سندھ: آغا خان یونیورسٹی کے تحت “نگران پلس” منصوبہ شروع

  • February 23, 2017 4:36 pm PST
taleemizavia single page

کراچی

سندھ حکومت نے تحقیق اور افراد سازی میں اضافے کے جدت پسند منصوبے ‘نگران’ کو دیہی سندھ کے ایک اور علاقے میر پور خاص تک وسعت دے دی ہے اور اس کا نام ‘نگران پلس’ رکھا گیا ہے۔ سندھ کے سیکریٹری صحت اور آغا خان یونیورسٹی (اے کے یو )کے کمیونٹی ہیلتھ سائنسز(سی ایچ ایس) ڈیپارٹمنٹ کے نمائندوں نے ‘نگران پلس’ منصوبے کی افتتاحی تقریب میں باقاعدہ طور پر اس کا آغاز کیا۔

نگران منصوبے کے ابتدائی مرحلے کا بدین میں آغاز کیا گیا تھا جس کی بدولت لیڈی ہیلتھ ورکرز اور لیڈی ہیلتھ سپروائزرز کو بچوں میں نمونیا اور اسہال جیسی مہلک بیماریوں کے بہتر تدارک میں مدد ملی تھی۔ ان بیماریوں کے سبب ہر سال 140,000 سے زائد بچے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ یہ تعداد پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر میں جاں بحق ہونے والے کل بچوں کا 46 فیصد ہے۔ چونکہ ان دونوں امراض میں ہونے والی زیادہ تر اموات گھر پر نا مناسب دیکھ بھال کے باعث ہوتی ہیں لہذا نگران منصوبے کے تحت لیڈی ہیلتھ سپروائزرز (ایل ایچ ایسز) کے علم و مہارت اور کارکردگی میں اضافے پر توجہ دی گئی۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز (ایل ایچ ڈبلیوز۹ گھروں میں مقامی آبادیوں کو صحت کی متعلقہ اور فوری معلومات فراہم کرتی ہیں اور ایل ایچ ایسز ان کی نگرانی اور کارکردگی کے جائزے پر مامور ہوتی ہیں۔

سندھ کے سیکریٹری صحت ڈاکٹر فضل اللہ پیچوہو نے میر پور خاص تک نگران منصوبے کی وسعت کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا، “مقامی آبادیوں کی خدمت پر مامور ایل ایچ ایسز اور ایل ایچ ڈبلیوز صحت کے نظام کا بنیادی جزو ہیں۔ ان کو تقویت دے کر ہم بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ نگران منصوبے کے تحت بدین میں پہلے ہی اعلی معیار کی تربیت فراہم کی جا رہی ہے اور اے کے یو کی تحقیق کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے ہم پورے سندھ کو ان فوائد سے بہرہ مند کریں گے۔ مستند تحقیق کے نتیجے میں بہتر منصوبے تشکیل دیئے جا سکتے ہیں اور اے کے یو کے سی ایچ ایس ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم کے ساتھ اس باقاعدہ معاہدے کی صورت میں ہم مسلسل معاونت اور بہتری کی امید رکھتے ہیں۔”

نگران منصوبے کے تحت ایل ایچ ایسز کو معاونتی علاج کے طریقوں سے آشنا کیا گیا جس کے نتیجے میں ایل ایچ ڈبلیوز اور ایل ایچ ایسز گھروں میں وزٹ کے دوران زیادہ بہتر علاج فراہم کر سکیں۔ بدین میں، نگران کے تحت اضافی مہارت حاصل کرنے والی ایل ایچ ایسز کے سپروژن کے اسکور میں دگنا اضافہ پایا گیا۔ یہ مقامی ایل ایچ ڈبلیوز کی معیاری معاونت اور صلاحیت سازی کے حوالے سے ایک قابل قدر کامیابی ہے۔

نگران کے تحت تربیت حاصل کرنے والی ایل ایچ ایسز کو اسہال اور نمونیا کی درست تشخیص اور علاج کی تربیت دی جاتی ہے۔ ان کی اس مہارت میں بھی نمایاں طور پر اضافہ پایا گیا۔ مزید برآں، نگران سے تربیت یافتہ ایل ایچ ایسز نے ایل ایچ ڈبلیوز کو تربیت فراہم کی جنھوں نے پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اسہال اور نمونیا کے درست علاج کے ذریعے بہتر نتائج حاصل کیے۔ تربیت یافتہ ایل ایچ ڈبلیوز کے نتائج ان ایل ایچ ڈبلیوز کے مقابلے میں بہتر تھے جو نگران منصوبے کا حصہ نہیں تھیں۔

AKU_(44)

فیملی پلاننگ اینڈ پرائمری ہیلتھ کیئر، بدین کی اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر تسکین فاطمہ نے نگران منصوبے کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا، “ہمیں وہ عملی تربیت فراہم کی گئی جو ہسپتالوں میں بہتر علاج کو یقینی بناتی ہے ۔ اس کی مدد سے اسہال اور نمونیا کے شکار مریض بچوں کی نشاندہی کے حوالے سے ہماری مہارت میں اضافہ ہوا۔ ایل ایچ ڈبلیوز نے یہی مہارت مقامی آبادیوں میں گھروں کے وزٹس کے دوران استعمال کی۔ نگران منصوبے کے تحت تیار کیے گئے طریقہ کار اور مواد کی مدد سے ہماری صلاحیتوں پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ نگران منصوبے کی تربیت یافتہ سپروائزرز کی جانب سے ایل ایچ ڈبلیوز کو فراہم کردہ معاونت بھی بے حد قابل ستائش ہے۔”

منصوبے کے اگلے مرحلے نگران پلس کے تحت اسی انداز کے معاونت اور نگرانی کے نظام کا میر پور خاص میں آغاز کیا جا رہا ہے جو ثبوت اور عملی طریقہ کار پر مبنی ہو گا تاکہ ہیلتھ کیئر ورکرز درست انداز میں مرض کی نشاندہی اور تشخیص کرسکیں؛ ان کیسز کی رپورٹ تیار کر سکیں اور نمونیا اور اسہال کا ابتدائی مرحلے پر علاج کر سکیں کیونکہ ابتدائی مرحلے پر فراہم کیا جانے والا علاج اور دیکھ بھال نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

نگران پلس کے تحت ایل ایچ ڈبلیوز کو یہ تربیت دی جائے گی کہ وہ نمونیا اور اسہال کے مریض بچوں کے اعدادوشمار کا ریکارڈ اپنے موبائل فونز کے ذریعے سپروائزرز تک کس طرح بھیج سکتی ہیں۔ ایل ایچ ایسز اس معلومات کو ہر علاقے کا ریکارڈ متعین کرنے اور ایل ایچ ڈبلیوز کے وزٹس کی رابطہ کاری کے لیے استعمال کریں گی۔

فیملی پلاننگ اینڈ پرائمری ہیلتھ کیئر، سندھ کے صوبائی کوآرڈینیٹر ڈاکٹر جے رام نے کہا، “نگران منصوبے کے پھیلاؤ اور کامیابی کے لیے اے کے یو کا سینٹر آف ایکسیلینس ان ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ اور سی ایچ ایس ڈیپارٹمنٹ جس طرح مل کر کام کر رہے ہیں وہ خوش کن امر ہے۔ ہم اے کے یو سے مزید معاونت کی امید کرتے ہیں تاکہ نگران منصوبے کا تربیتی مواد لیڈی ہیلتھ ورکرز کے تربیتی پروگرام میں باقاعدہ طور پر شامل کیا جا سکے۔”

اے کے یو کے سی ایچ ایس ڈیپارٹمنٹ کی چیئر پروفیسر فوزیہ ربانی نگران منصوبے کی بنیادی تفتیش کار ہیں۔ انھوں نے پاکستان میں صحت کی ترجیحاتی پروگرامز پر بات کی اور اس منصوبے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، “اسہال کی صورت میں بچے کو ری ہائیڈریشن محلول فوری طور پر دینا اور نمونیا کی صورت میں اینٹی بائیوٹک ادویات کی بروقت فراہمی دو ایسے اہم امور ہیں جن کی آگاہی اور شعور میں اضافہ کر کے ہم بہت سی جانیں بچا سکتے ہیں۔”

انھوں نے مزید کہا، “نگران پلس کا نظام مسلسل تربیت، جوابی رائے کے حصول اور مقامی آبادی میں وزٹس پر مبنی ہو گا۔ اس کی مدد سے نہ صرف نئے ہیلتھ کیئر ورکرز سامنے آئیں گے بلکہ جان کے خطرے سے دوچار بچوں کو ضروری توجہ اور دیکھ بھال بھی ان کے گھروں تک فراہم کی جائے گی۔ آنے والے وقت میں اس انداز کے پروگرامز سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گول نمبر 3 کے حصول میں پاکستان کے لیے معاون ثابت ہوں گے۔”

نگران منصوبے کے پہلے مرحلے کے لیے مالی معاونت الائنس فار ہیلتھ پالیسی اینڈ سسٹمز ریسرچ نے فراہم کی تھی جو صحت کی عالمی تنظیم )ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن۔ڈبلیوایچ او( کا ایک عالمی اشتراکی ادارہ ہے۔ نگران پلس ‘امید نو’ منصوبے کا حصہ ہے جو اے کے یو اور پاکستان کی صوبائی وزارتوں کے اشتراک سے شروع کیا جا چکا ہے اور بل اینڈ ملنڈا گیٹس کی مالی معاونت سے جاری ہے۔

نگران پلس کی افتتاحی تقریب میں میر پور خاص ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر انور پلاری، اسسٹنٹ صوبائی کوآرڈینیٹر فار فیملی پلاننگ اینڈ پرائمری ہیلتھ کیئر ڈاکٹر پیر غلام حسین، اے کے یو اکے سی ایچ ایس ڈیپارٹمنٹ کے اساتذہ ڈاکٹر شگفتہ پروین، ڈاکٹر کاشف سنگراسی، ڈاکٹر عائشہ زاہدی اور ڈاکٹر وفا آفتاب موجود تھے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *