زندہ ہے جمعیت زندہ ہے
- October 27, 2018 12:31 pm PST

اکمل سومرو
علم نفسیات کی اصطلاح میں سے ایک “نرگسیت” بھی ہے، جس کا بنیادی مفہوم خود پسندی ہے۔ نرگسیت کی صحت مند حالتیں ہم سب میں موجود ہیں۔ یعنی خود اعتمادی، عزت نفس وغیرہ۔ یہ نرگسیت کی صحت مند شکل ہوتی ہیں لیکن ان کا تعلق بھی ہماری انا سے جڑا ہے۔ نرگسیت سے مُراد بالعموم ایسی نرگسیت ہوتی ہے جس کا علاج کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ انفرادی، تنظیمی اور سماجی امور میں سنگین مسائل کا سبب بنتا ہے۔
اس مرض کا شکار ہونے والے افراد اور تنظیمیں ارد گرد کی دُنیا میں اذیت اور تباہی کا باعث بنتے ہیں اور اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ مریض کبھی خود کو مریض نہیں مانتا۔ نہایت چابکدستی سے اپنا دفاع پیش کرتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جو اس کا علاج کرنا چاہتے ہیں انھیں حاسد، گستاخ، دین مخالف یا بدنیت ثابت کر دے۔ لہذا نرگسیت میں مبتلا افراد اور تنظیموں کا علاج بالآخر سختی یا جراحی راستہ اختیار کرکے کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔
پاکستان میں اسلامی جمعیت طلباء ضیاء الحق دور سے ہی نرگسیت کا شکار ہے اور اپنے پُر تشدد، قتل و غارت گری، لوٹ مار کی تاریخ کو چھپانے کے لیے اس نرگسیت کے دفاع میں “اسلام” پیش کرتی ہے چنانچہ ضیاء الحق کی مارشل لائی طاقت کی پیداوار جمعیت کی تنظیمی طاقت میں تشدد کو بطور اُصول اپنا لیا گیا۔ ضیاء الحق نے جب جمہوریت کا قتل کیا اور بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تو امریکہ نواز “اسلامائزیشن” کیلئے جماعت اسلامی کوسیاسی محاذ اور جمعیت کو تعلیمی محاذ میں کمانڈر بنایا گیا اور بطور انعام ڈالرز وصول کیے۔ پروفیسر خورشید احمد جو 1953ء میں جمعیت کے نام رہ چکے تھے اور جاوید ہاشمی جو بھٹو دور میں 1972ء میں جمعیت کے پینل پر پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے تھے ان دونوں طلباء لیڈرز کو ضیاء نے اپنی ایڈوائزری کمیٹی میں شامل کر لیا۔ گویا تعلیمی اداروں میں یہ “جمعیت گردی”کا نقطء آغاز تھا جس کا مقصد جمہوری آوازوں کو تشدد کی بنیاد پر دبانا اور امریکی ڈالرز کے تیار کردہ ڈنڈے سے روکنا تھا۔
جمعیت کی نظر میں ضیاء کا مارشل لاء اپنے ہی ایک نظریاتی ساتھی کی حکومت تھی، ضیاء کے اسلامی شریعت کے بارے میں تنگ نظر تصورات میں انھیں کشش نظر آتی تھی۔ ضیاء نے جمعیت کی بھر پور سرپرستی کی، پنجاب اور کراچی میں مارشل لاء مخالف طلباء تنظیموں کی بیخ کنی کا کام جمعیت کے سُپرد کر دیا گیا۔ تعلیمی اداروں میں جمعیت نے اپنے سیاسی حریفوں پر ٹارچر کرنا شروع کیا اور حکومت کی سرپرستی کی بناء پر جمعیت ایک طاقتور تنظیم بن گئی لیکن اس طاقت نے کئی ماؤں کی گودیں اُجاڑیں، کئی نوجوانوں کو بطور ایندھن استعمال کیا اور کئی جوان تاریک راہوں میں امریکہ نواز اسلام کا نام لیتے لیتے مارے گئے۔
کراچی میں جمعیت کے مسلح کارکنوں کے ذریعے سے پی ایس ایف اور این ایس ایف کو نکالنے کی کوشش کی گئی۔ پھرجمعیت پنجابی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن اور پنجابی میڈیکوز، آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، نیو سندھی سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، سندھی شاگرد تحریک سمیت متعدد طلباء تنظیموں کے ساتھ باہم دست و گریبان ہوئی۔
ضیاء نے اسلام آباد میں ایک تعلیمی کانفرنس بلائی جس میں جمعیت کے ناظمین خصوصی طور پر مدعو تھے، یہاں جمعیت کی یہ تجویز کہ ایک قومی تعلیمی کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے فوری طور پر تسلیم کر لی گئی، دوسری تجویز یعنی خواتین یونیورسٹی کی تاسیس پر غور کرنے کا ضیاء نے وعدہ کیا۔ جمعیت نے اظہار تشکر کے طورپر ضیاء الحق کو پنجاب یونیورسٹی کے کانووکیشن میں مدعو کیا، یہ کانووکیشن 13 سال بعد منعقد ہو رہا تھا۔ ضیاء نے جمعیت کے مطالبے پر تعلیمی اداروں میں نماز ظہر اور درس قرآن لازمی قرار دے دیا۔ عربی زبان چھٹی جماعت کے بعد لازمی مضمون بن گئی۔ اسلامیات، مطالعہ پاکستان لازمی مضمون ہوگیا، تعلیمی اداروں میں مخلوط تقاریب پر پاپندی لگ گئی اور اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز قائم کر کے یہاں جماعت اسلامی اور جمعیت کے کارکنوں کو ملازمتیں دی گئیں۔
جمعیت پر ضیاء سرپرستی ہونے کے بعد پنجاب اور کراچی کے تعلیمی اداروں میں مخالفین کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز ہوا، مخالف تنظیموں کے کارکنوں کو کلاس رومز، امتحانی مراکز اور ہاسٹلز میں لے جا کر ٹارچر کیا جانے لگا، ہاسٹلز میں خصوصی ٹارچر سیل بنائے گئے جہاں جمعیت کے مخالفین کو استریاں لگائی جاتیں، مخالفیں کے پوسٹرز پھاڑے جاتے، پوسٹرز لگانے والوں پر تشدد ہوتا، لڑکے، لڑکیوں کی آپس میں گفتگو پر بھی پاپندی لگا دی گئی۔ جمعیت زبردستی اپنے جلسے جلوسوں کے لیے سرکاری کالجوں و یونیورسٹیز کی بسیں استعمال کرتی چنانچہ جمعیت نے تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کی فضاء قائم کر دی اب جمعیت اسلحہ کا آزادانہ استعمال کر سکتی تھی۔ یونیورسٹیوں میں اسلام کے نام پر اور کالجوں میں سیاسی اجارہ داری کے نام پر خون خرابے کیے گئے۔ ضیاء دور میں لاہور کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جمعیت کے تشدد کا مقابلہ کرنے والوں میں پانچ تنظیمیں پیش پیش تھیں یعنی این ایس ایف، پی ایس ایف، این ایس او، کیو ایس ایف اور بلیک ایگلز۔
لاہور میں ہنگاموں کے دوران دو طالبعلم برکات احمد اور حنیف برکت قتل ہوئے۔ 1980ء میں یو ای ٹی لاہور کے انتخابات کے دوران کیو ایس ایف کا کارکن جمعیت کی فائرنگ سے قتل ہوا۔ اگلے سال ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد میں جمعیت نے دو طلباء قتل کیے اور اس کیس میں جمعیت کے کارکن نامزد ہوئے۔ جمعیت اسلحہ رکھنے کی اس قدر عادی ہوگئی تھی کہ 1982ء میں اس کے ناظم اعلیٰ کے بریف کیس سے پستول اس وقت برآمد ہوا جب وہ ہوائی جہاز میں سواز ہونے والا تھا، بقول جمعیت یہ لائسنس شدہ پستول تھا۔ یہ خبر اخبارات میں اگلے روز چھپی تو جمعیت آپے سے باہر ہوگئی، جمعیت تنقید کا جواب تشدد سے دینے کی عادی ہوچکی تھی، اس خبر کے رد میں عمل میں روزنامہ جنگ اور نوائے وقت کے دفاتر پر جمعیت نے حملہ کر دیا اور آگ لگا دی۔
ضیاء دور میں تعلیمی اداروں کے اندر جمہوری سوچ کے دروازے بند کرنے کے لیے جمعیت کو استعمال کیا گیا، اساتذہ کو ڈرانا، دھمکانا، نظریاتی مخالف اساتذہ کے تبادلے کرانا جمعیت کا وطیرہ بن گیا۔ بائیں بازو کے طلباء کو کچلا جاتا، عدالتوں میں جمعیت کے خلاف مقدمات کی پیروی کے لیے جماعت اسلامی کے وکیل ہمہ وقت دستیاب ہوتے چنانچہ مارشل لاء کے قیام کے 6 سال تک ضیاء جمعیت ہنی مون جاری رہا۔
اس سے پہلے بھی یحییٰ خان کے دور میں بھی جمعیت کو سرکاری سرپرستی میں طاقت فراہم کی گئی۔ پنجاب میں دائیں و بائیں بازو کا تضاد جنوری 1970ء میں تیز ہوگیا۔ جماعت اسلامی، پی ڈی بی اور مسلم لیگ نے پیپلز پارٹی کو اپنے خیال میں بدنام کرنے کے لیے سوشلزم کے حوالے سے ہدف تنقید بنایا۔ 113 علماء سے سوشلزم کے خلاف فتویٰ حاصل کیا گیا اور اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہوئی اس مہم کے پیچھے امریکہ کے پالیسی ساز اداروں کا عمل دخل تھا۔ مولانا مودودی نے یہ بھی اعلان کر دیا کہ پاکستان میں جو کوئی سوشلزم کی بات کرے اس کی زبان گدی سے کھینچ لینی چاہیے۔ جماعت اسلامی نے ڈیموکریٹک یوتھ فورس کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم بھی قائم کی تھی جسے عرف عام میں ڈنڈا فورس کہا جاتا تھا، جس کا مقصد سوشلزم کی حمایت کرنے والوں کو طاقت کے زور پر خاموش کرانا تھا، اس دوران دائیں بازو کی جماعتوں کو مارشل لاء حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل تھی۔
اگست 1979ء میں کراچی یونیورسٹی کے الیکشن جمعیت نے جیتے، تقریب حلف برداری کے موقع پر جمعیت کے مخالفین نے مظاہرہ کیا اس مظاہرے کو منتشر کرنے کے لیے جمعیت کے سٹین گن بردار کارکن میدان میں آگئے، ان کی جانب سے ہونے والی فائرنگ سے 16 طلباء اور 2 طالبات زخمی ہوئیں۔ 1981ء کے الیکشن کے بعد ووٹوں کی گنتی کے دوران جمعیت اور اس کے مخالفین میں جھگڑ ہوا اور جمعیت کی فائرنگ سے شوکت چیمہ قتل ہوگیا۔ اگلے سال یونائیٹیڈ سٹوڈنٹس موومنٹ کا ایک کارکن جمعیت کے ہاتھوں مارا گیا۔ 1985ء تک پنجاب اور سندھ میں طلباء تنظیموں کے درمیان خانہ جنگی کا ماحول بن چکا تھا۔
لاہور میں کیو ایس ایف اور بلیک ایگلز جمعیت کے خلاف طاقت بن گئیں۔ سول حکومت کے قیام کے پہلے سال لاہور میں جمعیت کے دو کارکن ایم ایس ایف کے ہاتھوں قتل ہوئے، ایک کو دیال سنگھ کالج کے اندر مارا گیا اور دوسرا طالبعلم اسلامیہ کالج سول لائنز میں قتل ہوا۔ اگلے سال جمعیت نے ایم ایس ایف کے دو طلباء پر فائرنگ کی۔
جمعیت نے یو ای ٹی لاہور سے ایم ایس ایف کا قبضہ ختم کرانے کے لیے سارا سال جنگ لڑی۔ یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں اسلحہ خانہ بن گئے، ایک ہاسٹل میں بم بنانے کی کوشش میں مصروف دو طلباء کے پرخچے اُڑ گئے، ہر رات ہاسٹلز میں فائرنگ ہوتی۔ سول حکومت میں پولیس کی شاہین فورس کی ایک جیپ کو جمعیت کے کارکنوں نے یو ای ٹی کے باہر آگ لگانے کی کوشش کی تھی جس پر پولیس نے فائرنگ کی اور جمعیت کے دو کارکن موقع پر ہلاک ہوگئے۔ اگلے دن جمعیت نے جلوس نکال کر پنجاب اسمبلی پر حملہ کر دیا اور یونیورسٹی کے ایڈمن بلاک کو آگ لگا دی۔
کراچی میں 1986ء میں ڈاؤ میڈیکل کالج، سندھ میڈیکل کالج اور کراچی یونیورسٹی میدان جنگ بنے۔ کراچی یونیورسٹی میں پہلے جمعیت نے پی ایس ایف کے دو کارکنوں کو قتل کیا پھر بدلے میں جمعیت کے دو کارکن قتل ہوئے اس کے بعد جمعیت نے کراچی میں 7 بسوں کو نذر آتش کر دیا۔
حقائق اور بھی بہت تفصیلی ہیں کہ کیسے کیسے اس پُر تشدد سیاست میں طلباء قتل ہوتے رہے۔ چنانچہ ضیاء الحق نے سٹوڈنٹس یونین پر پاپندی عائد کر دی، ضیاء نے جمعیت کو استعمال کرنے کے بعد اس کی مزید سرپرستی کرنے سے انکار کر دیا تو جمعیت نے ضیاء کے خلاف مہم کا اعلان کر دیا لیکن جمعیت کی اس مہم میں ضیاء مخالف تنظیمیں شامل نہ ہوئیں کیونکہ ماضی میں جمعیت ضیاء کی دست بازو رہ چکی تھی۔ کراچی کے انگریزی مجلے ہیرلڈ میں مظہر عباس نے قتل و غارتگری پر ایک مضمون لکھا۔ جولائی 1977ء سے لے کر اگست 1988ء کے درمیان قتل ہونے والے طلباء کی تعداد 80 بتائی گئی۔ طلباء کا ایکٹوازم پیشہ بن گیا جس نے پورے تعلیمی اداروں کو تباہ و برباد کر دیا۔
پاکستان پر امریکی قبضے، سامراجی و سرمایہ دارانہ نظام کے تسلط کو مضبوط رکھنے میں جماعت اسلامی اور جمعیت نے بطور کمانڈر انچیف فرائض سر انجام دیے ہیں، امریکی ڈالرز کے تیار کردہ افغان جہاد میں ہزاروں پاکستانیوں کے نوجوان بطور ایندھن استعمال ہوئے، جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم اس پر اپنی حیات میں ہی جماعت اسلامی کے کردار پر وضاحت دے گئے تھے، یہ اُن کا بڑا پن تھا.
حالیہ برسوں میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں جب پولیس نے گرینڈ سرچ آپریشن کیا تو ہاسٹلز کے قریب زمین کے اندر سے اسلحہ کا ڈپو ملا، ہاسٹل میں خفیہ ایجنسیوں نے آپریشن کیا تو طالبان کے ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا۔ پروفیسر افتخار بلوچ پر بہیمانہ تشدد کر کے بازو توڑا گیا، سر پھاڑا گیا۔ ہاسٹلز کے وارڈنز کے گھروں میں خون آلود کفن پھینکے گئے۔ اب جب پنجاب یونیورسٹی سے جمعیت کی طاقت ٹوٹ چکی، بھتہ بند ہوچکا، ہاسٹلز پر قبضے ختم ہوچکے، میس بند ہوچکے، بسوں کا مفت استعمال رُک چکا، مرضی کے داخلے اور اساتذہ کی بھرتیوں کا اختیار ختم ہوچکا، حتیٰ کہ ایوانوں سے جماعت اسلامی کا بھی خاتمہ ہوچکا اور جماعت اسلامی کو ختم کرنے میں جمعیت نے جس طرح سے تاریخی کردار ادا کیا وہ قابل ستائش ہے لیکن اس کے باوجود جمعیت کے خمیر سے تشدد کا خاتمہ نہ ہوسکا جس کی تازہ مثال نیو کیمپس میں طالبہ کے ساتھ بیٹھے نوجوان پر ہونے والے تشدد سے واضح ہے۔ واقعی ہی جمعیت زندہ ہے.
ضیاء تو مرچکا لیکن ضیاء کی آمر سوچ سماج میں زندہ ہے اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ہے.
جمعیت کا مقبول نعرہ ملاحظہ کیجئیے
طلباء کا منشور بتا دو
آگ لگا دو، آگ لگا دو