منافق سماج میں “جون ایلیا” کا فلسفہ سچ
- November 18, 2018 11:58 am PST

خرم سہیل
جون صاحب اپنے زمانے سے تقریباً دو سو برس بعد پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب تہذیب رخصت ہورہی تھی، فن کی قدر کرنے والے بے سرو ساماں ہو چلے تھے۔ معاشرے کی ترجیحات تبدیل ہورہی تھیں، اب نہ کوئی مغل دربار تھا، نہ ہی کوئی واجد علی شاہ کی ریاستِ اودھ، جس کے حضور وہ اپنا فن پیش کرتے اور داد پاتے۔
عہدِ حاضر، جس میں انہوں نے جنم لیا، وہ پتھر کے دور کی واپسی میں مصروف تھا، ایسے میں پھول کی بات کرنا جرم تھا، لہٰذا خوشبو کی بات کرنے والے مجرم ٹھہرے۔
اب اتنی تاخیر کی سزا تو ملنی چاہیے تھی، سووہ انہیں مل کر رہی۔ یوں تو وہ کئی جان لیوا احساسات میں مبتلا تھے، مگر سب سے زیادہ پریشان کرنے والا احساس’’محبت‘‘تھا۔ رومان اور تخیل، جون صاحب کے مزاج کے دو پر تھے، جن کے بل بوتے پر وہ تخلیق کی دنیا میں محوِ پرواز تھے۔ سماج میں رہتے ہوئے، انہیں ضرورت تھی کہ دنیاداری کے معاملات کو بنا کر چلتے، مگر وہ کسی مخصوص ڈگر پر چلنے کے عادی نہ تھے، دل کی گواہی پر زندگی گزارنے والے اس شاعرِ بے بدل نے بڑا خرابہ پیدا کیا۔
خارجی دنیا سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا، داخلی دنیا کو مرکز مانے بیٹھے تھے، پھر یہ تو ہونا تھا۔
جوگزاری نہ جاسکی، ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
امروہے کی گلیوں میں ہوش تو سنبھالا، مگر خود کو زندگی بھر نہ سنبھال پائے۔ چوباروں کی کھڑکیاں، گھروں کے دروازے اور چلمنوں کے پیچھے سے مرمرئی انگلیاں، مسکان بھرتے ہوئے چہرے اور مجسم حسن ، انہیں بے چین کیے رکھتا تھا۔دید کی چاہ میں بے چینی ،ان کے دل میں کچوکے لگاتی تھی اور درشن ہو جانے پر مسرت کی گدگدی، انہیں مدہوش کر دیتی تھی۔ ظلم کی حد تک اعتراف کرلینے کے قائل تھے،اسی لیے جب کم عمری میں، محبت کا پہلا گرم جھونکا دل کو چُھو کر گزرا تو بے اختیار لکھ دیا۔
چاہ میں اُس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لوسرخی ، مرے رخسارکی
کم عمری میں جس نے کسی کی چاہ میں طمانچے کھائے ہوں،اُس کی بے قراری کاعالم کیا ہوگا۔ زندگی کی ابتدا سے لے کر خاتمے تک،ان کے تجربات اتنے تلخ رہے، جن کی کڑواہٹ ،ان کی شاعری اور نثری تحریروں میں بھی ملتی ہے، جو گفتگو کرتے تھے،اس میں بھی یہ ذائقہ پوری طرح موجود تھا۔ وہ خاص طور پر ایسے معاشرے میں زندہ تھے، جہاں جمالیات، بتدریج دفن ہورہی تھی.
اسی لیے زندگی کے آخری برسوں میں اعتراف کیا۔’’میں ہارچکا ہوں، معاشرے کو اپنی اقدار پہ لانا چاہتا تھا، مگر میں ہارگیا، یہ افلاطون اورکرگس کا معاشرہ نہیں ہے، یہ بونوں کامعاشرہ ہے۔‘‘ان کی شاعری ،سماج کانوحہ تھی اورخسارے کا واویلا بھی، جس پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں تھا۔
واعظ کوخرابے میں اک دعوت ِحق دی تھی
میں جان رہاتھاوہ جاہل نہیں آنے کا
یہ جون صاحب ہی تھے،جنہوں نے منافق معاشرے میں سچ کی سولی پرلٹک کروہ زندگی گزاری، جو گزاری نہ جاسکتی ہو۔ رشتوں کی کرچیوں سے بار بار زخمی ہوئے، آبلہ پا،چیخ وپکارکرتے کرتے خاموشی اختیار کرلی، پھر ان کے لکھے ہوئے حروف گویا ہوئے، سچائی چیخنے لگی، کیونکہ جس معاشرے میں وہ رہتے تھے،وہاں جھوٹ کا شوربپا تھا، سچائی کی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ تہذیب و تمدن اس معاشرے سے رخصت ہورہے تھے،جون صاحب اس ہارے ہوئے لشکر کے بہادرسپاہی تھے،جو باہر کی لڑائی کو،اپنے اندر تک کھینچ لائے۔وہ یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے،مگر معاشرے کی جہالت کے استعارے، یادگاریں زندہ ہیں ۔ جون صاحب اپنے آپ سے مکالمہ کرتے توان کی اذیت دُہری ہوجاتی تھی۔
میں رہا عمر بھر جدا خودسے
یادمیں خود کو عمر بھر آیا
جون صاحب نے کیفیات کو حروف میں پرو کر لکھا۔ اُن کی شاعری اور نثر پارو ں کی زبان ، ہمارے دل کی آواز لگتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہمیں اب ایک دوسرے کے دکھ سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔یہ اذیت کا وہ مقام ہے، جہاں سے پھر خاموشی گویا ہوتی ہے۔
انشائیوں میں درد کے یہ نغمے، احساس کے سینے میں پیوست ہیں، جن میں حالاتِ حاضرہ کا تذکرہ ،سماج کا دکھ اور ذات کا کرب بھی پوری طرح موجود تھا۔ بقول جون صاحب ’’ہم جو کھنکناتی ہوئی مٹی سے بنائے گئے ،ہم جو خاک کے خمیر سے اٹھائے گئے اور ہم جو خاک میں ہی سلائے جائیں گے ،ہم فتنہ وفساد کے زمانے میں زندہ ہیں اور دہشتوں نے ہمارا گھر دیکھ لیا ہے.
سو ہم پر لازم آیا کہ ہم اپنے حجروں سے باہر آئیں اور مرنے والوں اور مارنے والوں کو اس المناک حقیقت سے آگاہ کریں کہ زندگی مارنے والوں اور مارے جانے والوں ، دونوں ہی سے سوتیلی مائوں کا سا سلوک کرتی ہے ۔کسی کو ریشم وکمخواب کے بستر پر سلاتی ہے اور کسی کو بچھانے کے کے لیے گدڑی بھی نصیب نہیں ہوتی، لیکن موت سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے ،سب کو اپنی چھاتی میں سمیٹ لیتی ہے اور سب کو ایک ہی طور،خاک میں ملاتی ہے۔‘‘
ہم نے ان کی شاعری کو تو تسلیم کرلیا، مگر وہ حساس انسان ،جس نے اپنی اذیتوں کو قلم بند کیا،معاشرے کے نوحے لکھے،مگر کیا ہوا؟ہم اخلاقی انحطاط کے جس بد ترین دور سے گزر رہے ہیں ،وہاں ہو بھی کیا سکتا ہے ، کیونکہ ہم نے ہر رشتے میں ایک ترازو رکھ دیا ہے ،ہر خواب کے ساتھ ایک منعفت جوڑ رکھی ہے ،ہر امید کے پیچھے معاشی اسباب اکھٹے کررکھے ہیں ،ایسی تجارتی فضا میں لفظ کا ذکر کون کرے ، جذبے پر بات کون کرے.
ہم ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں،خود سے بھی بچھڑچکے ہیں ،اسی لیے کوئی لفظ ہم پر اثر انداز نہیں ہوتا۔جون صاحب نے اپنی زندگی میں اگر کوئی روگ پالا بھی تو اس قدر حسین طریقے سے کہ دکھ ،پھر دکھ نہ رہا ۔
بے دلی ،کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مرجائیں گے
کتنی دل کش ہو تم، کتنا دل جو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مرجائیں گے
جون فہمی اورجون شناسی کادورتوابھی شروع ہواہے۔یہ سلسلہ ابھی چلے گا،بہت سے دل مفتوح ہوں گے،بغاوت کے کئی علم بلند ہوں گے،یہ شاعری اورنثر پارے ان کے لیے حوصلے کامنشوربنیں گے۔بناوٹ،تصنع اورجھوٹ کے سماج سے بغاوت کرنے والوں کے لیے جون صاحب کی تخلیقات ،سفر کاسنگِ میل ثابت ہوں گی۔
جون صاحب کے لکھے ہوئے انشائیوں میں سارے جہان کا درد ہے اورسماج سے مکالمہ بھی۔ درد کے قبیلے سے جڑے ہوئے فنکار، کل بھی خاموش تھے اور آج بھی خاموش ہیں،صرف جہالت بول رہی ہے۔ جون صاحب نے اپنی زندگی میں اس احساس کو بھی اپنے اندر محسوس کر لیا تھا، وہ اس بات سے بے خبر نہیں تھے،انہوں نے اس بات کو مختلف زاویوں سے پیش کیا، جن میں سے ایک زاویہ یہ بھی تھا۔
میں تو صفوں کے درمیاں کب سے پڑا ہوں نیم جاں
میرے تمام جاںنثار،میرے لیے تو مرگئے
اپنا دکھ جھیلنا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے، لیکن کسی دوسرے کا دکھ جھیلنا بہت بڑی بات ہے اور جون صاحب کے دکھوں کو کوئی سمجھے، تو سمجھ آئے گی کہ وہ کتنے بڑے شاعر اور مفکر تھے ،مگر یہ کون سمجھے گا، کیونکہ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے دکھ سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔