ماٹیویشنل سپیکر! قائم علی شاہ (نمبر2 )

  • October 7, 2019 6:09 pm PST
taleemizavia single page

اکمل سومرو

بہت مشہور فقرہ ہے کہ جس قوم میں کوئی سسٹم یا قانون موجود نہ ہو وہاں اتفاقیہ بلکہ حادثاتی مقدر بنتے ہیں۔ کچھ یہی حال ارض پاکستان کا ہے۔ مثال کے طور پر آپ اپنے ارد گرد دوستوں سے پوچھیں تو 95 فیصد سے زیادہ لوگ یہی کہیں گے کہ انھوں نے گاڑی کی ڈرائیونگ اپنی طور پر سیکھی تھی نہ کہ کسی ڈرائیونگ سکول سے۔

ایسا کرتے ہوئے لامحالہ طور پر شروع کے دنوں میں اُن کی گاڑی کی زد میں کوئی کُچلا جاتا ہے زخمی ضرور ہوتا ہے۔ اور کچھ بھی نہ ہو تو اُن کی گاڑی کسی دیوار، کھمبے یا کسی اور چیز سے ضرور ٹکراتی ہے۔ پھر یوں وہ باقاعدہ ایک ڈرائیور کا روپ دھار کے باضابطہ طور پر بڑی سڑک پر ڈرائیونگ کرنا شروع کردیتے ہیں۔

سیاست کو لے لیں، پاکستان کی تاریخ میںزیادہ تر لیڈرز اپنی معاشی حالت یا کسی ذاتی تعلق کی بناءپر کسی بڑی پاور ہاﺅس کا حصہ بنے اور وہ سیاست کے اعلیٰ کے ترین عہدوں پر براجمان ہوئے۔ جب پاکستان بنا تھا تو سٹیٹ بینک میں جب بھرتی ہورہی تھی تو کہتے ہیں کہ جو سو تک گنتی کا حساب کر لیتا تھا اُسے بھرتی کر لیا جاتا تھا کیونکہ ملک میں خواندگی کی شرح بمشکل دس فیصد تھی۔

چونکہ سرکاری ملازمت کا دورانیہ 30 سے 35 سال تک چلتا ہے لہذا بعد میں پڑھے لکھے لوگوں کے بھرتی ہونے کے باوجود یہ تقریباً ان پڑھ لوگ اُن پر بوس کی شکل میں مسلط رہے۔ اور ایسے لوگوں کے لیے خلیفہ کی اصطلاح استعمال ہوا کرتی تھی۔ کچھ یہی صورتحال ہمارے ملک میں ماٹیویشنل سپیکر کی ہے جو مش روم گروتھ کی شکل میں سامنے آئے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے باقاعدہ منظم گروہ بن چکے ہیں۔

نجومیوں کی جگہ تقریبا انھی کے روپ نے لی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کسی بھی نجومی سے یہ سوال کریں کہ وہ نجومی کہاں سے تعلیم حاصل کر کے بنا تو اس کا جواب صرف ذاتی کوشش اور تجربہ ہوگا۔ جس طرح بہت سارے نجومی اپنے ساتھ پروفیسر کا ٹائٹل لکھتے ہیں عین اسی طرح کئی موٹیویشبل سپکیر اپنے ساتھ پروفیسر کا لفظ لکھتے ہیں حالانکہ انھوں نے کبھی بھی کسی تعلیمی ادارے میں با ضابطہ ملازمت نہیں کی ہوتی ۔

ملک کے اندر جس طرح پرائیویٹ اکیڈمیوں کی جانچ پڑتال اور باقاعدہ لائسنس کا کوئی نظام موجود نہیں ہے اسی طرح ان ماٹیویشنل سپیکر کو اپنے ادارے بلکہ کاروبار جاری رکھنے کے متعلق چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ اور زیادہ تر موٹیویشنل سپیکر نفسیاتی مسائل کاروبار میں رکاوٹ، گھریلو امور، شادی کے مسائل، سمیت دیگر تمام مسائل کا حل ایک نجومی کی طرز پر بتانے کے دعوے کرتے ہیں۔

سب سے زیادہ چیز جس کا یہ پرچار مانند تبلیغ کرتے ہیں وہ Communication skills کا موضوع ہے اور کسی بھی پڑھے لکھے آدمی کیلئے بھیانک حد تک حیران کن انکشاف اس وقت ہوتا یے جب یہ لوگ لفظ کیمونیکیشن کو ہی غلط طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ ایک نامور اتائی سپیکر اپنے خطابات میں ایک لفظ مختلف شکلوں، جونسا، جونسی، جونسے بولتا ہیں جبکہ یہ لفظ لُغت میں سرے سے موجود ہی نہیں‌ ہے.

آج سے تین برس قبل ایک پروفیسر نے ان کی غلطی کی تصیح کی، دوسروں کو سیکھنے کی عادت اپنانے کی طرف مائل کرنے والا یہ اتائی سپیکر آج بھی اس لفظ کو اُسی تواتر سے بولتا ہے. جیسا کہ لفظ ماٹیویشن ہوتا ہے نہ کہ موٹیویشن، گویا پڑھے لکھے آدمی کیلئے تو پہلے چند فقروں میں ہی ان لوگوں کی جہالت عریاں ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ مگر طلباء و طالبات جو کہ ایک شارٹ کٹ کی تلاش کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں جس کی ابتداء ان کے سکول کے دنوں سے اس وقت شروع ہو جاتی یے جب وہ کتاب کی بجائے گیس پیپر پڑھتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ سب سے پہلے پچھلے سال آئے سوالوں کو ایک طرف رکھ کر باقی ماندہ نصاب میں سے ان سوالوں کو یاد کرتے میں جن کا امتحان میں آنے کا چانس زیادہ ہوتا ہے۔

لہذا وہ اسی سوچ اور عادت کے ساتھ اس سپیکر کے نرغے میں آ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ دعوی کرتے ہیں کہ ایک سے تین روزہ ورکشاپ میں کیمونیکیشن سکلز ، سیلف کونفیڈنس اور مزید کچھ مہارتوں پر عبور حاصل ہوگا، جس کی فیس پانچ سے پچاس ہزار ہوتی ہے۔ اور جس کے اختتام پر یہ ایک سرٹیفیکیٹ بھی جاری کرتے ہیں۔

یہاں ایک لطیفے کا ذکر کرنا بہت مناسب لگ رہا ہے کہ ایک یورپی بک سٹال پر پاکستان میں کتابیں دیکھ رہا تھا جن کے موضوعات کچھ یوں تھے، تین ماہ میں سبزیاں اُگانا سیکھیں ، باورچی بننا سیکھیں، کمپیوٹر سیکھیں وغیرہ وغیرہ، اچانک وہ غیر ملکی بے ہوش ہو کر گر پڑا جب اس کی نظر ایسی کتاب پر پڑی جس پر لکھا تھا کہ 3 ماہ میں ڈا کٹر بنیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے، یہ کام اگر دیانت داری سے کیا جائے اور یہ کام کرنے والے لوگ اچھے تعلیم یافتہ، تجربہ کار ہوں اور انھوں نے اپنی زندگی میں خود کچھ بڑا معرکہ انجام دیا ہو۔ مثال کے طور پر ، کسی نے کھیل کے میدان میں کامیابی حاصل کی ہو، بڑا لکھاری ہو، اور بالخصوس اگر کسی بھی شعبے میں بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کیا ہو تو وہ اپنے تجربات، نوجوانوں کے ساتھ شیئر کرے جس سے لامحالہ طور پر نوجوانوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

جس طرح قول ہے کہ ایک بہت پڑھے لکھے یا کامیاب انسان کے ساتھ کی جانے والی ایک نشست پانچ سے دس کتابوں کے مطالعہ پر بھاری ہوتی ہے۔ زیادہ تر ماٹیویشنل سپیکر خود ساختہ ہیں، ان میں سے بیشتر نے ایک دفعہ بھی ما ٹیویشنل سپیکرز کے عالمی پلیٹ فارم TedX Talks کے قریب سے بھی نہیں گزرے۔

چلیے یوں کر لیتے ہیں کہ ان لوگوں نے خود سے گاڑی چلانا سیکھتے ہوئے لوگوں پر ظلم کرتے ہوئے جو کچھ سکھا ہے یہ اگر اُسی کو مناسب حد اور قد میں لوگوں سے شیئر کریں تو اور بات ہے مگر ان لوگوں نے اسے پیسے کمانے کی بجائے، پیسے لوٹنے کا ذریعہ بنا لیا ہوا ہے۔

مثال کے طور پر اگر آپ لاہور کے کسی بڑے سے بڑے نفسیات دان کے پاس جائیں تو وہ آپ کو تیس سے ساٹھ منٹ کی ایک نشست کا دو سے پانچ ہزار روپے چارج کرے گا اور اُس کی ایک بنیادی وجہ نفسیات یعنی سائیکالوجی کے مضمون پر عبور ہوگا۔ یعنی اُس کے پاس ایک لائسنس ہے کہ وہ کسی کو نفسیاتی مشکلات کے متعلق رائے اور مشاورت دے سکتا ہے۔ مگر یہ ماٹیویشنل سپیکر بغیر کسی بنیادی علم کے نفسیاتی مشکلات کے متعلق رائے زنی کرتے ہیں اور ایک نشست کا دس سے پچاس ہزار روپیہ بھی ہڑپ کر جاتے ہیں۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ ایسے سپیکرز بھی ہیں جن کی بنیادی تعلیم محض بی اے ہے، اور وہ خود کو تعلیم یافتہ ظاہر کرنے کے لیے ایک کوٹھی نما یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کر لیتے ہیں تاکہ وہ اپنی تعلیمی قابلیت کا پرچار کر سکیں.

اسی طرح اگر ایک شخص زندگی میں واصف علی واصف کو ملا ہی نہیں مگر وہ اپنے خطابات میں یہ دعوی کرے کہ میرے اُستاد واصف علی واصف ہیں، اشفاق احمد خان ہیں۔ اور یہ دعوی باوثوق اور اعتمادی سے کیا جائے کہ گویا یہ صاحب ان کی نشستوں کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

اب آپ خود اندازہ کیجئے کہ جس خطاب کی بنیاد ہی اتنے عریاں اور گہرے جھوٹ پر مبنی ہو اُس شخص کی اصلیت کیا ہوگی۔ رہی بات کہ جتنی بات وہ کرتے ہیں وہ کیسے سیکھتے ہیں، ایک افسانہ چوہڑا چوہدری سے اقتباس عرض ہے کہ وارڈ میں ایک شخص آیا جس کا سر پھٹا ہوا تھا،ڈاکٹر چونکہ موجود نہیں تھے گویا فراش نے آگے بڑھ کر مرہم پٹی کر دی، مرہم پٹی سے خون بند نہ ہونے پر اسی فراش نے سر پر ٹانکے لگا دیے.

ڈاکٹر منور صابر سے ایک مرتبہ نشست ہوئی تو وہ مانتے ہیں کہ اگر تجربہ کار لوگ عملی شعبے میں موجود نہیں ہوں گے تو چوڑھے ، چوہدری بن جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح میڈیا ہاﺅسز جعلی عاملوں، نجومیوں، اتائیوں کی بیخ کنی کر رہے ہیں، اسی طرح باقاعدہ طور پر خطابات کا اہتمام کرنے سے پہلے ان کی تعلیمی قابلیت کی جانچ پرکھ کر لی جائے، اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ اس علم و مہارت کو یونیورسٹیوں میں باقاعدہ ڈپلومہ اور ڈگری کی شکل دی جائے، جس میں نفسیات، عمرانیات، کیمونیکیشن سکلز کے مضامین پڑھائے جائیں.

وگرنہ یہ لوگ چند روز کے سیشنز کرانے کے بعد جو سرٹیفائیڈ ٹرینر کا سرٹیفکیٹ دیتے ہیں صرف اسی بنیاد پر لوگوں کے جذبات ، مشکلات اور مستقبل سے کھیلنے والوں پر گرفت ہونی چاہیے بصورت دیگر یہ لوگ قائم علی شاہ دوئم کی صورت لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے رہیں گے۔ آپ اپنی سہولت کے لیے قائم علی شاہ کو قیس (QAS) بھی پڑھ سکتے ہیں.

نوٹ: یہاں پر انتہائی محدود تعداد میں پائے جانے والے صاحب علم، تجربہ اور خدائی خدمت کا جذبہ رکھنے والے ماٹیویشنل سپیکرزسے معذرت۔


akmal-dawn

اکمل سومرو سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ تاریخ اور ادب پڑھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔وہ لاہور کے مقامی ٹی وی چینل کے ساتھ وابستہ ہیں۔

  1. Bilkul sahi kaha….. ye log……. Molana Tariq jameel part 2 ka kirdar ada ker rahy han… aur andaz ma thora nya chthatkhara daala ha

  2. قاسم شاہ صرف مغربی سپیکرز کی کتابیں پڑھ کے نقل کرتا ہے اس کے پلے کچھ بھی نہیں ہے

  3. یہ ملک میلہ ٹھیلہ دیکھنے والوں اور ساری زندگی شارٹ کٹ تلاش کرنے والوں کا ہے۔ایسے معاشرے میں۔قاسم علی شاہ جیسے ہی راہبر ٹہرتے ہیں

  4. Aik aik Lafz such aur gehre mushahiday aur tajziye ka tarjuman ha aur mera apna zaati experience Kia huwa b… Afsos na sirf ase jahil loot rhe hmare mulk ko nojawano ko bulke in K Zehno per shahkhsiyat parasti ki Mohr b lga kr unko andha kr chuke… A great suggestion by u Akmal somro dat such ppl should be banned

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *