برٹش راج کیلئے ” آغا خان سوئم ” کی وفاداری

  • June 10, 2019 7:43 pm PST
taleemizavia single page

اکمل سومرو

پاکستان کے ریاستی تعلیمی ڈھانچے کے باعث نوآبادیاتی تاریخ (برٹش راج) پر گرد پڑ چکی ہے، ایسے میں تاریخ کے گمشدہ اوراق کی کھوج لگانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پاکستان کے متعدد تاریخ نگار جو تاریخ نویسی کرتے ہیں وہ بسا اوقات ریاستی خوف یا پھر ریاست کے تشکیل کردہ بیانیے کے تابع ہوتی ہیں جس کا مطالعہ کرنے کے بعد تاریخ کی اُلجھی گھتیاں سلجھانا بسا اوقات مشکل ہوجاتا ہے۔

انگریز راج کے اس دو سو سالہ تاریخ میں نوآبادیاتی عہد کے تناظر میں جو آلہ کار تیار کیے گئے اور برطانوی سرکار کو مقامی طور پر ایسے افراد میسر رہے ہیں جن کے سیاسی کردار نے انگریزوں کو طاقت بخشی یہ سیاسی کردار انگریز راج کے ساتھ وفاداری سے مشروط رہا ان سے متعلق درسی کتب خاموش ہیں۔

برطانوی عہد میں وفاداری کی علامتوں کا اظہار مختلف خطابات سے ہوا کرتا تھا۔ مثال کے طور پر ہز ہائی نس، سر، خان بہادر، کمانڈر آف انڈین ایمپائر، رائے بہادر، نائٹ ہُڈ آف انڈین ایمپائر وغیرہ کے خطابات وفاداری کے مختلف جہتوں کے باعث عطاء کیے جاتے تھے۔ ایسا ہی ایک خطاب حسن علی شاہ (آغا خان اول) کو برطانوی راج میں دیا گیا۔ ہز ہائی نس حسن علی شاہ پرشیا سے بمبئی میں انگریزوں کی پناہ میں آئے تھے۔ حسن علی شاہ یعنی آغا خان اول نے پہلی برٹش افغان جنگ میں برٹش آرمی کے لیے کام کیا جبکہ سندھ کے گورنر چارلس نیپئر کے لیے بھی جاسوسی کا کام کیا۔

آغا خان اول چونکہ خود کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسل سے منسوب کرتے تھے، انگریزوں نے اس ضمن میں ہندستان میں آغا خان کا مذہبی شناختی تصور اُبھارا اور مقامی طور پر آغا خان کو با اثر بنانے کے لیے ان کی سرپرستی کی۔ 1881ء میں آغا خان اول انتقال فرما گئے، ان کے 8 سالہ بیٹے سلطان محمد شاہ آغا خان دوئم کہلائے۔ انگریز سرکار نے مذہبی شناخت کو طاقت ور بنانے کے لیے آغا خان دوئم کو سیاسی قوت بھی مہیا کی، اس کے لیے انھیں بمبئی کی لیجیسلیٹو کونسل کا ممبر بنایا گیا اور ان کا سماجی رُتبہ بڑھانے کے لیے صرف 20 سال کی عمر میں کوئین وکٹوریا نے 1897ء میں انھیں نائٹ ہُڈ آف دی آرڈر آف انڈین ایمپائر کے خطاب سے بھی نوازا۔

صرف یہی نہیں بلکہ آغا خان کو نائٹ گرینڈ کمانڈر آف انڈین ایمپائر، کمپینئن آف انڈین ایمپائر کے خطابات سے بھی نوازا۔ گویا انگریزوں نے ہندستان میں اسماعیلی فرقہ کی ترویج کے لیے آغا خان کی سرپرستی کی اور اپنے نوآبادیاتی مقاصد کے تحت انھیں استعمال کیا گیا جس کے لیے مذہبی تشخص کا لبادہ اوڑھا گیا۔

پہلی عالمی جنگ میں برطانیہ کی حمایت میں آغا خان متحرک ہوئے۔ ہندستان میں مسلم یونیورسٹی تحریک کے لیے آغا خان نے 30 لاکھ روپے جمع کیے کیونکہ انگریز اس تحریک سے خائف تھے اس لیے آغا خان بعد ازاں اس تحریک سے دست بردار ہوگئے کیونکہ وہ انگریز دوستی کی قیمت پر اس تحریک کو اگلے مرحلے میں داخل کرنے کے خواہاں نہیں تھے۔ انگریز ہندستان کے مسلمانوں کی حمایت کے لیے فکر مند تھے چونکہ برطانیہ سلطنت عثمانیہ اور تُرکی کے خلاف یہ جنگ لڑ رہا تھا جس کے رد عمل میں ہندستان میں تحریک خلاف بھی چلائی گئی۔

سلطنت عثمانیہ کے مسلم حکمرانوں نے برطانیہ کے خلاف سخت مزاحمت اور نفرت کا اظہار کیا۔ عالمی جنگ کے اعلان کے فوری بعد آغا خان نے اپنے مذہبی تشخص کا استعمال کیا، وہ ایسٹ افریقا اور یورپین ممالک کے دورے پر روانہ ہوگئے۔ برٹش امپیریل ازم کی حمایت میں آغا خان کا یہ کردار انتہائی مخفی رہا۔ جنگ کے شروع ہوتے ہی برطانیہ روانگی سے قبل انھوں نے ہندستان کی جماعت کونسل کے ذریعے سے جنگ میں برطانیہ کی حمایت کا اعلان کیا۔

برطانوی سرکار نے آغا خان کے ذریعے سے ترکوں کو یہ پیغام بھی بھجوایا کہ اس جنگ میں وہ سنٹرل پاورز کے ساتھ شریک نہ ہوں اس کے لیے برطانیہ میں تُرک سفیر توفیق پاشا کے ساتھ آغا خان نے بات چیت بھی کی جس کے بعد تُرک سفیر نے اپنے ملک پیغام بھجوایا کہ لندن میں ایک اعلیٰ سطحی وفد بھیجا جائے جو برطانوی حکومت کے ساتھ جنگ کے معاملات طے کرے۔ برطانیہ تُرکی کو مستقبل سے متعلق یقین دہانی کرانے کے لیے تیار تھا لیکن تُرکی نے یہ تمام پیشکش مسترد کر دی تھی۔

یہ منصوبہ ناکام ہونے پر آغا خان نے اسلامی ممالک کے سربراہان سے اپیل کی کہ تُرکش سلطان کے اعلان جہاد کا انکار کریں اور برطانیہ و فرانس کے ساتھ اپنی وفاداریوں کا اعلان کریں۔ اس ضمن میں آغا خان نے خود سے ایک دستاویز جاری کی جس میں ترکوں کے خلاف مواد درج تھا جس میں کہا گیا کہ ترکوں کا جرمنی کے ساتھ جنگ میں اتحادی ہونا جرمن امپیرل ازم کو فروغ دینے کے لیے تھا اور سلطنت عثمانیہ کا سلطان جرمنوں کی ایماء پر برطانیہ و فرانس کے خلاف جنگ میں داخل ہوئے۔ آغا خان نے مسلم ممالک کو باور کرایا کہ برطانیہ کے خلاف رد عمل میں مسلم اتحاد ٹوٹ جائے گا۔

مصر اور سوڈان میں سلطنت عثمانیہ کا وائسرائے عباس حلمی پاشا کو مقرر کیا گیا تھا، پاشا 1892ء سے 1914ء تک عثمانوں کا نمائندہ حکمران تھا اور یہاں کے حکمران کو خدیو کا خطاب دیا گیا تھا۔ 1913ء میں آغا خان قاہرہ کی طرف خفیہ مشن روانہ کیا اس مشن کو معلوم ہوا کہ عباس حلمی عالمی جنگ میں برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دینے پر تیار ہے۔ اس کے بعد برطانوی حکومت نے عباس حلمی کو لندن سرکاری دورے کی دعوت دی اس دعوت کو قبول کرنے کے بعد عباس حلمی قاہرہ سے پہلے پیرس پہنچے لیکن لندن جانے کا فیصلہ اچانک ملتوی کر کے وہ واپس مصر آگئے۔

عباس حلمی کو تُرکوں کے خلاف جنگ میں برطانیہ کا ساتھ دینے کے لیے ایک نیا پلان بنایا گیا، اب برطانیہ نے آغا خان کو بذات خود قاہرہ مشن پر روانہ کیا۔ سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانیہ کا ساتھ دینے کے لیے آغا خان نے عباس حلمی کو 30 ہزار پائونڈز کی پیش کش کی اور یوں عباس حلمی جو خود سلطنت عثمانیہ کا نمائندہ تھا اس پیش کش کو قبول کر کے برطانیہ کا ساتھ دینے پر راضی ہوگیا۔ آغا خان کے اس خفیہ معائدے کے بعد عباس حلمی کو پہلی عالمی جنگ کے بعد سے لے کر دوسری عالمی جنگ تک 30 ہزار پائونڈز سالانہ ادائیگی کی جاتی رہی۔ واضح رہے کہ دونوں عالمی جنگوں میں مصر برطانیہ کی ملٹری بیس رہا اور سویز کینال پر مکمل کنٹرول برطانیہ رہا۔

اس کے بعد آغا خان 1915ء میں سوئزر لینڈ روانہ ہوئے جس کا مقصد عالمی جنگ کے دوران جرمن پلان کا تفصیلی معائنہ کرنا تھا اور آغا خان نے اپنے خاندان کے بعض افراد، خاص مریدوں کو پرشیا، میسوپوٹیمیا اور دیگر مسلم ممالک میں مش پر بھیجا تاکہ ترکوں کے پلان کا بھی جائزہ لیا جاسکے اور یہاں سے حاصل ہونے والی تمام معلومات کو آغا خان کی جانب سے جنرل ایلن بائی کے حوالے کیا گیا جو انٹیلی جنس سروس کی نگرانی کر رہے تھے۔

آغا خان کی برطانوی وفاداری کی اطلاعات جرمن تک پہنچ چکی تھیں، جرمنوں نے سوئزرلینڈ میں آغا خان کو قتل کرانے کی کوشش کی جس میں ناکامی کے بعد برطانیہ نے آغا خان کو فوری سوئزرلینڈ چھوڑ کر پیرس جانے کی ہدایات کیں یوں 1917ء میں وہ پیرس آگئے۔

آغا خان کو برطانیہ کی خدمات اور وفاداری کےعوض کنگ جارج پنجم کی جانب سے انھیں 11 توپوں کی سلامی دی گئی اور بمبئی پریذیڈنسی میں تا عمر فرسٹ کلاس چیف مجسٹریٹ کا عہدہ دیا گیا۔ یہ وہی آغا خان سوئم ( سر سلطان محمد شاہ) ہیں جنھیں آل انڈیا مسلم لیگ کا اعزازی صدر مقرر کیا گیا تھا اور مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس میں لیگ کا بنیادی مقصد انگریزوں کے لیے مسلمانوں کی وفاداری کو یقینی بنانے کا عزم کیا گیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.