پاکستان کی مادری زبانیں اور مردم شماری

  • March 19, 2017 3:37 pm PST
taleemizavia single page

قیصر خالد

انسان کی اپنی مادری زبان سے جذباتی وابستگی ایک فطری عمل ہے- وہ سب سے پہلے اپنی مادری زبان میں ہی دنیا کے متعلق جاننا شروع کرتا ہے اور سیکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ ماہرین تعلیم سمجھتے ہیں مادری زبان میں تعلیم کی افادیت سب سے زیادہ ہے- مادری زبان ہی انسان کو سماجی شناخت عطا کرتی ہے۔

مادری زبان معاشرتی تعلق کی بنیاد بنتی ہے- “ہم زبان” مل کرثقافت کی تشکیل دیتے ہیں اور یوں ایک زبان بولنے والے دوسری زبانوں سے منفرد نظر آتے ہیں۔ یہ انفرادیت ہی ثقافتی تنوع کا باعث بنتی ہے جو کہ آج کی مہذب اور جدید دنیا میں رہنے والوں کے لیے ایک طرہ امتیاز ہے۔

مادری زبانوں پر تحقیق کرنے والے ادارے” ایتھنو لاگ” کے مطابق دنیا میں اس وقت تقریبا 7000 مادری زبانیں ہیں ان میں سے کئی زبانیں تو ایسی ہیں جن کے بولنے والے دنیا بھر میں موجود ہیں اور یہ ایک وسیع ثقافتی ورثہ رکھتی ہیں- ان زبانوں کے برعکس مادری زبانوں کی ایک بڑَی تعداد معدوم ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں- یونیسکو کے نزدیک ان کی تعداد دو ہزار چار سو پینسٹھ ہے۔

یونیسکو نے ان زبانوں کو پانچ درجوں میں تقسیم کیا ہے- ابتدائی درجےمیں ان زبانوں کو رکھا گیا جن کو آنے والے دنوں میں خطرات لاحق ہیں- ان کی تعداد 596 ہے- اگلے تین درجوں کی زبانیں خطرات میں ہیں- انتہائی درجے میں وہ زبانیں ہیں جو کہ تقریبا معدوم ہوچکی ہیں- ان کی تعداد 229 ہے- یونیسکو نے ان زبانوں کی درجہ بندی مندرجہ ذیل اصولوں پر کی ہے؛

ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد، ان زبانوں کوبولنے والوں کا ملکی آبادی کے لحاظ سے تناسب، زبان کی تعلیم و ترویج کے لیے دستیاب مواد، مادری زبان میں دستیاب مواد کی اقسام، مادری زبان کی ایک نسل سے دوسری نسل کی ترسیل کا عمل اور اس میں درپیش مشکلات، مادری زبانوں کو بولنے والوں کا اس کی طرف رویہ اور رجحان، حکومت اور اس کے اداروں کا مادری زبانوں کی ترویج کی طرف رویہ ، ان کی سرکای حیثیت اور ان کی بڑھوتری کی طرف کیے گے اقدام شامل ہیں۔

ان مندرجہ بالا اصولوں پر خطرات سے دوچار مادری زبانوں کو بچانے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں جاری ہیں پاکستان بھی مادری زبانوں کے لحاظ سے ایک ممتاز مقام رکھتا ہے- ہمارے ملک میں اکژیت بڑی علاقائی یا صوبائی زبانوں کوہی مادری زبانوں کے نام سے جانتی ہے- اصل حقییت یہ ہے کہ پاکستان میں 70 سے زائید مادری زبانیں بولی جاتی ہیں- اور ان میں سے 27 زبانیں ایسی ہیں جو خطرات سے دوچار ہیں – یہ زبانیں زیادہ تر ملک کہ شمالی علاقہ جات میں بولی جاتی ہیں۔

مثال کہ طور پر “باتری” زبان جو کہ کوہستان کہ علاقہ میں بولی جاتی ہے- توروالی جو کہ سوات اور بحرین میں بولی جاتی ہے- “یدخا” جو کہ چترال کہ علاقہ میں بولی جاتی ہے اور اس کے بولنے والوں کی تعداد دس ہزار سے بھی کم ہے۔

“کیلاشہ” جو کہ کیلاش وادی میں بولی جاتی اور اس کہ بولنے والوں کی تعداد پانچ ہزار کہ لگ بھگ ہے- یہ اوران جیسی دوسرِی زبانیں قدیم ثقافتی ورثہ کی حامل ہیں- مگر حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باعث یہ زبانیں شدید خطرات سے دوچار ہیں۔

ان زبانوں کو بولنے والوں کی صیح تعداد کسی کو معلوم نہیں اور ان زبانوں کی تعلیم و ترویج کے لیے مواد دستیاب نہیں ان زبانوں کی لوک ریت وقت کہ ساتھ ختم ہو رہی ہے- گلوبلائزیشن نے جہاں سماجی میل جول کے عالمی رویے متعارف کرا دیے ہیں وہیں پر ان ثقافتوں میں سماجی میل جول کہ آداب پر بھی اثر ڈالا ہے۔

ان کی موجودہ نوجوان نسلیں اپنے کلچرکو آہستہ آہستہ ترک کررہی ہے اسی صورتحال میں ان زبانوں کو بولنے والوں کے صیح اعداد شمار ہونا نہایت لازمی ہے تاکہ ان کی ترویج کہ لیے کام کیا جاسکے۔

معاشی وسماجی ترقی میں مردم شماری کی اہمیت سے انکار کسی صورت بھی ممکن نہیں- ہمارے ملک کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم سے لیکر الیکشن کی حلقہ بندیوں تک کا انحصار مردم شماری کہ اعدادوشمار پر ہے- خصوصا اس عمل کی اہمیت اور بڑھ جاتی جب ریاست لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو اور یہ تقسیم وہاں کی سیاست پر گہرا اثر رکھتی ہو۔

مگر مردم شماری میں مادری زبانوں کو صرف علاقائیِ یا صوبائی زبانوں کے طور پر لیا جانا ان چھوٹی مادری زبانوں کہ ساتھ ناانصافی ہے ان زبانوں کا نا تو ملکی سیاست پر کوئی اثر ہے اور نہ ہی یہ لسانی تقسیم کا باعث ہیں ہاں مگر یہ ملک کا ایک بیش قیمت لسانی اور ثقافتی ورثہ ہیں۔

چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت ان مادری زبانوں کے لیے علحیدہ سے ایک خانہ شامل کرتی جو ان زبانوں کہ بولنے والوں کی صیح تعداد جاننے کا سبب بنتا – یہ اعدادوشمار ان زبانوں کی ترویج کے لیے بناے جانے والی پالیسی میں اہم ادا کرتے- مردم شماری کا یہ عمل کہیں ان چھوٹی زبانوں کو بولنے والوں کی سماجی شناخت چھینے میں آخری کیل نہ ثابت ہو۔


Qaiser Khalid

قیصر خالد محمود انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں بطورلیچکرار شعبہ عمرانیات سے وابستہ ہیں- عرصہ سات سال سے درس وتدریس اور تحیق سے منسلک ہیں- مختلف سماجی امور پر تحقیقی کام لوکل اور انترنیشنل جرنلز میں شایئع کروا چکے ہیں۔

  1. I appreciate your efforts dear sir. You wrote on a very burning and contemporary topic. Some days ago I posted this issue on FB. I agree with your view point about mother tongue. Keep writing

  2. my respected sir, one of the authentic article. i agree with your point of view according to the mother tongue.

  3. بہت خوب، آپ نے مادری زبانوں سے اپنی محبت کا حق ادا کردیا۔ میرے خیال میں شماریات والوں کی حماقت کی وجہ سے پکستان میںلسانی تنوع ۔ کو صحیح طور پر جاننے کے لیے ایک اچھا موقع ضائع ہوگیا

  4. Very good and appreciate able effort indeed. You heave written on sensitive and an important issue of our social life. Keep it up. ☺

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *