نصابی کتابیں کیسے نفرت سیکھاتی ہیں؟

  • October 22, 2016 10:34 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر مبارک علی

پاکستان میں جب ہم تاریخ اور معاشرتی علوم کی نصابی کتابوں کاتجزیہ کرتے ہیں تو ان میں ایک تو مذہب کا عنصر بہت نمایاں نظر آتا ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے مسلمان دوسری اقوام سے نہ صرف مختلف ہیں بلکہ دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ روادار، انسانیت کے محافظ اور سچائی کا ماننے والے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی جہاد کے بارے میں یہ تصور دلایا جاتا ہے کہ اس کے ذریعہ سے ہی دُنیا کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

اتحاد اور تنظیم کے لیے ضروری ہے کسی ایک اتھارٹی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی اطاعت و فرماں برداری کی جائے۔

اہم سبق جو تاریخ اور سماجی علوم کے لیے ذریعہ دیاجاتا ہے وہ یہ کہ تاریخ بدلنے کا کام شخصیتیں کرتی ہیں، عوام محض ان کی پیروی کرتے ہیں۔ اس لیے جب بھی حالات خراب ہوں، تو کسی شخصیت کا انتظار کرنا چاہیے۔

اس خطے کی تقسیم سے متعلق ہماری درسی کتابوں کا نقطء نظر یہ ہے کہ یہ ایک بڑا کارنامہ ہے جسے انگریزوں اور ہندوؤں کی مخالفت کے باوجود کامیابی کے ساتھ پورا کیا گیا ہے۔

خصوصیت سے ان میں ہندو دُشمنی کا عنصرحاوی ہے اور انگریزوں سے زیادہ ان کو مسلمانوں کا دشمن بتایا گیا ہے۔ لہذا پاکستان کی تشکیل میں اسلامی نظریہ اور دو قومی نظریہ یہ دو اہم عناصر ہیں جو اس کی علیحدہ شناخت کو بنائے ہوئے ہیں۔

انگریزوں اور ہندوؤں کے بارے میں “تحریک پاکستان اور اس کا پس منظر” جس کے مصنف سید اصغر علی شاہ جعفری ہیں، یہ کتاب ایورنیو بک پیلس لاہور نے شائع کی ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں؛

تشکیل پاکستان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انگریز کی مکاری اور ہندو کی ہٹ دھرمی تھی انگریز اول تو اس برصغیر کو چھوڑنا ہی نہیں چاہتا تھا اور جب حالات نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ اس ملک سے نکل ہی جائے تو اس کے دماغ میں سب سے زیادہ انتقامی جذبہ مسلمان کے خلاف اُبھرا۔ کیونکہ وہ خود غیر مسلم تھے اور فطری طور پر اس کی ہمدردیاں غیر مسلم یعنی ہندو کے ساتھ وابستہ تھیں۔ اس جذبہ کے تحت وہ ہندو نواز رہا، ان لوگوں نے لاکھ جتن کیے، متعدد رکاوٹیں ڈالیں لیکن پاکستان بننا تھاوہ بن کر رہا۔

نذیر احمد تشنہ کی کتاب “تاریخ پاکستان” جو مجید بک ڈپو لاہور نے شائع کی اس میں لکھا ہے کہ؛

ہندوؤں نے انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے سفر میں تنگ نظری اور تعصب کا مظاہرہ کیا اس سے سر سید احمد خاں، مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال اور قائد اعظم اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان سادہ جمہوریت کے ذریعہ ہندو کی غلامی میں چلے جائیں گے۔ ہندو اپنے اقتدار کے ذریعے مسلمانوں کی تاریخ، ثقافت، زبان اور مذہب کو مٹا کر انہیں ہندوستان سے ناپید کر دے گا۔ مسلمانوں کو اپنی بقاء کا خطرہ لاحق تھا۔ اس بقاء کے جذبہ کے تحت وہ اپنے سے چار گنا ہندو سے ٹکرائے اور ایک بڑی طاقت انگریز سے مقابلہ کر کے پاکستان حاصل کیا۔ اس بقاء کے جذبہ کا فہم نظریہ پاکستان کہلایا۔

خاص بات یہ ہے کہ ہندوؤں کے خلاف جذبات ان خدشات کے تحت تھے جو مستقبل میں آسکتے تھے۔ مثلا یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ ہندو اقتدار میں آکر مسلمانوں کو نیست و نابود کر دیں گے۔ لہذا دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی تحریک مستقبل کے خدشات پر تھی نہ کہ ماضی میں ہونے والی شکایات پر۔

خصوصیت کے ساتھ سکولوں کی نصابی کتب میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے اختلافات کو پوری طرح اُبھارا گیا ہے۔ مثلا سندھ میں پانچوویں جماعت کی معاشرتی علوم کی کتاب میں لکھا ہے؛

ہندوؤں اور مسلمانوں میں بڑے اختلافات تھے۔ مسلمان ایک خدا کو مانتے تھے، جبکہ بُت پرستی یا خدا کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کے سخت مخالف تھے۔ ہندو بہت سے دیوتاؤں پر ایمان رکھتے اور بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں چھوٹے بڑے یا امیر و غریب میں کوئی فرق نہیں مانا جاتا۔ کیونکہ مسلمان آپس میں برابر ہیں اس کے برخلاف ہندوؤں میں علیحدہ علیحدہ چار ذاتیں تھیں، نیچی ذات والے ہندو اُونچی ذات والوں کے ساتھ نہ بیٹھ سکتے تھے اور نہ کھا سکتے تھے اور نہ ہی انہیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی۔

اسی کتاب میں آگے چل کرلکھا ہے کہ؛

مسلمان اور ہندوؤں کے رہن سہن کے طریقوں، لباس، زبان اور خوراک میں بھی فرق تھا دونوں قوموں کے تہوار علیحدہ علیحدہ تھے، تاریخ اور تہذیب بھی جدا تھی۔ ہندو طرز تعمیر سے متعلق اس کتاب میں لکھا ہے کہ؛

ہندوؤں کا طرز تعمیر پرانا تھا، ان کے مکانات میں محراب نہیں ہوتے تھے، نہ ہی گنبد یا مینار بنائے جاتے تھے جبکہ ہندوؤں کا اپنا لباس دھوتی تھا، ایک بغیر سلا ہوا کپڑا بدن کے چاروں طرف لپیٹ لیتے تھے، مگر رفتہ رفتہ پاجامہ، شلوار کا رواج ہوگیا۔ ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کی رسم، مکان کی وہ تقسیم جس میں ملاقات کے لیے عورتوں اور مردوں کے لیے علیحدہ حصہ ہوتا ہے، تعلیم حاصل کرنے کا حق یہ ساری باتیں جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کے ساتھ آئیں۔

نصاب کی کتابوں کی ان تحریروں سے نوجوان نسل کے ذہن میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ پاکستان اسلام کے لیے بنایا گیا تھا اس لیے یہاں پر اسلامی نظام کا نفاذ ہونا چاہیے۔ اس سے فائدہ اُٹھا کر حکمران کبھی نظام مصطفیٰ کا نعرہ لگاتے ہیں اور کبھی شریعت محمدی کا، مذہب کے اس استعمال کی وجہ سے سیاسی شعور پس منظر میں چلا گیا ہے اور مذہبی تنگ نظری ذہنوں پر غالب آئی ہے۔

اور یہی مذہیب تنگ نظری ہے جو دلیل اور عقل کے بجائے تشدد کے ذریعہ مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہتی ہے۔ لوگوں کے ذہن میں جہاد کا ایک ہی تصور ہے اور وہ جدال و قتال سے ہے۔

دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہندو دشمنی کی جو عمارت تعمیر کی گئی ہے اس میں ہندوؤں میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی ہے وہ دشمن کے روپ میں نظر آتا ہے۔ اس وجہ سے معاشرے میں فرقہ واریت کے جذبات اُبھرتے ہیں اور جب دو قوموں میں اس قدر فرق کر دیا جائے کہ ان میں ملنے جُلنے اور یگانگت کے کوئی راستے ہی نہ رہیں تو اس سے ذہن مین نفرت کے جذبات اُبھرتے ہیں۔

انتقام، جنگ و جدل، خون ریزی اور دُشمنی اس قدر گہری ہوجاتی ہے کہ وہ مصالحت، امن، دوستی اور آشتی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا ہے۔ یہ نفرت ہندو اور مسلمان ہی کی نہیں رہتی ہے بلکہ فرق کی وجہ سے یہ مسلمان فرقوں کے درمیان بھی پیدا ہوجاتی ہے، جیسے شیعہ و سُنی، یا قادیانوں کے خلاف جذبات، اس کا اظہار بھی تشدد اور قتل و خون ریزی سے ہوتا ہے۔

جب تاریخ کو شخصیتوں سے منسوب کر دیاجائے تو پھر عوام کی جدوجہد، قربانی اور ان کا کردار غائب ہوجاتا ہے۔ لوگ خود پر بھروسہ کرنے کے بجائے کسی کا انتظار کرتے ہیں اس کی وجہ سے آمر و ڈکٹیٹر اقتدار میں آکر لوگوں میں مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت جو تاریخ لکھی جارہی ہے و اسی تنگ نظری اور انتہا پسند نقطء نظر سے لکھی جارہی ہے۔ یہ وہ نقطء نظر ہے جو ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے تعلقات میں زبردست رکاوٹ پیدا کر رہا ہے۔

موجودہ صورتحال میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں تاریخ کو مذہبی و سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی غرض سے اسے مسخ کیا جارہا ہے۔

اگر دونوں ملکوں کی نصاب کی کتابوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ دونوں تاریخ کو مسخ کر کے ایک دوسرے کے نقطء نظر کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔ مثلا اگر ہندوستان میں یہ ثابت کیا جائے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے غیر ملکی ہیں اس وجہ سے اس سرزمین پر ان کا حق نہیں۔ تو یہ دلیل دو قومی نظریہ کو ثابت کرے گی اور مسلمانوں کی علیحدگی اور ملک کی تقسیم کا جواز پیدا کرے گی۔

اس نقطء نظر کے تحت مسلمان حکمران اور اُن کا دور حکومت غاصبانہ ہوگا اور اُنہوں نے ہندوستان کی تہذیب میں جو حصہ ڈالا اس کی نفی ہوجائے گی۔

اگر تاریخی طور پر بار بار اس بات کو دہرایا جائے کہ مسلمان فاتح تھے اور اُنہوں نے ہزار سال ہندوؤں کو غلام رکھا تو اس کا رد عمل یہی ہوگا کہ اب ہندو فاتح ہیں اور مسلمانوں کو ان کا تابع ہوکر رہنا ہوگا۔

تاریخ کے ذریعے اگر صرف فرق کو قائم کیا جائے اور ایک دوسرے کے اختلافات کو بیان کیا جائے تو یہ فرق نفرت اور دُشمنی پیدا کرتا ہے اور اس کا نتیجہ فرقہ واریت، فسادات اور جنگوں کی صورت میں نکلتا ہے۔


mubarak-ali

ڈاکٹر مبارک علی تاریخ دان اور نقاد ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی سیاسی و سماجی تاریخ پر اُن کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔

  1. تو اس کا حل کیا ہے؟اگر یہ سب نا پڑھایا جاءے تو اپنی تاریخ اور اپنی اسلامی اقدار کو مسخ کرنے کے مترادف ہو گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *