل رہا ہے۔ ہوسکتا ہے میرا یہ دعویٰ کچھ لوگوں کو بہت عجیب لگے تو اس کی ایک سادہ سی دلیل یہ بھی ہے کہ آپ کسی علاقے کے جغرافیائی پھیلاؤ کو اُس علاقے میں بولی جانے والی زبان کی وسعت سے لگا سکتے ہیں۔
جس طرح مشرقی پاکستان گنوانے سے پہلے ہمارے عاقبت نا اندیش بڑوں نے یہ طے کیا کہ اُردو کے ساتھ ساتھ بنگالی یا کسی اور زبان کو قومی زبان قرار دینے کا مطلب شرک و کفر ہے۔ اُن کے نزدیک یہ شرک صرف ایمان ہی کو غارت کرنے والا نہیں تھا بلکہ پاکستان کی وحدت و سالمیت کو بھی مٹانے والا ہے۔
مگر کسی کم فہم کو خاص طور پر مغربی پاکستان والوں کو یہ بات سمجھ نہ آئی کہ بھلا کس طرح 55 فیصد لوگوں کی زبان کو یکسر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ غالبا 1952 کا آغاز ہی تھا جب اُردو بنگالی زبان کے جھگڑے نے زور پکڑا تھا۔ اس تضاد نے مغربی پاکستان میں بسنے والی قومیتوں کو چونکا دیا کہ کہیں اُن کی ماں بولیوں کے ساتھ بھی ہاتھ ہونے تو نہیں جارہا؟
پاکستان کا بالا دست طبقہ جس کی ایک بڑی اکثریت پنجابیوں کی ہے، اور اُن سے جُڑے ہوئے دانشور قوم کے مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے میں اپنی بصیرت اس قدر کھو بیٹھے ہیں کہ آج اُنہیں اس ملک کی اکثریتی زبان سرائیکی ایک تعصب لگتی ہے۔
جب سرائیکی قومیت اپنی بقاء سیاسی و معاشی حقوق اور اس سب سے بڑھ کر اپنی قومی شناخت کے مطالبے پر وفاق پاکستان میں ایک علیحدہ اکائی کا تقاضہ کرتی ہے تو اُن کے اس نہایت جائز مطالبے کو جب کسی بھی طور منطقی انداز سے رد نہیں کیا جاسکتا تو پھر ایک ہی بے تُکی سی بات کہی جاتی ہے کہ یہ تو لسانی تعصب ہے۔
اس سے تو خطہ میں نفرت پھیلے گی پاکستان کی وحدت کو زک پہنچے گی وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے سرکار کبھی انتظامی یونٹ کا واویلا مچاتی تو کبھی جنوبی پنجاب بہاولپور صوبہ کہتی ہے تو کبھی سرے سے اس حقیقت سے انکار ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں؛ بہاولپور میں علم و ادب کے پوشیدہ خزانے
جب سندھی زبان بولنے والوں کو سندھ، اور پشتو والوں کو پختونخوا، پنجابی بولنے والوں کو پنجاب اور بلوچی بولنے والوں کو بلوچستان میں کوئی تکلیف نہیں دیتا اور نہ ہی ان کے لسانی ناموں سے پاکستانی وحدت کو کوئی گزند پہنچتی ہے تو پھر آخر، کس لیے سرائیکی لوگوں کا سرائیکستان لسانی تعصب ہوجاتا ہے؟
کسی قومی ریاست میں تو دفتری اور قومی زبان کا ایک ہونا ممکن ہے مگر کسی کثیر القومی ریاست میں ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔ جیسے سوئزر لینڈ میں تین مختلف قومیں فرانسیسی، جرمن اور اطالوی رہتے ہیں اور تینوں کی الگ الگ زبانیں ہیں اس لیے وہاں تینوں زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔
میں سرائیکی خطے میں بسنے والے لوگوں کو جن کی مادری زبان سرائیکی نہیں لیکن اس دھرتی پر رہنے کی وجہ سے وہ سرایکستانی تو ہیں، زبان کے معاملے میں اپنے فکری نظری ابہام کو ضرور ان سائنسی اور زمینی حقائق کی بنیاد پر دور کرنا چاہیے۔
کسی بھی قوم کا تاریخی، علمی، ادبی اور فکری چہرہ اُس کی قومی یا پھر مادری زبان میں ہی دکھائی دیتا ہے اگر آپ اُن کی زبان کو محض تعصب قرار دے کر اُس کی نفی کر دیں گے تو وہ قوم تو بے چہرہ ہو جائے گی۔ کوئی بھی سرائیکی کیوں بے چہرگی کا یہ دُکھ قبول
کرے؟
سرائیکیوں کو بار بار یہ کیوں باور کرایا جاتا ہے کہ اُن کی لسانی شناخت کو تسلیم کرنے سے پاکستان کی وحدت و پاکستانیت ختم ہوجائے گی یا پورے ملک اور پنجاب بھر میں ایسا انتشار پھیلے گا کہ وہ پاکستان کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دے گا۔
آج سرائیکی بھی بنگالیوں کی طرح یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ سرائیکی زبان کا انکار یا اُسے لسانی تعصب کہنا اور ایک زبان کی مرکزیت چاہے وہ پنجابی ہو یا اُردو، قائم کرنے کا مطلب ہماری قومی زبان یعنی سرائیکی کی ترویج کا کوئی راہ باقی نہ رہے اور نہ ہی یہ پھل پھول سکے بلکہ پنجابیوں کے جھوٹے اور بے بنیاد دعویٰ کے طور پر ایک بولی بن کر رہ جائے۔
جانئیے؛ سرائیکی زبان کے شیکسپیئر اور انقلابی شاعر کی کہانی
یوں سرائیکی خطے کے 80 سے 90 فیصد فیصد لوگ جن کی مادری زبان سرائیکی ہے اپنے صدیوں کی لوک داستانوں سے بھی محروم ہو جائیں اور جدید علم و ادب کی برکتوں سے بھی محروم رہ کر تخت لاہور کے تابع فرمان بنے رہیں۔
ہم سرائیکیوں کے ساتھ جاری قومی زبان کے حوالے سے یہ سلوک اور ہمارا یہ احتجاج اس ملک میں کوئی پہلی مثال نہیں بلکہ اس سے پہلے بنگالی، سندھی اور دیگر مظلوم اقوام یہ صدائے احتجاج بُلند کر چکے ہیں۔
یہ مسئلہ ہر اُس ملک میں ہے جہاں ایک سے زائد قومیں آباد ہوں اور حقیقی جمہوریت وہاں ناپید ہو تب برسر اقتدار طاقتیں ایک ہی فکر میں رہتی ہیں کہ کس طرح قوموں سے اُن کی کی خود مختاری مکمل طور پر چھینی جاسکتی ہے۔
یہی حال ہم سرائیکیوں کے ساتھ ماضی سے اب تک برتا جارہا ہے ایک طرف ہم پر اُردو کے تیر ہیں تو دوسری جانب تخت لاہور کی پنجابیانے کی پالیسی پر عمل پیرا بیوروکریسی کی تلواریں ہماری گردنوں پر رکھی ہیں۔ قوموں کا حق خود اختیاری جس میں قومی زبان کا حق سب سے اہم ہے ہمارے ہاں اُسے ریاست کی وحدت و سالمیت کے منافی سمجھا جا رہا ہے۔
تخت لاہور اور اُس کے کاسہ لیس یعنی مقامی سرائیکی جاگیردار، وڈیرے اور سیاستدان پوری طرح سے یہ حقیقت جانتے ہیں۔ اپنی مادری زبان کا وجود نہ ہونے اور اُس میں تعلیم حاصل نہ کر سکنے کے سبب سے محکوم قومیں ہمیشہ پسماندہ اور زندگی کے ہر شعبہ میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔
عربوں نے بنو اُمیہ اور بنو عباس کے زمانے میں غیر عربوں سے اُن کی زبانیں چھین کر اُنہیں عربی بولنے اور لکھنے پر مجبور کیا جس سے تمام محکوم قومیں بالخصوص ایرانی قوم میں ایسا قومی جذبہ انتقام کی آگ لے کر بھڑکا کہ دُنیا نے دیکھا کہ ایرانیوں کے ہاتھوں پہلے بنو اُمیہ پھر بنو عباس پر جو بیتی اس کی تاریخ گواہ ہے۔
تخت لاہور کے حکمرانو! یاد رکھنا ہمیشہ وہی وفاق پختہ اور مستحکم ہوتا ہے جس کی بنیادیں رضا کارانہ اتحاد پر ہوں جس کی بنیادیں ایک دوسرے کے حقوق کو ماننے اور اُس کا احترام کرنے کے اُصولوں پر ہوں۔
Aap log kiun nahin doosroun keh haqouq aur apnay faraiz ka adraak kartay…. jab nit nayie tasub sey cheezain dekhein gein tou yeh taasub hiee nahin balkeh tang nazriee hiee kaha jayey ga…….