مذہبی نصاب کی سائنس مخالف وجوہات؟

  • November 14, 2016 5:42 am PST
taleemizavia single page

عاصم قریشی

مذہب کے نام پر بننے والی ریاست پاکستان آج اندرونی انتشار، تضادات اور زوال کا شکار ہے، ذی شعور پاکستانی سوچنے پر مجبور ہے کہ ریاست کے رکھوالوں نے اس قوم کو کہیں جان بوجھ کر تو تقسیم در تقسیم کیا؟

اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں ریاست میں چلنے والے تعلیمی اداروں کی جانچ پرکھ کرنا ہوگی جہاں ذہنوں کی آبیاری ہورہی ہے، جہاں ذہن کی نشوونما نصاب کے سانچے میں کی جارہی ہے۔

تعلیمی اداروں میں صرف سکولز نہیں بلکہ وہ مدارس بھی ہیں جن کی تعداد ملک بھر میں ایک لاکھ سے زائد ہے یہ وہ ادارے ہیں جو ریاست کے متوازی چلائے جارہے ہیں۔

ریاست کے باسیوں کے اذہان اپاہج ہوں یا پھر تخلیقی اسکی ذمہ داری تو اُن تعلیمی اداروں پر عائد ہوتی ہے جہاں پر ہماری سوچ، فکر اور نظریہ کو سانچہ جاتا ہے۔

تعلیمی نصاب کے ذریعہ تو ایسی تفریق پیدا ہوئی کہ پاکستان کے برانڈڈ پرائیویٹ سکولوں اور سرکاری سکولوں سے فارغ التحصیل بچوں کا مزاج، عادات اور تصورات ہی آپس میں نہیں ملتے۔

بلکہ ان اداروں سے دو ایسے طبقات پیدا ہورہے ہیں جو خود کشمکش میں مبتلا ہیں اور ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔

رہی سہی کسر تو مدارس کے بچھے ہوئے پیچیدہ جال نے پوری کر دی جس کا نصاب اُن شدت پسند مذہبی نمائندوں کے پاس ہے جو سائنس و ٹیکنالوجی سے بیزار ہیں، جو خود مذہب کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔

مذہب کے نام پر بننے والی ریاست میں مذہب کے بیوپاروں نے اپنا اپنا کاروبار شروع کر رکھا ہے، کہیں شیعت کے نام پر، تو کہیں سُنیت کے نام، وہابیت اور دیوبندیت ہر کوئی اپنی اپنی پسند کا فرقہ فروخت کر رہا ہے۔

اس کاروبار کے لیے پڑوس سے شیعہ ملک اور خلیج سے وہابی ملک اپنے اپنے فرقہ کی ترویج کے لیے مدارس کو پیسے بھی دیتے ہیں اور ریاست پاکستان میں فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرت، شدت پسندی اور جاہلیت کو پروان چڑھانے کے لیے سرپرستی بھی کرتے ہیں۔

معاملہ یہاں نہیں تھمتا بلکہ مدارس کے نصاب پر نہ تو ریاست کا کنٹرول ہے اور نہ ریاست کو کوئی سروکار کیونکہ ملک کی دولت کو ریاست کے رکھوالے لوٹتے ہیں اور مذہب کو مذہبی نمائندہ فروخت کرتے ہیں، نفع دونوں کو مل رہا ہے۔

اس لیے ایک دوسرے کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کے قائل نہیں۔ ان مدارس میں غربت ، بے روزگاری، معاشرتی نفرت کے شکار بچے داخل ہوتے ہیں۔

ان بچوں کو قرآن اپنے فرقہ کے تحفظ، درس نظامی فرقہ واریت کے فروغ اور دیگر علوم کی تعلیم دیکر بے روزگاروں کی ایسی فوج تیار کی جاتی ہے جن کے پاس کسی مدرسہ میں مہتمم یا پھر دیہاتوں میں اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں امامت نصیب ہوجاتی ہے۔

مذہب کی تعلیم میں بھی پانچ سکول آف تھاٹس ہیں جن کے اپنے اپنے کلامیہ اور بیانیہ ہیں اور انہی بیانیہ کے تناظر میں انہیں شدت پسند بنایا جاتا ہے ۔

ان لاکھوں بچوں کی تیار ہونے والی فوج کے لیے ریاست کے پاس انکی کھپت کا کوئی منصوبہ ہیں اور نہ ہی ریاست ان بچوں کی ذمہ داری اُٹھانے کو تیار ہے۔

نتیجہ یہ ہوا ہے کہ جو ریاست دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تشکیل پائی وہ آج کئی قومیتوں میں تقسیم ہوگئی ہے
کہیں لسانیات کی بنیاد پر قوم پرستی کی تقسیم تو کہیں فرقہ کی بنیاد پر گروہوں بندیوں کا شکار، جو شدت
پسندنظریات کو نہ صرف جنم دے رہی ہے بلکہ ان نظریات کی آبیاری کی نرسری بھی بن چکی ہے۔

ریاست کے بانیان نے مذہب کے نام پر جو ملک بنایا اس ملک میں اب خود ریاست کے پاس ایک بھی سرکاری دینی تعلیم دینے کے لیے ادارہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی سرکاری گوشواروں میں ان اداروں کے لیے رقوم مختص کی جاتی ہیں۔

ریاست تو مذہب کے نام پر بنی لیکن مذہب سے بیزاری کا مظاہرہ تو خود ریاست نے بھی کیا اور جب مذہب کی تعلیم دی گئی تو وہ مجاہدین کی فوج تیار کرنے کے لیے اور جہاد کی امریکی مفادات کے تناظر میں تشریع پیش کی گئی۔

مدارس میں جو نصاب رائج ہے، یہ نصاب سائنس، جدیدیت اور ٹیکنالوجی سے بیر پر مشتمل ہے، سماجی مسائل، معاشی بدحالی اور سائنسی علوم کا مقابلہ کرنے کے لیے ان مدارس کے طلباءکے ذہن دیمک زدہ اور ناقص العقل ہیں۔

دین کے جس نظریہ کے تحت تعلیم دینے کی روایت رائج ہے اُس کے نتیجہ میں مدارس کانوجوان شدت پسندی کی سوچ لیکر معاشرہ میں نکلتا ہے جس کے مقدر میں بے روزگاری کے سوا کُچھ نہیں اور یہی بے روزگاری سماج سے نفرت کا باعث بنتی ہے۔

ریاست نے مذہبی تعلیم اور روایتی تعلیم کو نوآبادیاتی دور کے تسلسل کے تناظر میں ہی جاری رکھا جس کی بنیاد برطانوی انگریزوں نے اس خطہ میں رکھی۔ حصول تعلیم کے ان دو دائروں کا اثر معاشرہ کی نہ ختم ہونے والی ذہنی تقسیم پر منقسم ہوا ہے۔

جدید نوآبادیت کے اس دور میں ریاست پاکستان کے نمائندوں نے غلامی کے دور کے نظریات کو قوم پر مسلط کر رکھا ہے اور ان مدارس کو کنٹرول میں نہ لیکر مذہب کو بیوپاروں کے حوالے کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ مذہبی اداروں کو بے لگام کر کے ریاست کو کمزور کیوں کیا گیا؟سیاسی اشرافیہ ہو یا پھر نوکر شاہی، دونوں نے اس سنگین مسئلے پر منصوبہ بندی کیوں نہیں کی؟ ریاست کے اس رویہ کا اثر یہ ہوا کہ یونیورسٹیوں کا نوجوان مذہب سے بیزار اور مدارس کا نوجوان جدید تعلیم سے بیزار ہے ۔

ریاست پر ذمہ داری ہے کہ سرکاری سطح پر مدارس کو اپنی سرپرستی میں لیا جائے اور ان مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب کو از سر نو مرتب کیا جائے۔

جدید اور قدیم تعلیم کے فرق کو مٹانا ہوگا، مدارس کی غیر ملکوں سے فنڈنگ پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہوگا۔قرآن کا پیغام تو دُنیا کے وسائل کی کھوج لگانا، معاشروں کی ترقی اور انسانی ذہن کی ترقی کی تعلیمات کو فروغ دیتا ہے۔

جب سائنس کی ترقی انسانی سماج کی ترقی کی وجہ ہے تو پھر قرآن اس تصور کو کیسے رد کر سکتا ہے؟

ریاست کو چاہیے کہ مذہب کے نام پر فرقہ واریت کو پھیلانے والی فیکٹریوں کی پروڈکشن پر پاپندی عائد کی جائے اور روایتی تعلیم کے ساتھ ہی دین کی تعلیم دی جائے۔

کمزور ریاست سے مستحکم ریاست تک کے سفر کے لیے یہ ضروری ہے کہ مدارس کو جدید تعلیم کا مرکز بنایا جائے جہاں سائنس و ٹیکنالوجی کے تصورات پڑھائے جائیں، جہاں قدامت پرستی، توہم پرستی کے نظریات کو رد کیا جائے ۔

پاکستان کو جدید ریاست بنانے کی طرف لیکر جانے کے لیے مذہب کے غلط تصورات جس کی بنیاد نفرت پر ہے، کو ختم کرنا ہوگا۔

اور دو قومی نظریہ کے بیانیہ کی موجودہ دور کے تناظر میں تشریع کرنا ہوگی وگرنہ یہ ریاست اندرونی تضادات اور نفرت کا شکار ہوکر مزید نئے معاشروں کو تشکیل دینے کا موجب بن جائے گی۔


asim

عاصم قریشی ملٹری اکیڈمی کاکول میں بطور اُستاد تعینات ہیں۔ اُنہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ روایت پرستی اور مروجہ سیاسی نظریات کو چیلنج کرتے ہیں۔

  1. عاصم قریشی صاحب گزارش ہے کہ اپنی ژولیدہ فکر اور معذرت خواہانہ تحریر کے ساتھ آپ نے جو صفحہ سیاہ کیا ہےوہ حقیقی اسلامی اصولوں سے قطعی میل نہیں کھاتا۔آپ اپنے مطالعہ کو وسیع کریں۔ شیخ احمد دیدات کی ویڈیوز دیکھیں ان سے آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔یہ آج کل ہمارے نوجوانوں کا ٹرینڈ بن گیا ہے کہ جو چار حرف پڑھ جاتا ہے وہ اپنی ساری علمیت اسلام اور مدارس کے خلاف چور رستوں سے نکالتا نظر آتا ہے۔ کچھ نام نہاد دانش وڑوں کی تو یہ حالت ہے کہ مروجہ دنیاوی تعلیمی اداروں مثلاً بیکن ہاؤس اور آکسفورڈ سلیبس کے حامل اداروں میں پنپتی ہوئی نفرت اور معاشرے سے تفاوت کو قطعی نظرانداز کرکے اپنا کج قلم لے کر مدارس پر شب خون مارنے لگتے ہیں۔ جبکہ بعض تو اس نفرت میں یہاں تک چلے گئے ہیں کہ مدارس کا نام سن کر ہی ان ڈارون نما انسانوں کی دم میں آگ لگ جاتی ہے۔

    1. شاداب ملک صاحب عاصم قریشی کے کالم میں ایسی کوئی قابل اعتراض بات نظر نہی آئی انہوں نے مدرسوں کے خلاف نہیں بلکہ ان کے طرز تعلیم کے خلاف آواز اٹھائی ہے. کیا مدرسوں کو حکومتی سرپرستی حاصل نہیں ہونی چاہیے؟بلکہ کیا حکومتی مدرسے نہیں ہونے چاہیے جہاں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی تعلیم بھی دی جائے تاکہ ان مدرسوں سے تعلیم یافتہ افراد معاشرے کا ایک مفید حصہ بن سکیں ناکہ خودکش بمبار.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *