یونیورسٹیز رینکنگ کے باوجود تدریسی معیار کیوں گرنے لگا؟

  • April 20, 2017 12:20 pm PST
taleemizavia single page

رملہ ثاقب
شعبہ انگریزی، پنجاب یونیورسٹی لاہور

اعلیٰ تعلیم کی قومی و بین الاقوامی سطح پر درجہ بندی کے رواج نے معیار تعلیم کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

اس کے باوجود حیرت ہے کہ بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے دُنیا بھر کی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی جارہی ہے۔

حتیٰ کہ ان تنظیموں کے پاس کوئی واضع ثبوت نہیں کہ کن تعلیمی پیمائش کے معیار اور فلسفیانہ تجزیوں کی بنیاد پر یہ درجہ بندی کی جاتی ہے۔

یونیورسٹیوں کی یہ درجہ بندی تعلیم سے متعلق کچھ بھی نہیں بتاتیں۔

یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کرنے والی تنظیمیں یہ دلیل دیں گی کہ اعلیٰ تعلیم کی بڑھتی ہوئی طلب کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیاں طلباء اور اُن کے والدین کو بہترین سہولیات فراہم کر رہی ہیں جس کے پاس طلباء اپنی پسند کی یونیورسٹی کا انتخاب کرتے ہیں۔

اور یہ تنظیمیں عالمی سطح پر یونیورسٹیوں کو موقع فراہم کرتی ہیں کہ کس طرح نامور اساتذہ کو اپنی یونیورسٹی میں لا کر وہ درجہ بندی بہتر بنا سکتی ہیں۔ اور عالمی یونیورسٹیوں کے ساتھ درجہ بندی کا مقابلہ جیت سکتی ہیں۔

درجہ بندی کرنے والی تنظیموں کے اس کھیل کے باعث دُنیا بھر کی یونیورسٹیوں کو مقابلہ کرنے کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے، اس کھیل میں شرکت کیے بغیر جامعات کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔

یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کے مختلف نظریوں پر بحث و تنقید کی جارہی ہے کہ کس طرح درجہ بندی کا اثردُنیا بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں پر ہورہا ہے۔ درجہ بندی کا مروجہ طریقہ کار اداروں اور ملکوں کے درمیان مالی تفاوت کی رپورٹ کارڈز کا کام کر رہی ہیں۔

مباحثوں سے جنم لینے والے تنازعات میں دونوں اطراف سے شرکاء اپنے اپنے دلائل پیش کر رہے ہیں۔

یہ مباحثے اپنی جگہ لیکن میرے خیال میں درجہ بندی کے مروجہ طریقہ کار سے یونیورسٹیوں کو بہت نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ کیونکہ ان کا زور تحقیق پر ہے، تدریس کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

تاہم درجہ بندی کے حمایتی اس کا انکار کریں گے۔ ان کے نزدیک عالمی ریسرچ جرنلز میں شائع ہونے والے مقالے ہی دراصل درجہ بندی کو جانچنے کا پیمانہ ہے اور یہی معیار تعلیم کی کسوٹی ہے۔

حال ہی میں یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کرنے والی تنظیموں میں ایک اور تنظیم کا اضافہ ہوا ہے۔ یو ملٹی رینک نے درجہ بندی کے طریقہ کار میں تعلیم اور سیکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر اہم ترین پہلوؤں کو بھی شامل کیا ہے۔

لیکن اس طریقہ کار کا موازنہ تحقیق کے ساتھ کیا جائے تو اس کے انڈیکٹرز بنانے میں مشکلات پیدا ہوں گی اور زیادہ تر ماہرین اس پر اکتفا کر لیں گے کہ عالمی سطح پر درجہ بندی کے اس نئے طریقہ کار کی قبولیت نہیں ہورہی۔

کیونکہ برطانیہ کی ٹائمز ہائر ایجوکیشن، ورلڈ یونیورسٹی رینکنگز، کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ، شنگھائی کی اکیڈمک رینکنگ آف ورلڈ یونیورسٹیز بہت پرانی تنظیمیں ہیں اور عالمی سطح پر ان کی جانب سےجاری کردہ درجہ بندی پر زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے۔

درجہ بندی کے اس مروجہ اُصول کے باعث ریسرچ ایک اہم مشن بن گیا ہے اس کا براہ راست اثر ہمایری یونیورسٹیوں پر ہورہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک جونیئر لیکچرر کو پروفیسر کی سیڑھی پار کرنے کے لیے ریسرچ کی کسوٹی پر پورا اُترنا ہوتا ہے۔

ترقی کے اس اُصول میں کسی بھی پروفیسر کے درجے میں اضافہ اس کی تدریسی مہارتوں کی بنیاد پر نہیں ہوتا، نہ ہی اس بات کو ضروری سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے اہمیت تک نہیں دی جاتی۔

میرے نزدیک کسی بھی یونیورسٹی کا اولین فریضہ اپنے طلباء کو تعلیم دینا ہے تاکہ اُن کے شعور میں اضافہ ہوا اور اُن کے مضامین کے فلسفیوں کے نظریات کو سمجھ سکیں، ان پر تنقید کر سکیں جو ان طلباء کا ذہن روشن کرنے میں معاون ثابت ہوں۔

اور ان طلباء کو تعلیم کے ذریعے یہ احساس بھی دلایا جاسکے کہ وہ خود انفرادی سطح پر اس دُنیا، اپنے ملک اور اپنے گھر کے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔

یونیورسٹی کا بنیادی مشن ہی دماغ کی عمومی طاقتوں کو یکجا کرنا اور انہیں فروغ دینا ہے تاکہ ہم نہ صرف عام ماہرین پیدا کریں بلکہ پڑھے لکھے افراد بھی سماج کو فراہم ہو سکیں اور پڑھائی کی اہمیت کو تحقیق کے ساتھ توازن میں رکھیں۔

گزشتہ چار دہائیوں میں اعلیٰ تعلیم کی اہمیت میں واضع تبدیلی آئی ہے۔ اب والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں اور بچوں میں بھی یہ جذبہ بڑھ گیا ہے۔ جس کا براہ راست بوجھ یونیورسٹیوں پر آن پڑا ہے۔

یونیورسٹیوں کی مروجہ درجہ بندی کے باعث اعلیٰ تعلیم مہنگی ہوگئی ہے، امیر خاندانوں کے بچوں کے لیے پچاس ہزار ڈالرز فیس دینا بھی معمولی بات ہے لیکن غریب بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کیے جارہے ہیں۔

دُنیا کی بڑی بڑی جامعات میں گریجویشن، پوسٹ گریجویشن کی سطح پر داخلوں کےلیے اتنی بھاری فیسیں مقرر کر دی گئی ہیں کہ اب اعلیٰ تعلیم کے حصول میں دشواری کے باعث غریب خاندان مزید غریب ہوتے چلے جارہے ہیں۔

سکالر شپ محدود ہونے کے باعث طلباء کو قرضے لے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے۔

چند دہائیوں سے دُنیا کی نامور جامعات نے بین الاقوامی طلباء کی اپنی طرف کشش پیدا کرنے کی کوشش رہی ہے کیونکہ بین الاقوامی طلباء ان جامعات کے لیے مالی انتظام کا بہترین ذریعہ بن چکے ہیں۔

محض ریسرچ پر توجہ مرکوز رکھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ یونیورسٹی میں اساتذہ کو اب یقین ہوگیا ہے کہ ترقی کی سیڑھی پار کرنے کے لیے انہیں ریسرچ کا سہارا لینا ہے۔

مطلب یہ کہ کلاس روم میں لیکچر دینے کے بعد یہ اساتذہ اپنے دروازے بچوں پر بند کر دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی ترقی کے لیے ریسرچ پر دھیان دے سکیں۔

دراصل اساتذہ کے طلباء کے ساتھ تعلیمی تعلقات ان کے لیکچر میں حاضری سے زیادہ اہم ہیں۔

لیکن افسوس کہ ماضی کی اوپن ڈور فلاسفی اب زوال کی طرف جارہی ہے۔ اساتذہ کو معلوم ہوگیا ہے کہ وہ ریسرچ کے ذریعے اپنا عہدہ بڑھا سکتے ہیں، بین الاقوامی سطح پر اپنا اور یونیورسٹی کا نام روشن کرسکتے ہیں۔

یہی عمل ہی یونیورسٹی میں ان کا عہدہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

اس کے ساتھ نہ صرف یونیورسٹی میں بلکہ ان کے شعبے سے متعلق دنیا بھر کی ہر کیمونٹی میں ان کا نام ہوگا۔

تو اس لحاظ سے طلباء کے ساتھ تعلقات ان کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ کچھ بڑی ریسرچ یونیورسٹیز اس حد تک چلی گئی ہیں کہ ان کے عمدہ ریسرچ سٹاف کو ٹیچنگ سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ وہ صرف ریسرچ پر دھیان دے سکیں۔

اس صورتحال میں طلباء مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکچر میں ملاقات کے علاوہ طلباء کو شازو نادر ہی ریسرچ پر توجہ مرکوز رکھے اساتذہ کے ساتھ تعلقات بنانے کا موقع ملتا ہے۔

ایسے تمام اساتذہ جنہیں اس بات کی خوشی ملتی ہے کہ اُن کے طلباء اُن کے ساتھ شعبے میں ترقی کریں آکر میں مایوس رہ جاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے لیے وقت نہیں نکالا۔

یونیورسٹیوں میں پڑھانے جانے والے تمام مضامین چاہے پیشہ ور، سائنسی یا ہیومینٹیز کے مضامین ہوں ان میں اعلیٰ تعلیم دینے کا اُصول نہیں بدلا، طلباء یہ اُصول اپنے پُرجوش اساتذہ اور کلاس لیکچرز میں ہی سیکھتے ہیں۔

مختلف ممالک میں یونیورسٹیوں کے مشن بھی مختلف ہیں۔ اس عالمی کھیل میں انہیں اکٹھا کرنا صرف اُنہیں انفرادی طور پر فائدہ پہنچاتا ہے۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اعلیٰ تعلیم متاثر ہوکر شکست سے دوچار ہے بلکہ یہ ان کے لیے مضحکہ خیر ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *