انقلاب روس کی ایک صدی کا تعلیمی خاکہ، دوسرا حصہ

  • December 3, 2017 11:00 am PST
taleemizavia single page

آصف رشید

بہت سے تجربات کے بعدسوویت سکولوں نے نظم و ضبط کا ایک نظام مرتب کیا۔ سکول کا پرنسپل اور اساتذہ نظم و ضبط کے ذمہ دار تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ والدین، بچوں اوراساتذہ کے باہمی اشتراک سے سکول کے نظم و نسق کا ایک معیار قائم کیا جاتا تھا۔ 12 سال کی عمر کے طلبہ کمیٹیاں بنا کر کلاس کے نظم و ضبط کی ذمہ داری ادا کرتے تھے۔ سکول کے فارغ اوقات میں سکول کی ملکیت کی دیکھ بھال اور پسماندہ طلبہ کی مدد کے لیے یہ کمیٹیاں اہم امور سر انجام دیتی تھیں۔ جسمانی سزا ایک جرم تصور کیا جاتا تھا۔ بہت گھمبیر صورتحال میں سکول سے نکال دینے کی سزا استعمال ہو سکتی تھی۔

جسمانی تعلیم و تربیت

جسمانی تعلیم کے لیے روزانہ ایک کلاس لی جاتی تھی۔ جبکہ جسمانی اعتبار سے کمزور بچوں کو اس سے استثنا حاصل ہوتا۔ کالجوں سے تربیت یافتہ انسٹرکٹرز کے ذریعے 15 سال تک کے بچوں کو یہ تربیت دی جاتی تھی۔ ہر بالغ ہوتے ہوئے بچے کا طبی معائنہ کیا جاتا۔ جو جسمانی اعتبار سے کمزور ہوتے یا جن کو طاقت کی ضرورت ہوتی ان کو گھر یا کسی صحت افزا مقام پر آرام کے لیے بھیج دیا جاتا۔ سکول کے بچوں کے لیے ضلعی اور قومی سطح پر کھیل کے تہواروں کا سالانہ انعقاد کیا جاتا جن میں وسیع اقسام کے کھیل کھیلے جاتے۔

ہزاروں کی تعداد میں بچے ہر سال دفاعی اور فوجی خدمات کے لیے امتحانات دیتے۔ نشانہ بازی کا کھیل بہت مشہور تھا، بہت سے بچے بہترین نشانہ باز تھے۔ 1940ء میں تعلیم سے متعلق کمیساروں کی طرف سے سکولوں میں جسمانی تعلیم کو مزید بہتر بنانے کے احکامات جاری کیے گئے کہ ہر سکول میں ایتھلیٹکس کا شعبہ لازمی ہونا چاہیے، تاکہ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کود کو بھی زیادہ وقت دیا جا سکے۔ 32 ایسے علاقائی مرکز بنائے گئے جہاں سکول کے بچوں کو کھیل کی تربیت دینے والے معاونین تیار کیے جا سکیں۔

سکول کے باہر کے اوقات

سکولوں میں پڑھائی زیادہ ترصبح کے وقت عمر کے حساب سے4 سے 6 گھنٹے کے لیے ہوتی تھی۔ سکول کے بعد ان عمارتوں کو بچوں کے سرکلز کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ان سرکلز کو منظم کرنے میں بچوں کی مدد اور حوصلہ افزائی کی جاتی۔ ان سرکلز میں ادب، ڈرامہ، پینٹنگ، سیاحت، فوٹوگرافی اور دیگر کئی مضامین شامل تھے۔ اس کے علاوہ ہر سکول کا اپنا میوزکل بینڈ اور آرکسٹرا بھی ہوتا تھا۔

صنعتی تعلیم

صنعتی تربیتی سکولوں کا ایک نظام جو براہ راست فیکٹریوں سے منسلک تھا بہت سالوں تک سوویت یونین میں کا م کرتا رہا۔ اسکی بہت زیادہ اہمیت اس لیے تھی کہ روس میں انقلاب سے پہلے بہت تھوڑی تعداد میں ہنر مند مزدور موجود تھے۔ ٹرانسپورٹ اور صنعت کی تمام شاخوں کے لیے ہنر مند مزدورں کو مفت تر بیت دی جاتی تھی۔ تربیت کے دوران طلبہ کو حکومت کی طرف سے معاوضہ بھی دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ تعلیم میں عام علوم، روسی زبان اور ادب بھی پڑھایا جاتا تھا۔

اکتوبر1940ء میں صنعت میں ہنر مند نوجوان مزدوروں کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فیکٹری تربیت اور تجارتی سکولوں کا آغاز کیا گیا۔ 14 سے 15 سال کی عمر کے نوجوانوں کو ان سکولوں میں داخل کیا گیا۔ فیکٹری سکولوں میں اس تربیت کے علاوہ 6 ماہ کا کورس بھی کروایا جاتا تھا جبکہ تجارتی سکول کا کورس دو سال پر محیط ہوتا تھا۔

صنعتی تربیت عموماً 15 سال کی عمر سے شروع ہوتی لیکن جب دس سالہ سکول کا آغاز ہو ا تو عمر کی یہ حد بڑھا کر 18 سال کر دی گئی۔

لازمی پڑھیں؛ انقلاب روس کی ایک صدی کا تعلیمی خاکہ پہلا حصہ

اس کے علاوہ بچوں اور بڑوں کو مختلف قسم کے ٹیکنیکل کورس کروانے کے لیے بہت سے ادارے اور تنظیمیں بھی موجود تھیں۔ بعض کمیسار مخصوص کالج اور سکول بھی منظم کرتے تھے۔ تقریباً ہر فیکٹری کا اپنا ایک ٹیکنیکل گروپ اور ٹیکنیکل کورسز ہوتے تھے۔ 1936ء میں تقریباً 5 لاکھ ریل کے مزدور کسی نہ کسی ٹیکنیکل کور س اور سٹڈی سرکل کا حصہ تھے۔ یہ مفت تربیتی سہولیات ہر مزدور کو اس قابل بناتی تھیں کہ وہ اپنے کام میں خلل کے بغیر ضروری تکنیکی علوم حاصل کر سکے۔

ہر صنعت میں یہ نظام کام کر رہا تھا۔ جسکی وجہ سے زیادہ قابل مزدور اس اہل تھے کے وہ مخصوص صنعتی اور تحقیقی اداروں میں بہتر تعلیم حاصل کر سکیں۔ صنعتی اکیڈمیاں 3 سے 5 سالہ کورس کرواتیں۔ ان میں سے جو بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتا اسکو کمیسار بنا کر انتظامی عہدوں پر رکھا جاتا تھا۔ ایک غیر ہنر مند مزدور بھی اگر یہ کور س کرتا تووہ بھی ایک بہترین ہنر مند مزدور بن سکتا تھا۔

ٹیکنیکل تعلیم کے کورس میں نہ صرف پیداوار کی مکمل تنظیم اور ٹیکنالوجی کا عمومی جائزہ بلکہ عام تعلیم کے ساتھ ساتھ پورے ملک کی قومی معاشی منصوبہ بندی پر بھی لیکچر شامل ہوتے تھے۔

اعلیٰ تعلیم

انقلاب روس یعنی 1917ء سے پہلے یونیورسٹی تعلیم نام نہادمہذب اور پیشہ ور طبقے تک محدود تھی۔ 91 یونیورسٹیاں تھیں جن میں لاکھ 12 ہزار طلبہ زیرتعلیم تھے۔ 1940ء میں 700 یونیورسٹیاں تھیں جن میں طلبہ کی تعداد 6 لاکھ 50 ہزار تھی۔ سوویت یونین کی زیادہ پسماندہ اقوام میں یہ اضافہ زیادہ تیزی سے ہوا تھا۔ بوسنیا ‘ جہاں پہلے ایک بھی یونیورسٹی نہیں تھی اب وہاں 22 یونیورسٹیاں تھیں، آذربائیجان میں13 اور ازبکستان میں 30۔ ان دونوں ملکوں کا تعلق ایشائی روس سے تھا۔ طالبات کی تعداد کل تعداد کا 47 فیصد ہو چکی تھی۔ سوویت یونین میں چار قسم کی بڑی یونیورسٹیاں تھیں۔

بڑے شہروں میں 30 یونیورسٹیاں تھیں جن میں سے ہر یونیورسٹی میں بے شمار علوم پڑھائے جاتے تھے اعلیٰ تعلیمی ادارے جو کہ یونیورسٹی معیار کی تعلیم ایک ہی قسم کے شعبے میں دیتے تھے۔ سپیشل صنعتی درسگاہیں جو صنعتی مزدوروں کو یونیورسٹی معیار کی نظریاتی تعلیم اور عملی تربیت دیتی تھیں۔ دیگر سپیشل ادارے جو کہ اساتذہ، زرعی ماہرین، وکلا، گلوکاروں، فنکاروں، ادیبوں، اداکاروں، ہدایتکاروں اور فیزیکل ایجوکیشن والوں کو تربیت دیتے تھے۔

یونیورسٹی میں داخلہ قابلیت کی بنیاد پر ملتا تھا۔ قابل طلبہ کو وظائف دیئے جاتے تھے جو کہ تعلیم کے دوران ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوتے تھے۔ وظائف حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے یونیورسٹی میں تعلیم مفت تھی۔ دیگر بہت سی مفت اور سستی سہولیات کے ذریعے بھی طلبہ کی مالی معاونت کی جاتی تھی۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں طلبہ کو سفر کے دوران ریلوے کے کرایوں میں بھی بہت چھوٹ دی جاتی تھی۔ بہت سے شہروں میں یونیورسٹی ٹاؤن موجود تھے جو تمام طلبہ کی تعلیمی اور ذاتی ضروریات پوری کرتے جہاں لائبریریاں، ریستوران اور مفت لانڈری کی سہولتیں موجود تھیں۔

طلبہ کو شادی کرنے کی ممانعت نہیں تھی۔ بہت سے طلبہ شادی شدہ تھے اور انکے بچے بھی تھے۔ یونیورسٹی میں طلبہ کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے فیکٹریوں کی طرح نرسریاں موجود تھیں۔ ہر یونیورسٹی کا اپنا طبی عملہ، معالج خانہ اور آرام گھرہوتا۔ یونیورسٹی ہاسٹلوں میں سنگل کواٹر کے ساتھ ساتھ شادی شدہ جوڑے کے لیے بھی کواٹر موجود تھے۔ مختلف قسم کے کلب یونیورسٹی میں ہی بنائے جاتے اور کھیلوں کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔

سوویت یونین میں یونیورسٹی تعلیم کا مقصد بھی آل راؤنڈ اورحقیقی زندگی سے بہت قریبی تھا۔ سپیشل کورسزکے طلبہ کو بھی تاریخ، معاشیات اور سیاسی نظریات پر لیکچر دئیے جاتے۔ آدھے سے بھی کم وقت لیکچر کے لیے مختص ہوتا جبکہ زیادہ وقت بحث ومباحث کے لیے وقف کیاجاتا، جسے نصابی کورس کے متوازی چلایا جاتا تھا۔ عام نصاب پانچ سال تک جاری رہتا، انفرادی مطالعہ اور عملی کام کے لیے زیادہ وقت اور اس پر زیادہ زور بھی دیاجاتا تھا۔ سوویت یونین کے کسی بھی سکول یا کالج میں کسی قسم کی مذہبی تعلیم نہیں دی جاتی تھی اور نہ ہی کسی قسم کی مذہبی عبادت کی جاتی تھیں جیسے کہ سکولوں میں صبح کی دعا ہوتی ہے۔ تمام مضامین مادی اور سائنسی نقطہ نظر سے پڑھائے جاتے تھے۔

سوویت طلبہ کو یونیورسٹی سے فارغ ہونے سے چھ ماہ پہلے ہی اس بات کا یقین ہوتا تھا کہ ان کو ملازمت مل جائے گی۔ پورے ملک کی اقتصادی و معاشی زندگی میں ہونے والے پھیلاؤ کی وجہ سے تربیت یافتہ ٹیکنیکل ماہرین اور اساتذہ کی طلب بہت زیادہ تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ عمومی ثقافتی ضروریات ایسی تھیں کہ فن، ادب اور اداکاری کے طلبہ کے لیے بھی یقینی مواقع موجود ہوتے۔ اس کے علاوہ ریگولر یونیورسٹی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہر سال 2 لاکھ سے زیادہ لوگ خط و کتابت کے نظام کے ذریعے اعلیٰ تعلیم سے وابستہ تھے جو کہ یونیورسٹی تعلیم کے مساوی تھی۔ کئی ہزار طلبہ شام کے اوقات میں چلنے والے تعلیمی اداروں میں حصہ لیتے تھے۔ خط وکتابت کے ذریعے تعلیم کے علاوہ تقریباً تمام یونیورسٹیاں پارٹ ٹائم پڑھنے والوں کے لیے بھی کورسز کرواتیں۔

تعلیم بالغاں

سوویت یونین کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ طلبہ کی قوم ہے۔ بالغ آبادی میں سے ناخواندگی کے خاتمے کے لیے نئی نسل کی تعلیم کے ذریعے ایک مہم کا آغاز کیا گیا۔ وسیع پیمانے پر بالغ آبادی کی تعلیم کو فیکٹریوں اور بحث ومباحث، سٹڈی سرکل، وائرلیس، پریس، سینما، تھیٹر اور پوسٹروں کے ذریعے ممکن بنایا گیا۔ جو لوگ باقاعدہ تعلیم کی خواہش رکھتے تھے وہ خط وکتابت کے ذریعے یا شام کے وقت چلنے والے سکولوں میں جا سکتے تھے۔ وہ عمومی ثقافتی مضامین، مشاغل یا اپنے کام سے متعلق دوسرے ٹیکنیکل کورسز کر سکتے تھے۔

کلبوں کی بہت بڑی تعدادتعلیم اور تخلیقی کا م کے مراکزکے طور پر تمام بڑے قصبوں میں موجودتھیں جنہیں ’Palaces of Culture‘ کہا جاتا۔ ان کلبوں میں تھیٹر، سینما، لائبریری، میوزک، سٹڈی اور ورزش وغیرہ کی تمام سہولتیں موجود تھیں۔ اسی طرح کی سہولتوں سے مزین مشہور ثقافتی پارک اور آرام گاہیں تھیں جہاں اوپن ایئر تھیٹراور سٹیج ڈرامے ہوتے تھے۔ سوویت تھیٹر میں اوپرا اور بیلٹ، کلاسیکی روس اور بیرون ممالک کی پینٹنگز اور بہت ہی مشہور جدید فنکاروں کے اعلیٰ فن پارے موجود ہوتے تھے۔ غیر روسی جمہوریائیں جو انقلاب سے پہلے بہت ہی پسماندہ تھیں ان میں ثقافت کی نئی تجدید بہت متاثر کن تھی۔ 1917ء کے انقلاب کے بعد ثقافتی ترقی پر بہت توجہ دی گئی۔ 1913ء میں تھیٹروں کی تعداد 153 تھی جو بڑھ کر 1940ء میں 825 ہو گی۔ اسی طرح اس عرصے میں کلبوں کی تعداد 222 سے بڑھ کر 1 لاکھ تک پہنچ گئی اور لائبریریوں کی تعدا 12 ہزار 6 سو سے بڑھ کر 70 ہزار ہو گئی تھی۔

بالغاں کی تعلیم نے ایک قسم کی اتوار یونیورسٹی کی شکل اختیار کر لی جہاں لوگ فارغ دنوں میں پڑھتے اور لیکچر لیتے تھے۔ اس کے علاوہ والدین کو بچوں کی دیکھ بھال کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔

ثقافتی تعلیم کے لیے سینما ایک بہت مفید ذریعے کے طور پر استعمال ہوتاتھا۔ فلمی صنعت نے 1917ء کے بعد سے بہت ترقی کی۔ سوویت ہدایت کا ر’ آئیسن سٹین ‘دنیا بھر میں مشہورہوئے۔ سفری سینما کے استعمال سے فلم کو سائبیریا کے کھیتوں، جنگلوں اورشمال میں قازقستان جہاں قدیم کسان ابھی تک اپنا کام کتوں اور رینڈیروں کے ذریعے کرتے تھے، تک لے جایاگیا۔ بہت سے سٹوڈیو صرف بچوں اور نوجوانوں کے لیے فلمیں بنانے کی مہارت رکھتے تھے۔

بالغان کی تعلیم کا ایک اور بہت طاقت ور مرکز سرخ فوج تھی۔ ہر صحت مند نوجوان کم از کم دو سال فوج میں اپنی خدمات سر انجام دیتا تھا۔ امن کے ادوار میں ہر فوجی آدھے سے زیادہ وقت پڑھائی میں صرف کرتا تھا۔ ان کو نہ صر ف ملٹری سے متعلق بلکہ فن، میوزک، ڈرامہ، ادب اور سائنس کی تعلیم دی جاتی تھی۔ سرخ فوج ویسی ہی سہولیات مہیا کرتی تھی جیسی کلبوں یا پیلس میں مہیا کی جاتی تھیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *