ایچ ای سی کی ایکس، وائے اور زیڈ کیٹیگری کے جرنلز پر پاپندی

  • July 14, 2017 1:12 pm PST
taleemizavia single page

سید سجاد کاظمی

پی ایچ ڈی ڈاکٹرزکی شامت ، ایچ ای سی نے ملک میں زی، وائے اور ایکس کیٹگری کے ”جرنلز“ بند کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔ ڈبلیو کیٹگری کے علاوہ ہزاروں جرنلز کو بند کرنے سے یونیورسٹی اساتذہ کی پرموشن اور تعیناتیاں رکنے کے امکانات پائے جارہے ہیں۔

سوشل سائنسز اور لینگوئجز میں کوئی بھی جرنل ڈبلیو کیٹگری کا نہیں ہے جس سے ان مضامین کے پی ایچ ڈی ہولڈرز کو مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔

چیئرپرسن ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بند کئے جانے والے جرنلز میں پی ایچ ڈی ہولڈرز کے مقالہ جات کو مسترد نہیں کیا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق دو سال قبل وفاقی ایچ ای سی کی جانب سے 6 جولائی 2015 کو غیر معیاری جرنلز بند کرنے کی وارننگ کے ساتھ انہیں اپ گریٹ کرنے کی تلقین کی گئی اور بیشتر دفعہ وارننگ جاری کی گئی گزشتہ سال فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا)کے ساتھ مذاکرات ہوئے جس میں انہوں نے ایچ ای سی سے ایک سال کی توسیع کی اپیل کی جس پر 30 جون 2017 تک جرنلز کو بند کرنے توسیع کردی گئی۔

تیس جون کے گزرنے کے بعد ایچ ای سی نے حتمی فیصلہ کیا ہے ایسے غیر معیاری جرنلز بند کردیئے جائیں گے جس سے کوالٹی پر سوالیہ نشان لگ جائے۔

اب ایچ ای سی پاکستان نے صرف ڈبلیو کیٹگری کے جرنلز کو رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کیٹگری زی، وائے اور ایکس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے نہ صرف ہزاروں جرنلز بند ہوجائیں گے بلکہ اس اقدام سے ہزاروں یونیورسٹی اساتذہ اور پی ایچ ڈی سکالر بھی متاثر ہوں گے۔

کیونکہ پی ایچ ڈی سکالر کو اس وقت تک ڈگری نہیں ملتی جب تک اس کے دو ریسرچ پیپرز کسی منظور شدہ جرنل میں شائع نہ ہوں اس طرح تو پی ایچ ڈی کے ڈگری لینے کے لئے سکارز کو سالوں انتظار کرنا پڑے گا اسی طرز پر اساتذہ اپنی پرموشن کے لئے پیپرز پورے نہیں کرسکیں گے کیونکہ ایسوسی ایٹ پروفیسر بننے کے لئے 10 ریسرچ پیپرز اور پروفیسر بننے کے لئے 15 ریسرچ پیپرز ہو نا ضروری ہیں۔

اگر کسی ایک پیپر بھی کم ہوا تو اسے جرنلز بند ہونے پر ڈبلیو کیٹگری کے جرنل میں چھپوانے کے لئے سالوں انتظار کرنا پڑے گا۔جس کے ان اساتذہ کی پرموشن اور تعیناتی متاثر ہوگی۔

اب ایچ ای سی کے آرڈرز کے مطابق 30 جون کے بعد صرف ڈبلیو کیٹگری کے جرنل میں مقالہ شائع ہوگا تو قابل قبول ہوگا۔

فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن(فپواسا) کے سیکرٹری ڈاکٹر شکیل فاروقی نے کہا ہے کہ جب کوئی بھی پالیسی بنائی جاتی ہے تو یہ خیال رکھنا ضروری ہے دوسرے فریق کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں ہماری ایچ ای سی پاکستان میں” امپیکٹ فیکٹر سسٹم“ کو لانا چاہتی ہے جو کہ پاکستان میں نامکن ہے۔

ہم ایشئین ٹائیگرز کا دعویٰ تو کردیتے ہیں مگر ہیں وہیں کے وہیں! ایچ ای سی میں نان اکیڈیمک لوگ بیٹھ گئے تو ایسا ہی ہوگا۔

احتجاج کے حوالے سے ڈاکٹر فاروقی نے کہا کہ فپواسا کو جرنلز بند کرنے پر احتجاج کرنے کی ضرورت نہیں ہے یونیورسٹیوں کے اساتذہ جب متاثر ہوں گے تو وہ خود شور مچائیں گے جب ان کے حقوق مجروح ہوں گے توان کے چیخنے چلانے مسائل حل ہوجائیں گے۔

وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئر پرسن ڈاکٹر مختار احمد نے اپنے موقف میں کہا ہے کہ غیر معیاری جرنلز ہر حال میں بند ہونے چاہئیں آخر کب تک ہم کوالٹی پر کمپرو مائز کرتے رہیں گے۔ جن پی ایچ ڈی ہولڈرز کے مقالہ جات بند کئے جانے والے جرنلز میں شائع ہوچکے ہوں گے وہ قابل قبول ہوں گے کسی کو تنگ نہیں کیا جائے گا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *