جی سی یونیورسٹی میں غیر ملکی گھوسٹ پروفیسرز کی بھرتیاں کیسے ہوئی؟

  • November 15, 2019 10:53 am PST
taleemizavia single page

آمنہ مسعود: گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں 2003ء سے 2013ء تک غیر ملکی پروفیسرز کی بھرتیوں میں گھپلے، اساتذہ کے فرضی ناموں پر تنخواہیں ادا کی جاتی رہیں، میگا کرپشن سیکنڈل نیب کو بھجوانے کی سفارش کی گئی ہے۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کی جانب سے جی سی یونیورسٹی لاہور کے عبد السلام سکول آف میتھیمیٹیکل سائنسز کو ملنے والے فنڈز خرد برد کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔

سابق وائس چانسلر ڈاکٹر خالد آفتاب کے دور میں ایچ ای سی فارن فیکلٹی ہائیرنگ پروگرام سے یونیورسٹی کو 2003ء سے 2013 تک غیر ملکی پروفیسرز کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے 63 کروڑ 80 لاکھ روپے ادا کیے گئے.

سکول میں غیر ملکی وزیٹنگ پروفیسرز کو مستقل فیکلٹی دکھایا گیا، کاغذوں میں بھرتی کیے گئے 58 غیر ملکی پروفیسرز میں سے 20 پروفیسرز کے نام ہی جعلی نکلے ہیں۔

یونیورسٹی کے اس سکول میں غیر ملکی پروفیسرز کی بھرتیوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے ڈاکٹر عامر اقبال کی سربراہی میں تین رُکنی کمیٹی قائم کی گئی اس کمیٹی کی رپورٹ نے یونیورسٹی میں‌ کی گئی میگا کرپشن کا بھانڈا پھوڑ دیا.

ڈی جی سکول ڈاکٹر اے ڈی رضا چوہدری نے ڈائیریکٹر فنانس اعجاز ملک کے ساتھ مل کر نجی بینک میں اکائونٹ کھولا اور ایچ ای سی سے ملنے والے فنڈز اس اکائونٹ میں منتقل ہونے کے بعد کیش نکلوا لیا جاتا اور پھر اس کیش میں سے وزیٹنگ اساتذہ کو پیسے ادا کیے جاتے رہے۔

دستاویزات کے مطابق غیر ملکی اساتذہ نے 8 سالوں میں صرف پانچ پانچ ہفتے یونیورسٹی میں گزارے اور یونیورسٹی کی جانب سے ان کے نام پر پیسے ہڑپ کیے جاتے رہے۔

انکوائری رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ غیر ملکی پروفیسر مارٹن باکا کے نام پر ایک لاکھ 30 ہزار ڈالرز، پروفیسر الیگزینڈرو ڈمیکا کے نام ایک لاکھ 74 ہزار ڈالرز، پروفیسر جویرگن ہرزگ کے نام پر 2 لاکھ ڈالرز، پروفیسر ایڈی باسکورو کے نام پر 2 لاکھ چار ہزار ڈالرز کا فراڈ اور پروفیسر گیریڈ فسٹرکے نام پر ایک لاکھ 80 ہزار ڈالرز کا فراڈ کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ اساتذہ کی تقرری ہی نہیں کی گئی اور ان کے نام پر تنخواہیں وصول کی گئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ پورا فراڈ بارہ افراد مل کر کرتے رہے.

یونیورسٹی کی ڈائیریکٹر کوالٹی اینہاسمنٹ سیل ارم سہیل کو ان غیر ملکی پروفیسرز کی فہرستیں بھی ارسال کی گئی تھیں تاہم انھوں نے پروفیسرز کی تصدیق تک نہیں کی اور وہ گھوسٹ پروفیسرز کی تقرریوں پر خاموش رہیں.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان میں تعینات پراجیکٹ ڈائیریکٹر وسیم ہاشمی سید اس فراڈ میں یونیورسٹی کے ساتھ ملوث تھے۔

سابق چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر عطاء الرحمن غیر ملکی پروفیسرز کو دس دس لاکھ روپے سٹارٹ اپ فنڈنگ کے طور پر ادا کرتے رہے ہیں جبکہ بھرتی ہونے والے 58 میں سے 25 غیر ملکی پروفیسرز کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری تک نہیں تھی۔

456 صفحات پر مشتمل اس میگا تعلیمی سیکنڈل میں انکوائری کمیٹی نے غیر ملکی پروفیسرز کے ساتھ بذریعہ ای میل رابطے کیے اور ان میں سے متعدد پروفیسرز نے رقوم کی ادائیگی کے اعداد و شمار ہی مسترد کر دیے۔

کمیٹی نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے عبد السلام سکول کے ڈائیریکٹر جنرل ڈاکٹر اے ڈی رضا چوہدری اور ڈائیریکٹر فنانس اعجاز ملک کو مرکزی ملزم قرار دیا ہے اور 70 لاکھ ڈالرز کی رقم میں خرد برد کا کیس نیب کو بھجوانے کی سفارش کی ہے تاکہ رقم ریکور کی جاسکے۔

اس میگا تعلیمی فراڈ میں جونیئر کلرک اویس نعیم، اسسٹنٹ اکائونٹ آفیسر شیخ محمد یوسف، جونیئر کلرک شہزاد عارف، آڈٹ اینڈ اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ سے زاہد اقبال، غلام فرید، احمد فیاض، کمپیوٹر آپریٹر باقر علی شاہ، کمپیوٹر پروگرامر سید نعمان جعفری، جونیئر کلرک علی رضا اور جونیئر کلرک عبد الخالق بھی کرپشن سیکنڈل میں بہ طور سہولت کار کام کرتے رہے۔

خیال رہے کہ گھوسٹ پروفیسرز کی بھرتیوں‌ میں مبینہ طور پر ملوث سابق وائس چانسلر ڈاکٹر خالد آفتاب کو پنجاب حکومت نے وائس چانسلرز سرچ کمیٹی کا سربراہ تعینات کر رکھا ہے اور انھیں پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا ممبر بھی لگایا گیا ہے.

واضح رہے کہ ایچ ای سی نے جون 2013ء میں مذکورہ پروگرام ہی بند کر دیا تھا۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اس فراڈ کی خبر پر تین رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے اور یہ کمیٹی یونیورسٹی کا تمام ریکارڈ قبضے میں لے کر ان کی چھان بین کرے گی. کمیٹی اپنی رپورٹ ایک مہینے میں‌ چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر طارق بنوری کو جمع کرائے گی.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *