پنجاب حکومت کی کالجوں کے احتجاجی اساتذہ کو نوکریوں سے نکالنے کی دھمکیاں
- March 27, 2019 10:10 pm PST
لاہور: آمنہ مسعود
پنجاب کے سرکاری کالجوں کے اساتذہ کا احتجاج دھرنے میں تبدیل ہونے کو آج دوسرا روز ہے۔ پنجاب اسمبلی کے سامنے مال روڈ پر اساتذہ نے دو روز سے احتجاجی کیمپ لگا رکھا ہے تاہم دو روز گزر جانے کے باوجود بھی حکومت کی جانب سے اساتذہ کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے گئے۔
لاہور میں ہونے والے اس احتجاجی دھرنے کے شرکاء کو محکمہ ہائیر ایجوکیشن نے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ہیں اور اس کے لیے کالج پرنسپلز کا سہارا لیا گیا ہے۔ محکمہ نے پرنسپلز کو ہدایات جاری کی ہیں کہ انھیں ایسے اساتذہ کے نام فراہم کیے جائیں جو اس دھرنے میں شریک ہیں تاکہ ان کیخلاف پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے۔
لاہور میں اساتذہ کا یہ احتجاج پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن(پیپلا) کے تحت ہورہا ہے۔ اساتذہ کو نوکریوں سے نکالنے کی دھمکی کو پیپلا کے مرکزی صدر حافظ عبد الخالق نے مسترد کر دیا ہے اور دھمکی کو اساتذہ کی تذلیل قرار دیا ہے۔
حافظ عبد الخالق نے تعلیمی زاویہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ 3 ہزار اساتذہ کی ترقیاں التواء کا شکار ہیں۔ ہر مہینے سے اساتذہ کی تنخواہوں سے بے جا کٹوتیاں ہوتی ہیں۔ پے پروٹیکشن نہیں ہے جب کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی الائونس بند ہیں۔ اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے اکیڈمی موجود نہیں۔ وہ اپنے ان مطالبات کے حق میں دھرنے دینے پر مجبور ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اساتذہ کے جائز مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے دھمکی دینا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے باعث شرم ہے۔
اساتذہ کے احتجاج میں خواتین کالجوں کی بھی نمائندگی ہے۔
دو روز سے جاری اس دھرنے میں استاد کو عزت دو کے عنوان کے تحت بینرز اور پوسٹرز مال روڈ پر لگائے گئے ہیں جب کہ اس عنوان پر اساتذہ کی جانب سے ایک مختصر خاکہ بھی پیش کیا گیا۔ اس خاکے کے کرداروں نے پاکستان کے اشرافیہ طبقات پر ضرب لگائی۔
کالجوں میں شعبہ اُردو و انگریزی کے شاعر اساتذہ کی جانب سے مشاعرے کا بھی انعقاد کیا جارہا ہے۔ مشاعرے کے دوسرے روز ناصر بشیر، حبیب جالب کے فرزند ناصر جالب سمیت دیگر شعراء نے انقلابی نظمیں پیش کیں اور حکومت پر کڑی تنقید کی گئی۔
دوسری جانب سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن مومن آغا، وزیر ہائیر ایجوکیشن پنجاب راجہ یاسر ہمایوں کی جانب سے احتجاجی اساتذہ سے بات چیت کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔
ڈی پی آئی کالجز پنجاب چوہدری جہانگیر، ڈائیریکٹر کالجز لاہور ظفر عنائیت انجم نے اساتذہ سے دو بار مذاکرات کرنے کی کوشش کی تاہم احتجاجی اساتذہ نے یہ کہہ کر مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا کہ مذکورہ افسران کے پاس فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار ہی نہیں لہذا وہ ان سے مذاکرات نہیں کریں گے۔
مال روڈ پر جاری اس دھرنے کے شرکاء سے اظہار یکجہتی کے لیے پنجاب ٹیچرز یونین، آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن، برابری پارٹی اور سماجی تنظیموں کے وفود نے احتجاج میں شرکت کی ہے۔
کالج اساتذہ نے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات کے حق میں مرحلہ وار احتجاج کیا۔ جس کا آغاز فروری میں کالج کی سطح پر سیاہ پٹیاں باندھ کر ہوا دوسرے مرحلے میں کالج میں ہی احتجاجی مظاہرے ہوئے جبکہ تیسرے مرحلے میں سول سیکرٹیریٹ لاہور کے سامنے 19 مارچ کو احتجاجی مظاہرے میں یہ اعلان کیا گیا کہ اب 26 مارچ کو مال روڈ پر دھرنا ہوگا۔
سیکرٹیریٹ کے سامنے ہونے والے احتجاج کے بعد وزیر ہائیر ایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں نے پیپلا کے وفد سے ملاقات کی اور اساتذہ کے مطالبات کو جائز قرار دے کر انھیں جلد تسلیم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
اساتذہ نے دھرنے کے دوسرے روز واضح کیا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر کیمونٹی کے حق کی جنگ لڑ رہے ہیں جب تک ان کے جائز مطالبات تسلیم نہیں ہوتے مال روڈ کو بند رکھا جائے گا۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت میں بھی ان کے مذاکرات ہوئے تاہم آج تک نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوسکا اب وہ محض مذاکرات تک اکتفاء نہیں کریں گے۔