مولانا ابو الکلام آزاد کا علماء دین سے متعلق اضطراب
- July 24, 2021 1:06 pm PST

ڈاکٹر رانا تنویر قاسم
جب ہمیں علماء کی شان اور مرتبت بتائی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیا گیا ہے تو پھر ایک عالم دین کی تعریف کا تعین بھی کرنا ہو گا کہ انبیا ء کے وارثوں کی نشانیا ں کیا ہیں، جس طرح سوشل میڈیا کی سکرینوں پر ہم سوسائٹی کے مختلف کرداروں کو بے نقاب ہوتا دیکھتے ہیں کہ ان کی اصلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
کسی بھی طبقے کی بے نقابی اس قدر تکلیف دہ محسوس نہیں ہوتی جس قدر علماء کی ہوتی ہے ۔یہ بڑا دکھ دہ مرحلہ ہوتا ہے جب بعض ناہنجار اور گمراہ علماء کی بے لگام اور بے معنی گفتگو سننے کو ملتی ہے۔ جس کو سن کر دین اور دین داروں سے محبت رکھنے والے طبقے بھی مضطرب نظر آتے ہیں۔
منبر ومحراب کی عزت اور وقار کو مجروح کرنے والے علماء سو ہیں۔وہ ایسے ایسے شگوفے چھوڑتے ہیں کہ خدا کی پناہ. کرونا کے ایس او پیز سے لیکر۔ قربانی کے مسائل تک۔لطائف کی بھر مار ہے۔پھر اس منبر پر بیٹھ کر جو علم وحکمت کی باتوں اور معاشرے کی تربیت کے لیے بنایا گیا ہےاور اس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت جو انسانیت کی رشد وہدایت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ آج ایسے علماء کی تربیت کی باتیں ہورہی ہیں۔
تربیت کی مختلف جہتیں اور پہلو ہیں، میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ تطبیق کا ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں مسئلہ بیا ن کرتے وقت یہ یاد ہی نہیں رکھا جاتا کہ عمومی حالات میں بیان کردہ آیت اور حدیث کی ضرورت کہا ں ہے اور اس کی تطبیق کی موجود صورت کیا ہے؟ تناظر کیا ہے؟ ہم بالکل بھی نہیں سوچتے کہ عرف وتعامل کی تبدیلی سے تطبیق کی صورتیں بدل جاتی ہیں۔
ایک مبلغ کے لیے معاشرے کے رحجانات، عمومی ماحول سے واقفیت نفسیات وروایات کا ادارک بہت ضروری ہے۔ المیہ کی بات یہ ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی بعض علماء اخبارات، معلومات کے جدید ذرائع سے بے خبر رہنے کو کمال کی بات سمجھتے ہیں اور اسے تقوی کی شکل بھی قرار دیتے ہیں۔ علم اور بزرگی کا بڑا معیار یہ بن گیا ہے کہ اردگرد کے حالات کی کچھ خبر نہ ہو کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب تذکرہ ایک عرصہ کے بعد پکڑی تو اس کے ابتدائی صفحہ پر مجھے یہی اضطراب نظر آیا، فرماتے ہیں:
”قوم کا سب سے محترم طبقہ علماء ومشائخ کا ہوتا ہے، اس جماعت کا یہ حال ہے کہ گویا اس کو مسلمانوں کی موت وحیات سے کوئی واسطہ ہی نہیں ۔قوم کا جاہل سے جاہل اور ادنیٰ سے ادنیٰ طبقہ بھی دنیا کے حالات، مسلمانوں کی پسماندگی کی جتنی خبر رکھتا ہے اتنی بھی ہمارے پیشواؤں کو نہیں، دنیا میں کیا انقلابات ہورہے ہیں، مسلمانا ن عالم پر کیا گزررہی ہے، ان کی قومی زندگی کو مٹانے کی کیا کیا تدبریں ہورہی ہیں،اس گروہ کے نزدیک یہ سب کچھ دنیا داری کی باتیں ہیں۔اس گروہ کا اعتقاد یہ ہے کہ ہمارا کام صرف دین ہے اور دین کا مطلب ہے نماز روزے کے مسائل بتلا دینا ، دین کو جیسی شکل میں خود دیکھتے ہیں ویسی ہی شکل دوسرو ں کو بھی دکھلاتے ہیں، وہ شکل اس قابل تو ضرور ہے کہ قیمتی جزدانوں میں لپیٹ کر طاقو ں میں رکھ دی جائے مگر ایسی نہیں کہ ہمارے دلوں کو گھر کرے اور خدا سے پھرے ہوئے سروں کو پھر خدا کے سامنے جھکا دے“
یوں لگتا ہے کہ یہ باتیں مولانا آج کررہے ہیں۔ حالانکہ یہ1912 کا درد ہے۔ علماء کی جہاں فضیلت بیان ہوئی ہے وہاں “مضر صحت وخیال” علماء کی خطرناکیاں بھی بیان ہوئی ہیں۔ ایک جگہ فرمایا کہ
”گمراہ علماء دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہیں“
”ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
میں ایک دن اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ تھا اور میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”مجھے میری امت کے لئے دجال سے بھی زیادہ خدشہ (ایک اور چیز کا) ہے”
آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا۔ میں نے کہا! اے اللہ کے رسول ﷺ، وہ کیا چیز ہے جس کا آپ دجال کے علاوہ اپنی امت پر خوف کر تے ہیں؟ تو فرمایا ”گمراہ ائمہ”
(مسند امام احمد 20335، 21334 اور 21335]۔
ایک اور حدیث ہے؛ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
” کیا حال ہوگا تمہارا جب تم کو فتنہ (آفت یعنی بدعت) اسطرح گھیر لے گی کہ ایک جوان اس کے ساتھ (یعنی اس کو کرتے کرتے) بوڑھا ہوجائے گا، اور بچوں کی تربیت اسی پر ہوگی، اور لوگ اس بطور سنّت لیں گے- توجب کبھی بھی اس (بدعت) کا کچھ حصہ لوگ چھوڑ دیں گے، تو کہا جائے گا: ” کیا تم نے سنّت کو چھوڑ دیا؟
انہوں (صحابہ) نے پوچھا: ” ایسا کب ہوگا؟” آپﷺ نے فرمایا: جب تمہارے علماء فوت ہو گئے ہوں گے، قرآت کرنے والے کثرت میں ہونگے، تمہارے فقہاء چند ایک ہوں گے، تمہارے سردار کثرت میں ہوں گے، ایسے لوگ کم ہوں گے جن پر اعتبار کیا جا سکے، آخرت کے کام صرف لوگ دنیوی زندگی کے حصول کے لئے کریں گے، اور حصول علم کی وجہ دین کی بجا ئے کچھ اور ہوگا-”
دارمی 64/1
ریاست پاکستان کو چاہیے کہ وہ وزارت مذہبی امور کو ٹاسک دے کہ معاشرے کے موثر ترین اس طبقے کی سمت کا درست تعین کرے۔ علماء کی تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کرے۔انہیں ریفریشر کورس کرائے جائیں۔وفاق المدارس کے تمام گروپس کو آن بورڈ کیا جائے۔بین المسالک ہم آہنگی پیدا کی جائے۔رواداری اور برداشت کے سلیقوں اور کرینوں سے آگاہ کیا جائے تاکہ معاشرے میں ان کا علمی وقار برقرار رکھا جاسکے۔