بہاولپور میں علم و ادب کے پوشیدہ خزانے

  • March 31, 2017 12:04 am PST
taleemizavia single page

سحرش منظور

بہاولپور کے بارے میں سنا کرتے ہیں کہ ریاست کے زمانے میں اس کا نقشہ بالکل عراق جیسا تھا، وہاں عراق سے لا کر کھجور اُگائی گئی تھی یہاں تک کہ ریاست کا دارالخلافہ بغداد الجدید کہلایا جانے لگا۔

اُس قدیم بغداد اور اس جدید بغداد میں یکسانیت صرف نقشے اور کھجوروں ہی کی نہیں تھی بلکہ ایک دولت اور بھی تھی جس پر اُس بغداد کو بھی ناز تھا اور اس بہاولپور کے بغداد کو بھی۔ اور وہ تھی علم کے جواہر پاروں کی دولت، ایسی ایسی کتابوں کی دولت جن کا دُنیا میں صرف ایک نسخہ تھا اور وہ بھی اسی بہاولپور کی سر زمین پر۔

اوچ شریف کا نام ہم نے پہلے پہل مزاروں، گدیوں اور خانقاہوں کے باعث سنا تھا، پھر تاریخ میں بارہا اس کا ذکر آیا۔ کس طرح دار شکوہ بھاگتا ہوا اوچ پہنچا تھا اور کس طرح اورنگزیب کی فوجیں اس کی بو سونگھتی سونگھتی وہاں پہنچی تھی۔ پھر کسی نے بتایا کہ شہر اوچ کو تاریخ میں یوں فضیلت بھی حاصل ہے کہ خاندان بنی ہاشم کے کتنے ہی افراد حجاز، عراق اور ایران چھوڑ کر اوچ تشریف لائے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔

بہاولپور کی سرزمین پر کتب خانوں کے نایاب خزانے موجود ہیں۔ بہاولپور کے کتب خانوں کی اہمیت خود بہاولپور کے تاریخی اور ادبی پس منظر سے بنتی ہے وہاں ادب اور تحقیق کی قدیم روایت موجود ہے۔ ریاست ہونے کی وجہ سے اہل علم کو حکمرانوں کی سرپرستی حاصل رہی اور دوسرا یہ کہ خواجہ غلام فرید کی سرزمین ہونے کی وجہ سے اس میں ادب کی کونپلیں پھوٹتی رہیں۔

قیام پاکستان کے بعد جب علم و ادب پروان چڑھا تو یہاں کتب خانہ بھی پھلا پھولا جس کا پنجاب کے چند بڑے کتب خانوں میں شمار ہوتا ہے اور وہ ہے بہاولپور کی سنٹرل لائبریری۔ اس کی تو بہرحال سرکاری نوعیت ہے لیکن نجی اور خاندانی کتب خانوں میں جو سرفہرست آتا ہے وہ ہے اوچ شریف میں گیلانی خاندان کی لائبریری۔

سنٹرل لائبریری جون 1947ء میں قائم ہوئی تھی اور اس وقت وہ اپنے ذخیرہ کتب کی وجہ سے بڑی منفرد ہوگئی ہے اس میں دو لاکھ سے زائد کتابیں ہیں جن میں فلسفہ، ادب، تاریخ، سیاست اور مشرقی و مغربی علوم شامل ہیں۔

یہ لائبریری اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس کا ایک گشتی شعبہ بھی ہے جو قارئین کو خود ان کے علاقے میں پہنچ کر کتابیں فراہم کرتا ہے لیکن اب یہ شعبہ تقریبا ختم ہوچکا ہے۔ سنٹرل لائبریری میں قلمی نسخے بھی ہیں جن کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہے ان میں سے بعض چوتھی صدی ہجری میں لکھے گئے تھے۔ وہاں کئی ہندو شعراء کے ہاتھ سے لکھے ہوئے دیوان موجود ہیں۔ مشکوٰۃ شریف کا ایک نادر قلمی نسخہ اس لائبریری میں رکھا ہے اور بالخصوص تصوف پر لکھے جانے والے رسالوں کے کئی قلمی نسخے یہاں موجود ہیں۔

قدیم ذخیروں میں اوچ گیلانی کا کتب خانہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ وہاں ہمیں قدیم ترین اور نایاب کتابوں کا ذخیرہ ملتا ہہے۔ اس کتب خانے میں قرآن، تفیسر، حدیث، فقہ، تصوف، فلسفہ، شعر و ادب، تذکرہ نگاری اور مصوری کا نہایت بیش قیمت خزانہ ہے۔ ان کے علاوہ کچھ موضوعات ایسے بھی ہیں جو عام کتب خانوں میں نہیں ملتے۔ مثلا موسیقی، سپاہ گری، شکاریات، روحانی عملیات، نجوم، آثار قدیمہ، حتیٰ کہ گھوڑون کی مختلف اقسام پر بھی کافی تعداد میں کتابیں یہاں ملتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں؛ سرائیکی زبان کے شیکسپیئر اور انقلابی شاعر کی کہانی

اوچ شریف کے اس ذخیرے کی جو کتابیں خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ان میں خط کوفی میں قرآن پاک کے کچھ اجزاء ہیں جو ہرن کی کھال پر لکھے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے دست مبارک سے لکھے گئے ہیں اگرچہ یہ بات تحقیق طلب ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ اوچ شریف میں موجود قدیم ترین نسخہ مخطوطہ ہے۔

اس کے علاوہ تیسری صدی ہجری اور آٹھوویں صدی ہجری کے درمیان میں لکھی جانے والی مذہب، تصوف اور ادب کے موضوع پر مثنویاں اور رسائل ایسے ہیں جن کے نسخے کہیں اور نہیں ملتے۔ بالخصوص حضرت عبد القادر جیلانی کے حالات زندگی اور فضائل پر کئی اہم کتابیں موجود ہیں جن کی مصنفوں اور کاتبوں کے ناموں کا علم نہیں۔

اسی طرح وہاں شہنشاہ جہانگیر کی خود نوشت یاداشتوں کا قلمی نسخہ، اقبال نامہ جہانگیری بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ وہاں پر حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمتہ اللہ علیہ کا سفر نامہ مخطوطہ کی شکل میں موجود ہے۔ علی قلی خاں کا تذکرہ، ریاض الشعراء بھی قابل ذکر ہے جس میں تقریبا ہزار شعراء کا احوال درج ہے۔

قدیم یونانی طب کے موضوع پر اوچ شریف میں کئی قلمی نسخے ملتے ہیں جو اہمیت کے اعتبار سے کسی طرح کم نہیں۔ ایک اور قابل ذکر مخطوطہ ایک ہندو شاعر سائیں ولی رام کا ہے جس نے ایک مثنوی لکھی ہے جو اسلامی تصوف کے چھ مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔

اوچ شریف میں قلمی تصویروں کا ذخیرہ بھی ہے جو تحقیق طلب ہے اس میں مختلف اہم شخصیات کے پورٹریٹ شامل ہیں اور کتنے ہی بادشاہوں، شہزادوں، بزرگان دین اور شعراء کی شبہیں ملتی ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ اُن کا مصور کون ہے۔ لیکن اوچ شریف کا یہ ذخیرہ اطمینان بخش حالت میں نہیں ہے اسے بھاری سرپرستی ، امداد اور تعاون کی ضرورت ہے تاکہ جو کتابیں بچ رہی ہیں انہیں محفوظ کر لیا جائے۔ یہاں کی بہت سے نادر کتب ضائع ہوچکی ہیں۔

بہاولپور میں تیسرا بڑا اور قابل ذکر کتب خانہ مبارک اُردو کتب خانہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ کتب خانہ محمد آباد، شجر پور کے علاقے میں ہے اور یہ 1926ء میں بابائے اُردو مولوی عبد الحق اور نیاز فتح پوری کے مشورے سے قائم ہوا تھا اس میں بہت سی نادر کمیاب کتابیں محفوظ ہیں۔

بہاولپور کی سرزمین مقامی بولی سرائیکی کے ادب سے مالا مال ہے اور یہ ادب کا گہوارہ رہا ہے لیکن اب ریاست بہاولپور پسماندگی سے دوچار ہے اتنی بڑی ریاست میں صرف ایک سرکاری یونیورسٹی اعلیٰ تعلیم کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے اگرچہ خواتین کے لیے یونیورسٹی بنا دی گئی ہے لیکن اس ریاست کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ یہاں کی سنٹرل لائبریری جو سٹیٹ آف دی آرٹ لائبریری ہونی چاہیے تھی یہ بھی توجہ کی منتظر ہے اس ضمن میں مجاہد حسین کی کتاب بہاولپور خوشحال ریاست سے پسماندہ ڈویژن تک قابل مطالعہ ہے۔


sehrish-manzoor

سحرش منظور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایم اے سرائیکی کر رہی ہیں۔ وہ سرائیکی ادب و شاعری سے لگاؤ رکھتی ہیں۔

  1. Sehrish Beeti, First let me congratulate you about this beautiful writing. The picture of your article reminded my old memories. Every day I used to sit in this library for my studies and homework. I have read your article and found some technical issues. Mine advise to a good young writer like you will be, Whenever you write, get it reviewed by your mentor or one of the teacher. The Islamia University of Bahawalpur is full of talented intellectuals and great historians award of the Bahawalpur history. Just a couple of issues I can highlight.
    1. I do not think you have correctly mentioned the Central Library Bahawalpur date of establishment.
    2. There are several public sector universities now in Bahawalpur; the Government Sadiq College Women University and Khawaja Fareed Engineering University are also in the list of public sector universities.
    Please pay attention to these thoughts and keep writing. You write so well, but the writing should be aligning with accurate historical perspective.

    Professor Dr. Muhammad Mukhtar
    Former Vice Chancellor
    The Islamia University of Bahawalpur

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *