انسانی جسم میں درد کی پیمائش کا آلہ ایجاد

  • February 17, 2020 1:04 am PST
taleemizavia single page

ٹریور لارینس جوکِمس

امریکا میں مقیم سترہ سالہ ماہم صدیقی نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جو مریضوں کو ہونے والے درد کی قابلِ اعتبار پیمائش کرتا ہے۔ 

یہ کوئی ایسی چیز نہیں بھی ہو سکتی ہے جس کے بارے میں ہم اکثر سوچتے ہوں مگر مؤثر طبّی علاج اور توجہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ یہ ہے کہ ڈاکٹروں کے سامنے اس کی پیمائش کی کوئی معتبر صورت نہیں کہ کوئی مریض سچ مچ کس قدر درد محسوس کر رہا ہے۔مگر یہ چیز مریض کو آرام ، علاج کے معاملے اورتشخیصی طریقہ کار پر بڑے طور پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب درد کی حقیقت کا درست علم ہوجائے گا تو بعض ٹیسٹ ضروری ، مگر بعض دیگر ٹیسٹ کا امکان ختم بھی ہو جائے گا۔ اس طور پر دیکھا جائے تو درد کی شدت کی معتبر اور مسلسل پیمائش مؤثر توجہ کے لحاظ سے بہت اہم ہے ۔

ماہم صدیقی نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک ایسا آلہ بنایا ہے جو مریضوں کو ہونے والے درد کی سطح کی قابل اعتبار پیمائش کرتا ہے۔ یہ آلہ درد کی سطح کا تعین کرنے میں ڈاکٹروں کی مدد کے لیے مریض کی اعصابی سرگرمی کا جائزہ لیتا ہے۔ اس ایجاد کے لیے صدیقی اور ان کی ٹیم کو حال ہی میں نیویارک کی کارنل یونیورسٹی میں افتتاحی ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن ہیکا تھون سے نوازا گیا ہے۔ 

امریکی حکومت کی زیر نگرانی چھپنے والے سپین میگزین کی رپورٹ کے مطابق ، صدیقی نے اپنے اس تجربے کا حال بیان کرتے ہوئے بتایا ’’ہیکا تھون میں شرکت کرنے والی اکلوتی نان گریجویٹ طالبہ ہونا شروع میں سچ مچ خوفزدہ کرنے والی بات تھی۔ مجھے ڈرائیونگ لائسنس بھی چند ماہ پہلے ہی ملا تھا۔ میں نے جب ججوں اور اطالیقوں کو بتایا کہ میں ابھی ہائی اسکول ہی میں پڑھتی ہوں تو ان کے چہروں کا تاثر بالکل حیران کرنے والا تھا‘‘۔

انہوں نے مزید بتایا ’’عمر کے فرق نے میرے گروپ میں ایک طرح سے تنوع کا اضافہ کیا اور سوچنے کے الگ ڈھنگ نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ‘‘۔

جب صدیقی سے یہ دریافت کیا گیا کہ ان کا بنایا گیا آلہ کس طور پر کام کرتا ہے تو انہوں نے بتایا’’یہ آلہ ایک  ای ای جی(الیکٹروانسفلو گرام)ہیڈسیٹہے جو مریض کو ہونے والے درد کی شدت کا پتہ لگانے کے لیے برقی اعصابی سرگرمی کا استعمال کرتا ہے۔اس کے مضمرات اہم ہیں کہ کسی معروضی پیمائش کے بغیر کسی ڈاکٹر کے لیے اس بات کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل ہوگا کہ مریض کو حقیقت میں کتنا درد ہو رہا ہے۔اس کاوش کا مجموعی مقصد ایک ایسا آلہ تیار کرنا تھا جس کی مدد سے درد کی معروضی تشخیص ہو سکے تاکہ عالمی طور پر ڈاکٹروں کے لیے درد کے علاج کے لیے دوا کی تجویز آسان ہو سکے‘‘۔ 

درد کی معروضی پیمائش کا طریقہ پتہ چل جانے سے بقول صدیقی ’’ ایسے مریضوں کی مدد ہوتی ہے جن کو کسی دوسری بیماری سے نہیں بلکہ اصل بیماری سے درد ہو رہا ہو ۔ اس سے نشہ کی گولی کی تشخیص کرنے کے غلط استعمال کو روکنے میں بھی مدد مل سکتی ہے ‘‘ ۔

اس آلے کو بنانے کا عمل خوش تدبیری اور اتفاقی طور پر مناسب حال اور غیر متوقع انکشافات کرنے کی قابلیت کا امتزاج ہے۔صدیقی بتاتی ہیں ’’ ہماری ٹیم میں شامل ایک شخص نے مشورہ دیا کہ ہم ایک ایسا آلہ بنائیں جو مرگی کے مریضوں کے لیے مدد گار ثابت ہو ۔ جب کہ میرا مشورہ تھا ہم کوئی ایسی چیز تخلیق کریں جو ناقابل ِ تفہیم درد میں مبتلا مریضوں کے لیے کارآمد ہو۔یہ مشورہ دے کر میرے ذہن میں اچانک یہ بات کوندی کہ ہم کوئی ایسا آفاقی درد پیما آلہ کیوں نہ تیار کریں جو جسمانی درد میں مبتلا کسی بھی شخص کے لیے قابلِ استعمال ہو سکے‘‘۔

اس خیال نے ایک اختراعی آلہ تخلیق کرنے میں راہنمائی کی اور ان کے گروپ کو ہیکاتھون میں زبردست کامیابی ملی۔ اب صدیقی خود کو نئے چیلنجوں اور امکانات میں پیش قدمی کرتا ہوا پاتی ہیں ۔ انہوں نے بتایا ’’ میں اب بھی کالج میں داخلہ کے شدید دباؤ والے مرحلے سے گزر رہی ہوں۔ میں علم نفسیات یا اعصابی سائنس پڑھنا چاہتی ہوں اور میں پُر امیدہوں کہ ماہر ِ علم الاعصاب بننے کے لیے کسی میڈیکل کالج میں داخلہ لوں گی ‘‘۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *