استعماری اجارہ داری بذریعہ تعلیم و زبان
- February 15, 2017 4:12 pm PST
ناصر عباس نیئر
اجارہ داری، کسی نظریے، تصور اور اقدار کا ایک ایسا غلبہ ہے جس میں تشدد نہ ہو جبکہ استعماریت طاقت کے متشددانہ اور بہیمانہ استعمال میں کوئی قباھت نہیں دیکھتی۔ مسولینی کے تشدد کے شکار ترقی پسند دانشور گرامچی نے دوران قید اجارہ داری کا نظریہ تشکیل دیا تھا۔
گرامچی اجارہ داری کو ایک ایسے غلبے سے تعبیر کرتا تھا جسے موجود سماجی اور معاشی نظاموں کو طاقت کے اندھے استعمال سے تہس نہس کیے بغیر ممکن بنایا جاسکے۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ان نظاموں میں شامل گروہ اپنی رضا و رغبت سے غلبے کو قبول کریں۔
چنانچہ اجارہ داری سے مراد ایک ایسی اخلاقی اور فلسفیانہ قیادت ہے جسے ایک سماج کے ممتاز گروہوں کی فعال رضا مندی سے حاصل کیا گیا ہو۔ یہ ممتاز گروہ اشرافیہ کے طبقے کے افراد اور دانشور ہوسکتے ہیں۔ اجارے کا عمل عام طور پر دو صورتوں میں ہوتا ہے؛
اجارہ زدہ گروہ کا خود اپنے خیالات، ثقافت، شناخت سے دستبردار ہوجانا؛ اور اپنی ثقافتی شناخت کے حاشیائی مقام کو تسلیم کر لینا۔
استعماری سیاق میں دیکھیں تو استعماری شناختوں کا اجارہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب مقامی باشندے اپنے محکوم ہونے کو اپنی شناخت کے طور پر تسلیم کر لیں۔ یعنی یورپین کو اپنا آقا ماننے لگیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپنی معروف کتاب “ہندوستانی مسلمان” میں لکھا ہے کہ جب مسلمانوں نے برطانوی ہندوستان کو دارالحرب کی بجائے دارالامان کے طور پر قبول کر لیا تو اُنہوں نے اپنی محکومانہ حیثیت بھی تسلیم کر لی۔
یہ بھی پڑھیں؛ کیا تعلیم فارمیشن کا نام ہے؟
جب تک مسلمان ہندوستان کو دارالحرب سمجھتے رہے، مزاحمت کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھا مگر جب اپنی محکومانہ حیثیت کو قبول کر لیا تو مزاحمت کی جگہ متابعت نے لے لی اور اس کے ساتھ ہی ثقافتی اجارہ داری کی راہ ہموار ہوگئی۔
مثلا سر سید جب یہ کہتے ہیں کہ ہم انگلش گورنمنٹ کے زیر سایہ بستے ہیں، جس میں ہم کو امن و امان کے سوا تعلیم بھی ایسی مدد دی ہے کہ کوئی سلطنت ، کوئی بادشاہت ایسی ہم کو نظر نہیں آتی جس نے اپنی رعایا کی تعلیم میں ایسی مدد کی ہو اور عمدہ سامان تعلیم کا مہیا کر دیا ہو۔
یو یوں سر سید ہندوستانیوں کی بطور رعایا اور محکوم ہونے کی شناخت کا اعتراف، امتنان و تشکر کے جذبات کے ساتھ کرتے ہیں اور اسی شناخت میں اپنی قومی نجات دیکھتے ہیں۔ بلاشہ رعایا ایک نئے سیاسی انتظام میں ایک سیاسی شناخت تھی، جو انگریز حکومت کے خلاف مزاحمت ککے جذبات کا قلع قمع کرتی تھی اور اس حکومت کے لیے وفاداری کے جذبات پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتی تھی مگریہی شناخت انگریز حکومت کو ایک استعماری حکومت کے طور پر نہیں دیکھتی تھی۔
استعماری ثقافت کے اجارے کے دو اہم ذرائع تھے؛ تعلیم اور زبان۔
ہندوستان میں انگریزی حکومت کا نافذ کردہ تعلیمی نظام، دراصل اس نظام کی نقل تھا جسے یورپ نے نشاۃ ثانیہ کے دوران میں سٹڈیا ہیومینٹیز کے نام سے رائج کیا تھا اور جس میں “انسانی آدمی” اور “حیوانی آدمی” کی تفریق موجود تھی۔
یہ پڑھیں؛ برصغیر میں برٹش حکومت کے پیدا کردہ چھ بڑے قحط
جب تعلیمی فلسفے میں آدمی کا تصور ہی ایک حیوان کا ہو تو اسے ایک انسانی شناخت دینا ہی تعلیم کا بنیادی مقصد قرار پاتا ہے۔ انسانی شناخت کا تصور ریاست ہی تشکیل دیتی ہے اور یہیں سے تعلیم میں ریاست کے وضع کردہ ثقافتی تصور کے اجارے کی راہ کھل جاتی ہے۔
ہندوستانی نظام تعلیم میں تعلیم کا بڑا مقصد دانش ورانہ نہیں بلکہ اخلاقی ہے۔ تعلیم کا دانش ورانہ مقصد فکر و نظر کی آزادی میں یقین رکھتا ہے جب کہ اخلاقی مقصد بعض طے شدہ معیارات حیات کی پاپندی سیکھاتا ہے۔ دانش ورانہ تعلیم ہر شے کی اہمیت و معنویت اور جواز پر سوال اُٹھاتی ہے اور اس کے مقابلے میں اخلاقی تعلیم تسلیم و رضا کے جذبات اُبھارتی ہے۔
انگریز حکمران ہندوستانیوں کے بارے میں کیا تصور رکھتے تھے اس کی ایک جھلک سر سید ہی کے ایک مضمون “نئی تہذیب” میں ملتی ہے؛ انگریز جنٹیلمین کہتے ہیں کہ ہندوستانی بندر کے موافق ہیں جو چوتڑون کے بل زمین پر بیٹھتے ہیں بندر کے موافق کھانے میں ہاتھ سان کر کھانا کھاتے ہیں۔ کوئی تمیز ان کی معاشرت میں نہیں ہے۔
وحشیوں سے کسی قدر بہتر ان کا لباس ہے گو قطع اس کے مشابہ ہے جو جنگلی وحشی نامہذب قومیں اب تک پہنتی ہیں اصل یہ ہے کہ ہندوستانیوں کو جنگلی، وحشی اور نامہذب کہنا ایک طرف اپنے اس اقتداری مرتبے کا اعلان تھا کہ انگریزوں کو ہندوستانیوں کی ثقافتی شناخت سے متعلق رائے قائم کرنے کا حق حاصل ہے اور دوسری طرف ہندوستانی اور یورپی ثقافت میں اس عدم مساوات کو شدت سے ابھارنا مقصود تھا جو یورپی ثقافت کو برتر ٹھہراتی تھی اور یورپی طرز پر وحشی ہندوستانیوں کی اصلاح و تعلیم کا جواز پیدا کرتی تھی۔
جانئیے؛ علی گڑھ تحریک تہذیبی مطالعہ
ہندوستانی یورپی تعلیم، ہندوستانیوں کی رضا مندی ہی سے انہیں ایک نئی شناخت دیتی تھی یہ تعلیم کس نوع کی شخصیتوں کی تشکیل کرتی تھی۔ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر اس سے متعلق یوں کہتا ہے؛ کوئی نوجوان آدمی، خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، ہمارے اینگلو انڈین سکولوں سے جب نکلتا ہے تو اپنے اعتقادات پر بے یقینی سیکھ چکا ہوتا ہے۔
برصغیر میں برطانوی نو آبادکاروں کی لسانی پالیسی تین مراحل میں ظاہر ہوئی؛ اول ایسٹ انڈیا کمپنی کے انتظامی و عسکری حکام نے یہاں کی کلاسیکی زبانوں کو خود بھی سیکھا اور ان کی ہندوستانیوں کو بھی تعلیم کے لیے کلکتہ (1781ء) اور بنارس (1791ء) کھولے۔
دوم انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا (لارڈ میکالے کی 1835ء کی تعلیمی یاداشت کی روشنی میں) اور پھر اسے فارسی کی جگہ سرکاری زبان کا درجہ دیا۔ تھوڑے عرصے بعد 1844ء میں انگریزی خوانوں کو سرکاری ملازمت میں ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔
تیسرے مرحلے میں (1854ء کے تعلیمی مراسلے کی روشنی میں) بنیادی تعلیم کیلئے برصیگر کی ورنیکلر زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ انگریزی کو علم و فن کی ایک نئی زبان کے طور پر نہیں، ایک شائستگی افروز قوت کے طور پر رائج کیا گیا۔
یہ پڑھیں؛ اُردو تحقیق کا بحران ہائر ایجوکیشن کمیشن کیوں خاموش ہے؟
چنانچہ انگریزی زبان کا قواعدی علم، نوآبادیوں کی سیاہ فام آبادی کے لیے تہذیب کا سب سے اہم عامل تھاانگریزی زبان کا اجارہ قائم ہونے میں سب سے اہم کردار اس تصور کی عمومی قبولیت نے ادا کیا کہ درست اور فرفر انگریزی بولنا اپنی ایک نئی شناخت قائم کرنا ہے: یعنی مہذب، سویلائزڈ اور کلچرڈ ہونے کی شناخت۔
انگریزی نے ہمیشہ خود کو برصغیر کی زبانوں کے مقابل ظاہر کیا گویا انگریزی کے سلسلے میں دو بیانیے گھڑے گئے۔ ایک یہ کہ انگریزی جدید اور نئے علوم سے مالا مال ہے جبکہ عربی، فارسی اور سنسکرت قدیم، پسماندہ اور ازکار رفتہ ہیں۔ میکالے کی تعلیمی یاداشت میں یہ بیانیہ پوری قوت سے ظاہر ہوا۔ اس نے مشرق کی کلاسیکی زبانوں کے تمام ذخیرے کویورپ کی کسی ایک لائبریری کی ایک شیلف میں رکھی کتابوں کے مقابلے میں بے وقعت قرار دیا۔
دوسرا بیانیہ یہ تھا کہ انگریزی آقا کی زبان ہے اور اسی بناء پر تہذیب آموز ہے اس کے مقابلے میں برصغیر کی دیسی زبانیں ورنیکلر یعنی غلاموں کی زبانیں ہیں اور وحشیانہ عناصر رکھتی ہیں لہذا تعلیم کا بڑا مقصد انگریزی تصورات ہی کی تعلیم تھا۔
اس ضمن میں بھی تعلیم کا وہی تصور قائم کیا گیا جس میں انسان کو حیوان سمجھ کر اس کی اصلاح کی کوشش کی جاتی ہے۔ انگریزی کے مقابلے میں برصغیر کی تمام دیسی زبانیں غیر مہذب، جنگلی، وحشیانہ عناصر کی علمبردار تھیں اور انہیں فقط یورپی طرز پر ہی مہذب بنایا جاسکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزی نے یہاں کی زبانوں سے جو رشتہ قائم کیا وہ صاف لفظوں میں لسانی استعماریت کا تھا۔
نوآبادیاتی عہد میں انگریزی اور برصغیر کی مقامی زبانوں میں عدم مساوات کئی سطحوں پر موجود تھی۔ خاص طور پر تعلیم، ملازمت، سماجی مرتبے کی سطح پر۔ یہ تینوں چیزیں برصغیر کے مقامی باشندوں کو درکار تھیں لہذا وہ انگریزی کے اس لسانی اقتدار کو بہ رضا و رغبت قبول کرتے تھے۔ اس میں اپنی معاشی و ثقافتی نجات دیکھتے تھے اور یوں غیر شعوری طور پر لسانی اور ثقافتی اجارے کی راہ ہموار کرتے تھے۔
Dr.Nasir Abbas Nasir is innovatic critic.He has gainded world repute in field of criticism . Urdu in the perspective of Colonialism & post colonialism era is his major concern . His post doctrate thesis at Hydlburg is also the detailed study of this discourse which is full of historic consciousness,plight situation of indo-pak inhabitants, British hegemony & imperialism. The narrative of the writeris newness,unique & extraordinary in Urdu Criticism.