راجہ گدھ : منطق پر بانو قدسیہ کا ادبی حملہ

  • February 7, 2017 2:43 am PST
taleemizavia single page

فاروق سلہریا

نوے کی دہائی میں بطور طالب علم جب میں پنجاب یونیورسٹی لاہور پہنچا تو دو کتابوں کا چرچا تھا۔ ہم جیسے بگڑے تگڑے راجہ انور کی ‘جھوٹے روپ کے درشن’ کا پرچار کرتے۔ یہ خوبصورت کتاب راجہ انور کے ان محبت ناموں پر مبنی ہے جو انہوں نے اپنے ایامِ طالب علمی میں اپنی محبوبہ کو لکھے تھے۔

لیکن ان خطوط نے پنجاب یونیورسٹی ہی نہیں انیس سو ستر کی دہائی میں طلبا کی سوچ اور سماجی رویوں کی بھی تجسیم کر دیا ہے۔ ستر کی دہائی والی پنجاب یونیورسٹی کا رومانوی نیو کیمپس، جس کا نقشہ راجہ انور نے کھینجا تھا، اْس گھٹن زدہ جامعہ پنجاب سے بہت مختلف تھا جس میں ہم جی رہے تھے۔ ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پڑھتے تو احمد فراز کی نظم ‘ہم اپنے خواب کیوں بیچیں’ اور بھی اچھی لگتی۔

ستم ظریفی دیکھیئے کہ جھوٹے رُوپ کے درشن کے مصنف راجہ انور اپنے ہی خوبصورت ناموں سے منکر ہوچکے ہیں۔

خیر اس مضمون کا موضوع البتہٰ بانو قدسیہ کا ناول ‘راجہ گدھ’ ہے جو ان دنوں نصابی کتابوں سے زیادہ سراہا اور پڑھا جاتا تھا۔ دو سال قبل کراچی جانے والی ریل گاڑی کے انتظار میں لاہور ریلوے اسٹیشن کے ایک بک اسٹال پر کتابوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ ‘راجہ گدھ’ پر نظر پڑی۔ تجسس کے مارے میں نے کتاب اٹھا کر اس کی ورق گردانی شروع کر دی ۔ فوجی آمریتوں کی خدمت میں پیش پیش معروف صوفی بیوروکریٹ قْدرت اللہ شہاب کے نام منسوب اس کتاب کا یہ تیسواں ایڈیشن تھا جو 2012 میں شائع ہوا تھا۔

پہلا ایڈیشن انیس سو اکیاسی میں شائع ہوا تھا۔ گویا، اوسطا ہر سال ایک تازہ ایڈیشن مارکیٹ میں آ رہا ہے جو اس کتاب کی مستقل مقبولیت کا ایک ثبوت ہے۔ میں نے لاہور ریلوے اسٹیشن سے اس ناول کی ایک کاپی خریدی اور سارا راستہ اسے پڑھتا رہا۔

اگر سچ کہوں تو یونیورسٹی کے دنوں میں جب پہلی بار یہ ناول پڑھا تھا تو میں دم بخود رہ گیا تھا۔ اصل کوفت اس بات پر محسوس ہو رہی تھی کہ مذہب کے لبادے میں ملبوس عوام مخالف اور عورت دشمن ایک بیانیہ اردو کلاسیک کا درجہ حاصل کرتا جا رہا ہے۔ یہ لیکن کوئی ایسی حیران کن بات بھی نہیں۔

‘راجہ گدھ’ کے چار مرکزی کردار ہیں: پروفیسر سہیل جو گورنمنٹ کالج لاہور میں عمرانیات کے پروفیسر ہیں اور ان کے تین طالب علم، سیمی شاہ، آفتاب بٹ، اور قیوم۔ پروفیسر سہیل اپنے طلباء سے عمر میں چھ سال ہی بڑے ہیں، لیکن کہیں اس کے پاس ایک ایسا ہنٹر موجود تھا جو شیروں کو سدھا رنے والے استعمال کرتے ہیں۔

اسے کبھی کوئی کورس پڑھانا نہ آیا۔ لیکن وہ ذہنوں کا جوڈو کھیلنا جانتا تھا۔ نظریات کی کشتی کرانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اپنے شاگردوں کی کھوپڑیاں کھولنا اور خامی پا کر انہیں جوں کا توں بند کر دینا اسے جی سے پسند تھا۔

سیمی شاہ ‘گلبرگی معاشرے کی پیداوار تھی’ ۔ لباس اور تراش خراش میں مغرب زدہ! قیوم شیخوپورہ کے ایک گائوں سے لاہور آیا ہے۔ واجبی سی شکل ہے اور ایک کتابی کیڑا ہے۔ اس کے بر عکس آفتاب کشمیری النسل لاہوری ہے۔ اندرون شہر کے ایک متمول خاندان کا یہ چشم و چراغ چندے آفتاب چندے ماہتاب کی مجسم شکل ہے۔

تینوں طالب علم محبت کی ایک مثلث میں بندھے ہوئے ہیں جبکہ پروفیسر سہیل اس مثلث کے پیچھے موجود ماہرِ اقلیدس ہیں۔ جیسے بھارتی فلموں میں ہوتا ہے ‘بیک برش اور شاور سے نہانے والی اس دُخترِ گلبرگ کو نہ جانے کیا ہوا کہ ایک کشمیری بچے سے اور وہ بھی اندرونِ شہر کے رہنے والے سے مات کھا گئی۔

اس منظر کو پڑھتے ہوئے مجھے محسن حامد کا ناول دی ریلکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ یاد آیا۔ یقین کریں اگر بانو قدسیہ محسن حامد پر چربہ سازی کا مقدمہ دائر کر دیتیں تو اخبارات میں کچھ دن خوب مزے کی سرخیاں اور متن شائع ہوتے۔

ممکن ہے بانو آپا یہ مقدمہ جیت بھی جاتیں۔ ممکن ہے مجھے ہی ایسا لگا ہو کہ محسن حامد کے ناول میں چنگیز اور ایریکا کا تعلق ہوبہو ایسا ہے جیسا کہ ‘راجہ گدھ’ میں قیوم اور سیمی شاہ کا۔ خیر۔

پے در پے حادثوں سے پریشان ہو کر تنہائی کا شکار قیوم باقاعدہ شادی کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ اس کی البتہ ایک ہی شرط ہے کہ اس کی ہونے والی بیوی باکرہ ہونی چاہئے۔ اس کی بھابی اس کے لئے اندرون شہر سے روشن کا انتخاب کرتی ہے۔ سہاگ رات والے دن یہ عقدہ کھلتا ہے کہ روشن تو حاملہ ہے اور شادی سے قبل اس کے اپنے محلے دار افتخار سے تعلقات تھے جو اب سعودی عرب جا چکا تھا۔

ان سب اتفاقات کے پیچھے البتہ ایک گرینڈ اسکیم ہے۔ گرینڈ اسکیم بھی خوامخواہ نہیں، اس کے پیچھے ایک گرینڈ تھیوری ہے۔ جی ہاں! اور وہ تھیوری ہے بانو آپا کا نظریہ حلال و حرام۔

اس نظریہ حلال و حرام پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ہمارے حلال اعمال اور حرام کاریاں ہماری جینز کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پاگل پن کی وجہ حرام جینز ہیں۔ جس انسان کی جینز میں حرام داخل ہو جاتا ہے اس کی قسمت میں پھر گدھ کی طرح مردار کھانا ہی رہ جاتا ہے۔ اس نظرئے کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے ‘سائنس’ کا سہارا بھی لیا گیا ہے۔

لیکن کونسی سائنس؟ یوجینکس کے نسل پرستانہ نظریات۔

ہاں البتہ انہوں نے یوجین کے نسل پرستانہ نظریات کو پیر و مرشد ضیا الحق کی طرح اسلامائز ضرور کیا ہے۔ اب اگر اسلامی یوجینکس کی روشنی میں قیوم کے کردار کو دیکھیں تو سمجھ آئے گی کہ وہ سیمی شاہ اور عابدہ سے کیوں تعلقات قائم کر پاتا ہے مگر امتل اور روشن سے نہیں۔

دراصل قیوم کی ماں کو اس کا باپ بلھے شاہ کے مزار سے بھگا کر لایا تھا (مزار کا انتخاب کم معنی خیز نہیں)۔ نہ صرف دونوں کے نکاح کا ہمیں ناول میں کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ ایک ہلکا سا اشارہ یہ بھی موجود ہے کہ قیوم کی ماں اس کے باپ مقصود سے ہی نہیں بلکہ باپ کے ایک رشتہ دار (جو ان کے گھر میں ہی رہتا ہے) سے بھی جسمانی تعلقات رکھتی تھی۔ بلھے شاہ کے مزار سے جس گناہ کا آغاز ہوا وہ زنا کی ایک مثلث میں بدل گیا: مقصود، قیوم کی ماں اور قیوم کا چچا۔ قیوم زنا کی پیداوار ہی نہیں بلکہ صدیوں سے قتل و غارت کرنے والے راجپوت قبیلے کا رکن ہے۔ گویا اس کی نس نس میں حرام کے جینز ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس کے حصے میں یا تو مغرب زدہ سیمی شاہ آتی ہے یا عابدہ جو اپنے شوہر سے بے وفائی کر رہی ہے۔ اس کی قسمت میں باکرہ عورت نہیں ہے۔ با پردہ روشن سے اگر کوئی بھول چوک ہو بھی گئی ہے تو اسے سعودی عرب کی مقدس سرزمین روانہ کر دیا جاتا ہے۔ البتہ سیمی شاہ کو موت بھی ، اسلامی نقطہ نگاہ سے، حرام والی (خود کشی) نصیب ہوتی ہے۔ رہی امتل تو وہ خود گدھ ہے۔

گدھ ایک دوسرے کو نہیں کھاتے۔ البتہ امتل کے گناہوں (زنا کی زندگی) کی سزا ‘پاگل پن’ کی شکل میں اس کی اولاد بھگت رہی ہے۔ ہمیں مزید بتایا جاتا ہے کہ ‘پاگل پن’ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک گناہوں کی سزا، دوسرا ایک نعمت۔ ثانی الذکر کی مثال آفتاب کا لندن میں پیدا ہونے والا بیٹا ابراہیم ہے جو بظاہر مخبوط الحواس ہے مگر اصل میں اس کی دیوانگی ایک پردہ ہے۔ یہ معصوم سا بچہ مافوق الفطرت قوتوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔ وہ خوبصورت لحن میں اذان دیتا ہے اور انتہائی مذہبی ہے ۔

حلال حرام کی یہ تھیوری ایک ایسے وقت پیش کی گئی جب ملک پر استخارہ کرکے منتخب وزیر اعظم کی زندگی موت کا فیصلہ کرنےوالے ایک ایسے آمر کی آمریت قائم تھی جو بھٹو دور کی مزدور دوست اصلاحات کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق پر شب خون مار رہا تھا۔

وہ جدیدیت کی ہر علامت پر حملہ آور تھا۔ اس لئے راجہ گدھ کی اشاعت محض ایک ادبی معمول نہ تھا۔ یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ بانو قدسیہ، ان کے شریک حیات اور فرقہ شہابیہ کے دیگر ارکان ضیائی آمریت کی نظر التفات کا مرکز سمجھے جاتے تھے۔ یہ وہی آمریت تھی جس نے چار بہادر صحافیوں (ناصر زیدی، خاور نعیم ہاشمی، اقبال جعفری، مسعود اللہ حان) کو کوڑے مارے، جالب کو جیل میں ڈالا اور فیض کو جلا وطنی پر مجبور کیا۔ دلچسپ اتفاق ہے کہ صوفی منش لکھاریوں کو ایک بے رحم دھرم وادی آمریت نے دن بھر کے لئے پی ٹی وی پر بھی پابند نہیں کیا۔

ضیائی آمریت نے جن رائٹ ونگ اور رجعتی معاشی، معاشرتی اور سیاسی رجحانات کو ریاستی اداروں اور سماج شعبوں میں پروان چڑھایا، بالکل انہی سوچوں اور اسی بیانئے کا پرچار‘ راجہ گدھ’ بھی کرتا ہے۔ یوں ضیائی آمریت اور ‘راجہ گدھ’ کی سیاست میں ایک اتحاد قائم ہو جاتا ہے۔

راجہ گدھ’ کی کیمونسٹ دشمنی ؛ کیمونسٹ دشمن نظریات کا پرچار ناول کے اٹھارویں صفحے سے ہی شروع ہو جاتا ہے البتہ کیمونزم کے نظریات پر بحث کی بجائے جماعت اسلامی کی طرح بانو قدسیہ بھی چند سرخوں کو نشانہ بناتی ہیں (ویسے قراۃ العین کا طریقہ واردات بھی یہی ہے)۔ ایک طرف تو وہ سرخوں کے دوہرے معیار (یا منافقت کہہ لیجئے) کو اجاگر کرتی ہیں۔ اس کی مجسم مثال پروفیسر تنویر ہیں جو بی اے میں قیوم کے استاد تھے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں

کیمونسٹ حضرات کی نمائندگی راجہ گدھ میں کس طرح کی گئی ہے؛

قیوم کے بقول ‘‘پروفیسر تنویر ہمیشہ فارن سگریٹ پیتے۔ ان کے تھری پیس سوٹ بے داغ ہوتے۔ چہرے پر موٹے شیشوں کی عینک ہوتی۔ کلاس کے علاوہ وہ ہمارا ٹٹوریل بھی لیتے تھے۔ انہوں نے بھی ان گنت کتابیں پڑھی تھیں۔ ان کا مطالعہ مجھے مرعوب کرتا تھا۔ کیونکہ میری اولین تعلیم دیہاتی تھی۔ اس لئے میں فیوڈل نظام پسند کرتا تھا۔ وہ پکے سوشلسٹ تھے ۔ تھیوری کی حد تک وہ معاشرے کی ہر مصیبت کو دولت کی غلط بانٹ سے منسوب کرتے تھے۔

بی اے فائنل کے امتحانوں سے کچھ دن پہلے کی بات ہے وہ کلاس میں سگریٹ پینے کی اجازت دے کر اپنے روشن خیال ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔

میں کھڑا ہو کر بولا ـ سر ایک بات ہے
‘‘سگریٹ مت بجھاؤ ہم دوست ہیں پوچھو۔ اور بیٹھے رہو’’
سر آپ ہر روز ہمیں بتاتے ہیں کہ روپیہ تھرڈ ورلڈ ذلت کی جڑ ہے پھر آپ اپنی کا ر بیچ کر معمولی موٹر سائیکل کیوں نہیں خرید لیتے؟’’۔۔۔ پروفیسر تنویر کا چہرہ لال ہو گیا۔ انہوں نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا ‘‘یہ بالکل پرسنل سوال ہے بیٹھ جاؤ ۔۔۔ بے وقوف گدھے اگر میں کار بیچ دوں تو کالج کیسے آؤں گا؟

جب قیوم نے دوغلے کیمونسٹ پروفیسر کو سائیکل پر آنے کا مشورہ دیا تو پروفیسر کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی اور وہ دونوں بازو لہرا لہرا کر بولے مینڈک کی کھوپڑی ڈھائی انچ کی ہوتی ہے اور اس میں مارکس کے نظریات بٹھانا چاہتے ہیں۔ بیٹھ جاؤ

کیا یہ محض مابعد الطبیعاتی یا ‘صوفیانہ’ اتفاق ہے کہ ‘راجہ گدھ’ میں نظر آنے والا ہر سوشلسٹ ایک پیٹی بورژوا منافق ہے؟ اتفاق سے ‘راجہ گدھ ’ کی اشاعت کے وقت مارکس وادی نظریات سے متاثر ہزاروں سیاسی کارکن اور طلبا ضیا آمریت کی مزاحمت کر رہے تھے۔

ان کی بڑی اکثریت محنت کش یا سفید پوش طبقے سے تھی۔ بہت سے تو جان سے بھی گئے۔ رزاق جھرنا سوشلزم زندہ باد کہتا ہوا پھانسی گھاٹ تک گیا۔ نذیر عباسی ایک فوجی عقوبت خانے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ممکن ہے ‘پروفیسر تنویر’ جیسا کوئی کردار سچ میں موجود ہو (مارکسی تحریک سے اپنی پچیس سالہ وابستگی کے دوران راقم کو تو البتہ ایسا کوئی کردار کبھی دیکھنے سننے کو نہ ملا) لیکن قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر جمیل عمر بھی تو تھے جنہیں جمہوریت کے حق میں پمفلٹ بانٹنے پر ضیا کے اسلامی عقوبت خانے میں ہر طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

بے دین اشتراکیت ہی ایک مسئلہ نہیں ’راجہ گدھ’ میں مغرب بھی اخلاقی زوال کا نمونہ اور بے روح سماج ہے۔ ‘راجہ گدھ’ کی اصل ولن البتہ ‘مغرب زدہ’ عورت ہے ۔ سیمی شاہ اس اخلاق باختہ عورت کی نمائندہ ہے : اس کا جسم ایک جنس ہے۔ وہ جنسی طور پر فرسٹریشن کا شکار ہے۔ مغربی تعلیم نے اس کے اندر ایک خاص قسم کی منفرد وفا پیدا کر دی تھی جس کا تعلق صرف روح سے تھا۔ اسے جسمانی تعلقات کی رتی برابر پروا نہ وہ خود سر، ضدی، خوب پڑھی لکھی اور فیشن ایبل تھی۔ کیا نجات کی کوئی امید ہے؟ جی ہاں

پیری فقیری اختیار کیجئے۔ روحانیت کے سفر پر نکل کھڑے ہوں۔ کسی قدرت اللہ شہاب یا واصف علی واصف کے ہاتھ پر بیعت کیجئے۔ روحانیت کا رنگ بھرنے کے لئے ‘راجہ گدھ’ میں جنوں، چڑیلوں اور کشف و کرامات کے ڈرامائی مناظر بھی جا بجا شامل ہیں۔ روحانیت پر سائنس کی ملمع کاری بھی کی گئی ہے لیکن بے دھرم سرخوں اور مغرب زدہ لبرل فاشسٹوں کی تنقید سے بچنے کے لئے سائنس کو جزوی استعال کے بعد ترک کر دیا جاتا ہے اور حلال و حرام کی تھیوری میں ایک استثننا متعارف کرائی جاتی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ شہید اور پیغمبر اس تھیوری سے مبرا ہیں۔ دو سو پچانوے اے، بی اور سی کے خوف سے میں اس نکتے پر بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن از راہ تفنن ایک بات ضرور کہوں گا: بانو قدسیہ نے ہم جنس پرستی کا احاطہ نہیں کیا۔ حلال حرام کی تھیوری کے مطابق تو ہم جنس پرستی سیف سیکس ہے کہ حرام جینز ٹرانسفر ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں رہتا۔

تو راجہ گدھ سے کیا اسباق اخذ کئے جائیں؟

تہلکہ مچانے والے صرف اپنا نقصان ہی نہیں کرتے سب کو برباد کرتے ہیں۔ اس کی مثال سیمی شاہ ہے۔
دوم؛ ہر انسان کے اندر ایک خمیر ہوتا ہے۔ سرسوں کے بیج میں یہ فیصلہ ہوتا ہے اس کا زرد رنگ ہو گا۔ تربوز کاٹو تو اس کے ہر بیج میں یہ فیصلہ ہوتا ہے کی اس سے جنم لینے والا تربوز سرخ ہو گا ’’ بالکل اسی طرح ‘‘جو آدمی چور بنتا ہے اس کے وجود کو غارت گری کا خمیر لگا ہوتا ہے۔ کہیں۔۔۔ جس کے اندر غارت گری کا خمیر نہیں ہو گا۔۔۔

کبھی چور نہیں بن سکے گا۔ ہمارے اندر کونسا خمیر بھرا جائے گا اس کا فیصلہ ہمارے حلال اور حرام جینز کی بنیاد پر ہو گا ۔ گویا ہمارے آباؤ اجداد جو کرگئے ہیں، وہ ہمیں بھگتنا ہو گا۔ منافق مارکس وادی حضرات زیادہ شور مت مچائیں۔ ویسے بھی جو اچھے مارکس وادی ہیں وہ پروفیسر سہیل کی طرح آخر میں کسی سائیں جی کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں۔

سوم: مغرب زدہ اخلاق باختہ عورتیں معاشرے کا ہی ناسور نہیں، وہ اپنا برا بھلا بھی نہیں سمجھتیں۔ ‘اتفاق’ سے ضیا آمریت کو اول اول للکارنے والی چند عورتیں ہی تھیں۔

چہارم: برائی کو گناہ تک محدود کر دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ گناہ (زیادہ زور زنا اور مالی بد عنوانی پر ہے) ایک انفرادی فعل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بانو قدسیہ کی حلال حرام والی تھیوری کو اگر ضیا الحق کے نافذ کردہ حدود آرڈیننس (جو انہی دنوں نافذ ہوا جب یہ ناول شائع ہوا) کا جواز بھی بنیا جا سکتا ہے جبکہ بدعنوانی کے بارے میں پیش کیا گیا بیانیہ تحریک انصاف کے نقطہ نظر سے میل کھاتا ہے۔

سامراج، آمریت، طبقاتی جبر، فوجی آمریت، استحصال، قومی جبر وغیرہ ‘راجہ گدھ’ میں پیش کی گئی تھیوری میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ وہ اپنی تھیوری کے دفاع میں شہیدوں اور پیغمبروں کو تو استثنا فراہم کرتی ہیں مگر زنا بالجبر کا شکار ہونے والی عورتوں کے بارے خاموش ہیں۔ کیا داعش کے جہادی یزیدی کنیزوں کی کوکھ میں حرام جینز بھر رہے ہیں یا حلال؟ بانو قدسیہ اس بابت خاموش ہیں۔

قصہ مختصر: راجہ گدھ’ سائنس، منطق، عقل اور جدت خیالی پر ایک حملہ ہے۔ بانو قدسیہ عطائی سائنس کی مدد سے سائنس کو غلط ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ وہ ملک میں پائے جانے والی اس عام فہم سوچ کو پروان چڑھا رہی ہیں کہ مغرب کی ترقی ہماری روحانیت کے مقابلے میں کھوکھلی ہے ۔

یوں وہ پاکستانی قوم کی جھوٹی انا اور احساس کمتری کا تریاق فراہم کرتی ہیں۔ روحانیت کو بھی بابوں، جنوں اور کشف و کرامات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے جس طرح کی روحانیت کا پرچار بانو قدسیہ اور قدرت اللہ شہاب کے پیروکار کرتے ہیں وہ بابا بلھے شاہ، سرمد شہید اور شاہ حسین کی انسان دوست صوفی روایت پر حملہ ہے۔ ان حضرات کا صوفی سبز چوغے میں ایک کٹر ملّا ہے۔ سبز چوغہ ورغلانے کے لئے ایک برانڈ ہے اور یہ ملّا ضیا الحق کی دھرم وادی آمریت کا اتحادی ہے۔

اگر طالبان اور دیگر گروہوں کو ہم ضیا آمریت کی سیاسی باقیات کہتے ہیں تو ‘راجہ گدھ’ اور قدرت اللہ شہاب کے پیروکاروں کی انیس سو اسی میں تصنیف کی گئی تحریروں کو ہم ضیا عہد کی ادبی باقیات قرار دے سکتے ہیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *