فلسفہ و سائنس میں مادری زبان کا مقام

  • October 29, 2017 7:32 pm PST
taleemizavia single page

طارق احمد صدیقی

فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک انسان تبھی پہنچ سکتا ہے جب وہ اپنی مادری زبان کو اپنے فلسفیانہ اظہارکا وسیلہ بنائے یا پھر اس زبان کو جس کو وہ اپنا سمجھتا ہو یعنی جس سے اس کی مذہبی، تہذیبی، ثقافتی یا ماحولی و جغرافیائی وابستگی ہو، نیز وہ زبان اس کے اردگرد بہ قدر ضرورت موجود ہونے کے علاوہ لسانیاتی طور پر اس کی فطرت میں پیوست ہو جانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔

میں سمجھتا ہوں کہ دور جدید میں برصغیر ہندوپاک، بلکہ عالم اسلام کے اکثر ملکوں میں بھی، عظیم فلسفی یا سائنسداں اس لیے پیدا نہ ہو سکے کہ برطانوی استعمارکے خاتمے کے بعد بھی پوری اکادمک دنیا پرانگریزی جیسی غیر موزوں زبان (مذکورہ بالا معنوں میں) کا تسلط قائم رہا۔

واضح رہے کہ ایک طویل مدت تک ہمارے درمیان رہنے کے باجود انگریزی ہماری ’’اپنی‘‘ زبان نہ بن سکی۔ اور ہماری علمی و سیاسی قیادت نے بعض غیر حقیقی معذوریوں کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اعلیٰ تعلیم میں تحقیق و رسرچ کی زبان کے طور پر مسلط کیا جاتا رہا۔

اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم علم و فکر کی ہر سطح پر کم مایگی و بے بسی کا شکار بنے رہے۔ اس کا ایک سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں سے ہمارے درمیان بقدر ضرورت ایسے حکما و فلاسفہ کا ظہور نہ ہو سکا جو کسی قوم یا تہذیب کو قعرمذلت سے نکال کر بام عروج تک لے جاتے ہیں۔

زبان ترسیل و ابلاغ کا وسیلہ ٔ محض ہے اور فکر و فلسفہ اور سائنس کے باب میں اس کی اس سے زیادہ حیثیت نہیں۔’’فلسفہ کے باب میں زبان کا وظیفہ ابلاغ و ترسیل محض ہے‘‘، میں اس بحث میں جانے سے پہلے ان فیکٹس کی ایک صحیح توجیہ کی کوشش ضرور کروں گا جن پرآپ کا اصرار ہے اور جن سے میرے دعووں پر ضرب پڑ سکتی ہے عہد وسطیٰ یا اسلامی عہد میں عربی حکومت کی زبان تھی، عربی پڑھی اور پڑھائی جا رہی تھی، بڑے پیمانے پر ترجمے کیے اور کرائے جا رہے تھے۔ لیکن صرف عربی کا مقتدر زبان کی حیثیت میں ہونا ہی بنیادی سبب نہیں تھا کہ ابن سینا اور دیگر اسلامی فلاسفہ عربی زبان کی طرف مائل ہوئے۔

اگر اس عہد کے عالم اسلام میں عربی زبان اسی طرح (یعنی اسی نوعیت، کیفیت اور حیثیت سے) ایران میں موجود ہوتی جس طرح آج انگریزی برصغیر ہند و پاک اور عالم عرب میں پائی جاتی ہے اور فارسی ذہن میں عربی زبان کو اخذ و قبول کرنے کی فطری و تہذیبی نیز لسانی صلاحیت نہ پائی جاتی تو فارسی کے اہل زبان طبقے ہرگز عربی کا رخ نہ کرتے، اور بات وہیں ختم ہو جاتی۔

میرا خیال ہے کہ برصغیر ہند و پاک میں انگریزی کی جو حیثیت ہے، اس دور کے ایران میں عربی کی وہ حیثیت نہیں تھی۔ عربی ایرانیوں کے لیے سات سمندر پار کی زبان نہیں تھی جس طرح انگریزی ہندوستانیوں کے لیے ہے۔ ابن سینا نے جس لسانیاتی ماحول میں آنکھ کھولی اور زندگی گزاری اس ماحول میں عربی ٹھیک اسی طرح ایک غیرملکی زبان، یعنی فارین یا سکنڈ لینگویج نہیں رہی ہوگی جس طرح آج انگریزی ہے۔

پس ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس پورے دور اور اس پورے جغرافیائی خطے کی لسانی اور لسانیاتی صورت حال کیا تھی، نیز پوری عربی زبان و تہذیب ایرانی زبان و تہذیب پر کس طور اثرانداز ہو رہی تھی۔ صرف تبھی ہم اس سلسلے میں کوئی مثبت یا منفی رائے دے سکتے ہیں کہ سینا و فارابی صرف فارسی کے اہل زبان تھے، عربی کے نہیں، اور انہوں نے ایک غیر اہل زبان کی حیثیت سے عربی کو اپنے فلسفیانہ اظہار کے طور پر منتخب کیا، جیسے ہم آج انگریزی کو منتخب کرتے ہیں۔

پھر یہ تاریخی سوال بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا عرب اسی طرح ایران گئے جس طرح انگریزی ہندوستان آئے؟ نیز قابض و دخیل ہو جانے کے بعد عربوں کا فارسیوں کے ساتھ وہی رویہ تھا جو انگریزوں کا ہندوستانیوں کے ساتھ رہا؟ عرب جہاں بھی گئے طلب علم کی نیت کے ساتھ بھی گئے۔ وہ مشرق و مغرب کے علوم کے وارث ہونا چاہتے تھے۔ جبکہ انگریز جہاں بھی گئے اپنی تہذیبی احساس برتری کے ساتھ گئے۔

انگریزوں یا یورپیوں کےغلبے کے تقریباً اتنے ہی طویل عرصے میں ایشیا و افریقہ کے کسی خطے میں انگریزی میں لکھنے والے کتنے غیر انگریز یا کسی بھی یورپی زبان میں لکھنے والے کتنے غیر یورپی فلسفی یا سائنسداں پیدا ہوئے جن کا مقابلہ سینا و فارابی یا خیام و طوسی سے کیا جا سکے؟ جن کا مقابلہ ڈارون مارکس، فرائیڈ، نیوٹن یا آئن اسٹائن سے کیا جا سکے؟ میرا خیال ہے کہ ایسے فلسفیوں کو تو خود انگریز بھی پیدا نہ کر سکے۔

اگر کوئی یورپی شخص ہندوستان آکر فصیح و بلیغ اردو بولنا شروع بھی کر دیتا ہے تو بھی ہم اس کو اہل زبان تسلیم نہیں کرتے اور اس کے متعلق یہی کہتے رہتے ہیں کہ دیکھیے، یہ انگریز ہیں اور اہل زبان کی طرح اردو بولتے ہیں۔ ہم کبھی اس کو یہ نہیں کہتے کہ ’’یہ اردو کے برطانوی یا انگریز اہل زبان ہیں‘‘، کیونکہ انہوں نے اردو میں خواہ جس قدر بھی مشق بہم پہنچائی ہو وہ فطری نہیں سمجھی جائے گی۔

لیکن ہم اقبال کو اہل زبان قرار دینے میں ایک لمحہ کو بھی نہ ہچکچائیں گے خواہ ان کی مادری زبان پنجابی ہو کہ ہریانوی! مادری زبان اہل زبان ہونے کی شرط لازم نہیں ہے۔ ہم جس طرح علامہ اقبال کو اہل زبان قرار دیتے ہیں، اسی طرح ابن سینا کو اہل زبان کیوں نہیں سمجھ سکتے؟

آج بھی اگر تحقیق کی جائے تو کہ علامہ اقبال کی فارسی میں اور ایک ایرانی کی فارسی میں خاصا فرق پایا جا سکتا ہے، اور شعروادب اور فکروفلسفہ میں یہی فرق فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ایران کا ایک فارسی اہل زبان فارسی کے روزمرہ، محاورات، ضرب الامثال اور دن بہ دن بدلتی ہوئی کیفیتوں سے واقف ہوتا ہے۔ اقبال کو ہندوستان میں رہنے کی وجہہ سے ایسا موقع میسر نہیں تھا۔ اسی لیے وہ فارسی کے اس درجہ بلند پایہ اور ہمہ گیر شاعرنہیں ہو سکتے تھے جتنے کہ وہ اردو کے تھے۔

پھر یہ کہ برصغیر کے مسلمانوں پر فکر اقبال کے جتنے گہرے اثرات مرتب ہوئے کیا اس کے ویسے اثرات ایران کے مسلمانوں پر مرتب ہوئے؟ اور اگر مرتب نہیں ہو سکے تو اس کی کیا وجہیں تھیں؟ کیا اس کی وجہہ فکر اقبال کا سنی ہونا بھی تھا یا نہیں؟ یا کیا اس کی وجہہ اقبال کی فارسی کا اردو کے مقابلے میں کمزور ہونا تھا؟

جو حالت ہندوستان میں فارسی کی تھی، کیا یہ ممکن نہیں کہ بعینہ وہی حالت ایران میں عربی کی رہی ہو اور اسی لیے ایرانی یا فارسی حکما و فلاسفہ عربی میں اپنے علوم و افکار کو تشکیل دے سکے۔ اگر وہ بجائے عربی کے فارسی میں اپنے افکار لکھتے تو میرا خیال ہے کہ زیادہ بڑے کارنامے انجام دیتے۔

فرزندان فارس چونکہ عربوں سے شکست کھا چکے تھے اس لیے وہ اپنی زبان میں بھی فکری لحاظ سے کسی نہ کسی حد تک خاموش ہو جانے پر مجبورومعتوب تھے۔ پس یہ سمجھنا کہ مادری زبان یا اپنے سماجی ماحول میں پائی جانے والی کسی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں شعروادب اور فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک پہنچنا ممکن ہے ایک بڑی فکری غلطی ہے (اور انگریزی ہندوستان کے سماجی ماحول میں پائی جانے والی زبان نہیں

کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انگریزی ہندوستانیوں کی فطرت اور ان کے ذہن و تہذیب کے لیے اجنبی اور غیر زبان ہے جس میں وہ اعلٰی ترین فکری اظہار کی اہلیت پیدا نہیں کر سکتے۔ جبکہ ایرانیوں پر تین سو سالوں کے اندر عربی کا اتنا زبردست اثر پڑا کہ لاتعداد عربی الفاظ فارسی کے اپنے الفاظ ہو گے۔

اگرعربوں کی جگہ انگریزوں نے فارس پر حملہ کیا ہوتا تو کیا اس صورت میں انگریزی الفاظ اسی پیمانے پر فارسی میں داخل ہو سکتے جس پیمانے پر عربی کے داخل ہوئے؟ ظاہر ہے یہ ناممکن ہوتا۔ پس فارسیوں کے لیے عربی ایک قریب کی زبان تھی۔ اور اسی لیے اس پر خاطر خواہ عبور حاصل کرنا ان کے لیے بہت کچھ مشکل نہ تھا۔

اس طرح کسی زبان میں اعلیٰ ترین فلسفیانہ یا سائنسی کارنامہ انجام دینے کے لیے اس زبان کی تہذیب و ثقافت اور اس کے ہرلحظہ تغیرپذیر اور زندہ سماج کے ’’اندر‘‘ ہونا یا کم از کم اس زبان کی تہذیب و ثقافت سے رابطے میں رہنا اور اس کو اپنی زبان سمجھنا لازم ہے۔ ایک شخص کسی زبان کو اپنی زبان تبھی سمجھ سکتا ہے جب اس کی مادری زبان اور اس زبان (جس کو اپنا سمجھنا ہے) کے مابین فطری و تہذیبی اور مذہبی قربتیں پائی جاتی ہوں۔

پس، اگر ادب کے میدان میں ہندوستان میں انگریزی کا یہ حال ہے توپھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ انگریزی میں سوچا جانے والا فلسفہ ہندی یا اردو میں سوچے جانے والے فلسفے سے بہ اعتبار گہرائی و گیرائی اور بہ اعتبار کیفیت زیادہ وقیع اور کارآمد ہوگا؟

کیونکہ ادب پہلے آتا ہے اور فلسفہ اس کے بعد، ادبی ہیئتوں اور اصناف کی تشکیل پہلے ہوتی ہے اور فلسفیانہ تجرید کی اس کے بعد؛ کیونکہ شعر و ادب فلسفی کو زبان سکھاتے ہیں، اس کو فلسفیانہ اسالیب کی تعلیم دیتے ہیں، اس کو علمی مسائل میں کلام کرنے کے آداب فراہم کرتے ہیں، کیونکہ فلسفہ کا عمل زبان کے اندر ہوتا ہے اور زبان بہ اعتبار ماہیئت و نوعیت آرٹ سے زیادہ قریب ہے نہ کہ سائنس سے۔

میرا خیال ہے اس سلسلے میں مجھے مزید مطالعہ اور غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ میں نے انتہائی عجلت میں لکھا ہے جس میں نہ معلوم کیا کیا خلاف واقعہ نکات در آئے ہوں گے۔ لیکن غوروفکر کا عمل اسی طرح جلا پاتا ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ میری علمی غلطیوں پرگرفت نہ کرتے ہوئے (لیکن ان کی نشاندہی کے استثنیٰ کے ساتھ) میرے پیش کردہ فکری نکات پر توجہ فرمائیں گے۔


tariq siddiqui

طارق احمد صدیقی فلسفہ کے طالبعلم ہیں اور اُنہوں نے مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی بھارت سے ماسٹر کیا ہے۔

  1. Good idea, further debate is possible on it. Fundamental point of the author is valid though his arguments are weakhta.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *