معنی کی سیاست اور ادب

  • January 14, 2017 7:21 pm PST
taleemizavia single page

ناصر عباس نیئر/ترجمہ رملہ ثاقب

معنی کی خواہش اور ضرورت زندگی میں سب سے زیادہ ہے۔ ہم اس بات کی ضرورت تہذیب کے ابتدائی ادوار سے محسوس کر رہے ہیں۔ اساطیرکی تخلیق، معنی کی تلاش اوراس کے حصول کی اولین مشترکہ کوشش تھی۔ زندگی اور کائنات کے اسرار کو حل کر کے ہمارے آباؤاجداد معنی کو تلاش کیا کرتے تھے۔

اس کے بعد،مذہب،فلسفہ اورادب معنی کی پیاس بجھانے کا ذریعہ ثابت ہوئے ہیں۔بجا کہ ھم نے اپنے آباؤاجداد کی طرح اسرار کا تجربہ کرنا ترک کر دیا ہے لیکن ہمیں پریشان کرنے کے لیے نئی قسم کی پہیلیاں موجود ہیں۔ ہمیں روحانی اشاریت کی بجائے جدید دور کی پہیلیوں کی سماجی تمثیلوں کا تجربہ کرنا پڑتا ہے۔

چوں کہ معنی کی خواہش لا شعوری ہے،اس لیے ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی ان پہیلیوں کا مطلب تلاش کرنا پڑتا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں،ہمیں اپنی پریشانیوں کا حل تلاش کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہمیں معنی کی اشد ضرورت ہے۔

ہمیں بنیادی طور پر معنی کی خواہش اس لیے ہے کیونکہ ہم افراتفری برداشت نہیں کر سکتے۔ افراتفری درحقیقت ان چیزوں سے پیدا ہوتی ہے جنھیں ہم حل نہ کرسکے ہوں،ضروری نہیں کہ وہ حقیقی ہوں،وہ تخیلی بھی ہو سکتی ہیں۔ ہم معنی کے بغیر گزارہ کر سکتے ہیں لیکن افراتفری کو برداشت نہیں کر سکتے۔ بے معنویت کو معنی کی ایک قسم قرار دیا جا سکتا ہے جس سے ہم تعلق قائم نہ کرسکتے ہوں۔

حیران کن طور پربے معنویت کو اشاروں اور لفظوں کے ذریعے مکمل طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ جب ایک بیہودہ اور غیر ضروری بات کو ایک مناسب شکل دی جاتی ہے تو اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ایک با معنی اور بہترین طریقے سے بیان کی گئی بات کا جادوئی اثر ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛ علی گڑھ تحریک کا تہذیبی مطالعہ

اس بات میں کوئی حیرا نی نہیں کہ بے بے معنویت ایک فلسفے یا تصور کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔(حقیقت یہ ہے کہ ) ہمیں اشد طور پر منظم ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اندر کی بے ترتیبی اور جبر ہمیں تباہ کر سکتا ہے۔ معنی سے مکمل لا تعلقی ہمیں پاگل کر سکتی ہے۔ معنی ہمیں آزادی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ معنی کی تخلیق اپنی جنت بنانے کے مترادف ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کس طرح کا معنی ہمارا نجات دہندہ بن سکتا ہے؟

معنی کے معنی نے بنی نوع انسان کو ہمیشہ پریشان کیے رکھا ہے۔ بنیادی طور پر معنی ہمیں منظم کرتا ہے اور انتشار کا ناگزیر علاج ہے۔ معنی ہمارے بے سمت آوارہ خیالات کو ایک ایسے طریقے سے منظم کرتا ہے، جس سے ہم اور ہمارے ہم زبان آشنا ہوتے ہیں۔ ۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو اس بات پر حیرانی محسوس ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود کو منظم کرنے کا طریقہ یعنی معنی ،ان سب کو معقول محسوس ہونا چاہیے جو ہماری زبان، ہمارے اقدار اور تصوردنیا میں شریک ہوتے ہیں۔

یہ سوال اٹھانا مناسب ہو گا کہ معنی، ہمارے منظم ہونے کے عمل کا نتیجہ ہے یا یہ پہلے سے ہی ہمارے ذہن کے کسی کم معلوم منطقے میں کہیں موجود تھا،اور اسے بس اچانک بیداری کی ضرورت تھی؟سادہ لفظوں میں معنی کیا ذاتی ونجی ہے یا سماجی ہے؟ لسانی ہے یا نفسیاتی ہے؟

جانیئے؛ دار العلوم دیوبنداور برطانوی راج کے خلاف تعلیمی تحریک

اگرچہ معنی ایک معمہ ہے ،تاہم ٹیری ایگلٹن کے مطابق: “معنی” کے دو متبادل معنی موجود ہیں۔ اس کے خیال میں ایک معنی وہ ہے جو پہلے سے موجود ہے اور ایک وہ جو ہمارے عمل میں ظاہر ہوتا ہے ۔معنی کی پہلی قسم،زبان کے نظام میں،اور ہماری تمام ثقافتی علامتوں، داستانوں، کہانیوں، گفتگو، اقوال، امثال میں پائی جاتی ہے۔ دوسری قسم بولنے والے کے منشا سے منسلک ہے۔

معنی دراصل بیک وقت نجی اور سماجیاتی عمل ہے لیکن اساسی طور پر ثنویت کا شکار ہے۔جوں ہی کوئی شخص معنی کی تلاش میں نکلتا ہے تو اسکا سامنا اس ثنویت سے ہوتا ہے۔ معنی دراصل نجی اور سماجی، پہلے سے موجود اوربے ساختہ،نفسیاتی اورثقافتی عمل کے ملاپ سے وجود میں آتاہے ۔ لیکن اس ملاپ کے لیے توازن ہونا ضروری ہے۔ اور اس توازن کو اختیار کرنا انتہائی مشکل عمل ہے۔

جسے ہم نے انتشار کا نام دیا ہے ،اسے دراصل مقتدر قوتیں ارادتاً یا غیر ارداتاً پیدا کرتی ہیں۔یہ قوتیں سیاسی ،سماجی،مذہبی اور نظریاتی ہوتی ہیں۔ ہم لوئی التھیوسے کی اصطلاح میں ان قوتوں کو آر ایس اے یعنی ریاستی جابر ادارے اورآئی ایس اے یعنی نظریاتی ریاستی اداروں کے نام دے سکتے ہیں۔ ان اداروں کا ثقافتی،سماجی،تعلیمی پیداواراور افزائش پر پورا کنٹرول ہوتا ہے ۔

یہ ادارے وہ سب لسانی، سماجی،ثقافتی، علمی اور بیانیے اور کلامیے استعمال کرتے ہیں جو انھیں دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ ان تمام علامتوں،حکایتوں اورامثال کو دوبارہ مرتب کرتے ہیں،ان کی نئی تعبیر کرتے ہیں،یا پھر انھیں تبدیل کر دیتے ہیں جو ان کے ارادوں اور مقاصد کے خلاف ہوتے ہیں۔

یہ پڑھیں؛ پروفیسرز کی دولت میں اضافہ لیکن علوم کی تخلیق زیرو

وہ ثقافتی یادداشت کی گم شدگی پیدا کرنے کے حق میں ہوتے ہیں،اور اس کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ ثقافتی یادداشت کی گم شدگی طاقت کی کارستانی ہوتی ہے۔ میلان کنڈیرا کی کتاب دی بک آف لافٹر اینڈ فورگیٹنگ میں موجود الفاظ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ:”انسان کی طاقت کےخلاف جدوجہد ، دراصل بھولنے کے خلاف جدوجہد ہے”۔

المیہ یہ ہے کہ ہمیں ثقافتی یادداشت کی گم شدگی کی حالت میں مسلسل معنی تلاش کرنا پڑتا ہے۔ ہم اکثر معنی کی تشکیل میں بروے کار آنے والے نجی اور سماجی عناصر میں توازن قائم کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔اس کا نتیجہ منشا کے مغالطے کی صورت میں برآمد ہوسکتا ہے ۔ ہم مقتدر ریاستی یا نظریاتی اداروں کے منشا کو اپنا منشاسمجھنے کے مغالطے کا شکار ہوسکتے ہیں۔

بہت کم لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جو یادداشت کی گم شدگی کے خلاف جدوجہد کرکے طاقت کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں۔ یہ ادب ہی ہے جو ہمیں مسلسل یاددلاتا ہے کہ ہمیں یادداشت کی گمشدگی کے خلاف جدوجہد ترک نہیں کرنی چاہیے۔

اس کی عمدہ مثال ہمیں سعادت حسن منٹو کے افسانے “دیوانہ شاعر” میں ملتی ہے، جو کہ جلیانوالہ باغ کے سانحہ کے پس منظر میں لکھاگیا تھا جو 13 اپریل 1919ء کو پیش آیا اور جابرانہ (نوآبادیاتی) ریاستی طاقت کو سنگ دلی سے استعمال کرنے کا نتیجہ تھا۔ افسانے میں درج یہ سطریں ناقابل فراموش ہیں؛

میں لاشوں کا گیت گاتاہوں
جن سے دسمبر ٹھںڈ مستعار لیتاہے

کہانی ایک مصنف اور دیوانے شاعر کے مکالمے کے گرد گھومتی ہے۔شاعردراصل ثقافت کی گم شدگی کے خلاف دائمی جدوجہد کی علامت ہے ۔ دونوں کے درمیان گفتگو اس موضوع پر ہوتی ہے کہ کس طرح باغ میں موجود کنویں نے اس قتل عام کا مشاہدہ اور سامنا کیا ،جو برطانوی حکمرانوں نے کیا۔ باغ ،یادداشت کی گم شدگی سے وابستہ فرصت کی علامت ہے اور کنواں انسانی سائکی کے دوردراز منطقے کی گہرائی کی علامت ہے۔

شاعر مصنف کو بتاتا ہے کس طح حادثہ پیش آیا اور کنواں اس کی یاد دلاتا ہے۔ شاعر کو دیوانہ اس لیے کہا جاتا کہ وہ اس سانحہ کو بھول نہیں سکا اور باقیوں نے کتنی آسانی سے اسے بھلا کر نئے انتشار کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛ نوآبادیاتی تعلیمی دورانگریزوں نے ہندوستان کو کیسے ذہنی غلام بنایا

ایک ہنگامے کو بھول جانا دوسرے کے لیے نئے راستے بنا دیتا ہے۔ دیوانے شاعر نے توازن رکھا اور طاقت کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ اس نے حکام کو اس بات کا موقع نہیں دیا کہ وہ اسے منشا کے مغالطے کا شکار بنائیں۔ اس نے ایسا معنی تشکیل دیا جو اس کے منشا،جدوجہداوراس کی مزاحمت کی گواہی دیتا ہے۔

جو وہ سوچتا ہے اسی پر یقین کرتا ہے اور اس کی سوچ میں انھی لوگوں کی یاد ہے جن کو بھلا دیا گیا ہے۔ اس کا پاگل پن اس کے خود تخلیق کردہ معنی کی علامت ہے اور سیاست کی اس کے معنی کی تشکیل کے عمل میں مداخلت کو روکنے کے لیے آہنی پردہ بن جاتی ہے۔


nasir abbas nayyar

ناصر عباس نیئر نقاد اور مابعد نوآبادیات پر اپنا ایک نظریہ رکھتے ہیں وہ اورئینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں اور اُردو سائنس بورڈ میں بطور ڈائریکٹر جنرل بھی تعینات ہیں۔
بشکریہ دی نیوز آن سنڈے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *