شاہ عبد الرحیم رائپوری پر انقلابی کتاب

  • January 31, 2017 3:49 pm PST
taleemizavia single page

اکرم سومرو

بر عظیم پاک و ہند وہ عظمیم خطہ سر زمیں ہے کہ جسے قدرت نے مادی نعتوں سے سرفراز فرمایا ہے یہ خطہ ہزار سال سے تہذیب و تمدن کا مرکز بھی ہے۔ اس خطے میں وہ تمام تر قدرتی وسائل موجود ہیں جو انسانی سماج کے تعمیر و تشکیل کے لیے معاون مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

اولیا اللہ، بزرگان دین، اور علماء حق کے تاریخی کردار نے اس خطے کی سماجی ترقی میں ہمیشہ حصہ ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر چاروں سلاسل صوفیا و تصوف نقسبندیہ، سہروردیہ، قادریہ اور چشتیہ سلسلہ کے عظیم بزرگوں نے انسانی قلوب کو دین اسلام کے پیغام سے منور و روشن کیا ہے۔

مسلم دور حکومت کی اصل طاقت اور ووٹ بینک ہمیشہ انہی بزرگوں کی محنت اور اخلاص کی بنیاد پر آگے بڑھا ہے۔ جب تک یہاں کہ حکمران سچے اولیا اللہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خدمت انسانیت کے جذبہ کے تحت یہاں حکومت کرتے رہے اس وقت تک ان کا اقتدار یہاں پر قایم رہا۔ جب اس تعلق میں کمزور ی اور انسانی خدمت کی جگہ ذاتی مفادات کا حصول بنا تو اقتدار بھی ہاتھوں سے گیا اور اپنی شناخت بھی چھین لی گئی۔

اس صورتحال سے دوچار ہونے کے باوجود اولیاء اللہ اور بزرگان دین نے مایوس ہونے کی بجائے انسانی سماج کی ترقی میں ہمیشہ موثر کردار نبھایا۔

مغل حکمران اورنگزیب عالمگیر کی وفات سے تین سال قبل برصغیر میں شاہ ولی اللہ کی پیدائش ہوئی جو بعد میں جلیل القدر فقہی، عالم دین، صوفی، محقق، مجدد اور انقلابی رہنما کے طور پر ناقابل فراموش خدمات اور انمنٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

مسلمانوں کی سیاسی حکومت کو زوال اور انگریزسامراج کے بڑھتے کنٹرول کے پیش نظر شاہ ولی اللہ نے یہاں کے سیاسی نظام کو بدلنے کیلئے فک کل نظام کا نظریہ پیش کیا یہ نظریہ دین کی جامعیت اور قرآن و سُنت کے نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے دیا۔ محض نظریہ الفاظ تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نظریہ پر تصنیف و تالیف کے ساتھ اس نظریہ پر جماعت بندی بھی کی۔

اس نظریہ کو بعد میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فرزند اور تحریک آزادی کے مرکزی رہنما شاہ عبد العزیز نے آگے پھیلایا۔ جب مسلمانوں کی سیاسی حکومت کا مرکز دہلی کمزور پڑا، تو شاہ عبد العزیز نے فتویٰ دار الحرب کے ذریعہ یہاں کے باشندوں کے سیاسی شعور کو بیدار کیا کہ اب انگریز سامراج کے خلاف شعور اور نظام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی جدوجہد کا وقت ہے۔

یہ نظریاتی و سیاسی کام صرف شاہ عبد العزیز تک محدود نہیں رہا بلکہ اگلے مرحلے میں دہلی میں شاہ اسحاق نے سر انجام دیا اور اس فکر کے پھیلاؤ میں باقاعدہ عملی کام کیا۔ دوسری جانب اس فکر پر بالا کوٹ میں سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید کی شہادت ہوئی۔

یہ فتویٰ دار الحرب کے نتیجے میں پیدا ہونے والا سیاسی شعور ہی تھا جو 1831ء میں معرکہ بالاکوٹ میں اس فکر کی مرکزی قیادت کی شہادت کے بعد بھی بڑھتا چلا گیا۔ پھر اگلے درجے میں مکہ مکرمہ سے واپس آکر امداد اللہ مہاجر مکی عملی جدوجہد میں حصہ لیتے ہیں بلکہ 26 سال بعد جنگ آزادی میں اس خطے کے تمام مذاہب کے لوگوں نے مل کر انگریز کے خلاف جنگ لڑی جس میں مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی جیسے بزرگان دین بھی عملی طور پر شریک تھے۔

اس خطے کو انگریز کے سیاسی تسلط سے نجات دلانے کے لیےفتوی دارالحرب ہو، جہاد بالا کوٹ ہو یا پھر شاملی کے میدان سے لے کر دارالعلوم دیوبند کے قیام کی بات ہو کتنے ہی تحریک آزادی کی بڑی بڑی شخصیات ہیں جنہوں نے پوری ہمت ، جرات، دلیری، جوانمردی، بصیرت ، اور للہیت کے جذبے کے تحت اس خطے کی عوام کو جگانے کی کوشش کی۔

اس تحریک آزادی کے اگلے دور میں رائپور میں شاہ عبد الرحیم رائپوری خانقاہ عالیہ کے توسط سے نظریاتی و فکری کام پر کام کرتے ہیں۔ شاہ عبد الرحیم رائپوری کی شخصیت تصوف، شریعت، طریقت اور سیاست سے مزین تھی۔

جنگ آزادی کے بعد انگریز نے باقاعدہ طور پر پورے ہندوستان پر اپنی سیاسی حکومت کا اعلان کر دیا اور یہاں کے سیاسی معاملات کمپنی سے لے کر تاج برطانیہ کے ماتحت کر دیے گئے جس کے بعد عام ہندستانی عمومی درجے میں انگریز کے خلاف بولنے سے خوفزدہ ہو گیا تھا، حتیٰ کہ مائیں اپنے بچوں کو انگریز کے نام سے ڈرانے لگیں۔

شاہ عبد الرحیم رائپوری کی شخصیت کی تاریخی خدمات تاریخ کے جھروکوں میں دھندلا گئیں، یہاں کی نصابی کتب میں جہاں دیگر تحریک آزادی کی شخصیات کی خدمات کو فراموش کیا گیا بالکل ویسے ہی شاہ عبد الرحیم رائپوری کی شخصیت سے انصاف نہیں کیا گیا۔

خانقاہ رائپور کے موجودہ مسند نشین اور رحیمیہ انسٹیٹیوٹ آف قرانک سائنسز لاہور کے ڈائریکٹر جنرل مفتی عبد الخالق آزاد نے سوانح شاہ عبد الرحیم رائپوری لکھی ہے تحقیق پر مبنی اس کتاب کی تقریب بھی قائد اعظم لائبریری لاہور کے تاریخی ہال میں منعقد ہوئی۔ یہ وہی ہال ہے جہاں پر وائسرائے ہند اور گورنر پنجاب نے جنگ آزادی کے بعد فتح کے جشن کی محفل منعقد کی تھی۔ آج 160 سال بعد اسی ہال میں انگریزوں کے خلاف مزاحمتی کردار نبھانے والی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

اسی تقریب میں مجھے زبردست احساس ہوا کہ پاکستانی نظام تعلیم نے تحریک آزادی کے سچے رہنماؤں جنہوں نے انگریزوں کے خلاف ہر محاذ پر مقابلہ کیا ان کا تعارف تک پیش نہیں کرتا اگر ایسا کیا جاتا تو شاید تقسیم ہند کے بعد ہمیں آزادی کے پورے ثمرات میسرآجاتے۔

مصنف مفتی عبد الخالق آزاد نے تو دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کو فرقہ وارانہ نہیں بلکہ وحدت فکر کی ضرورت ہے جس کی بنیاد انسان کی ترقی ہو۔ شاہ عبد الرحیم رائپوری کی وفات کو ایک صدی گزر گئی، دین اسلام کی سیاسی تحریک پر محقیقین نے جانبداری سے کام لیا یہی وجہ ہے کہ اُن کی خدمات پر کوئی جامع کتاب ہی نہ لکھی گئی۔

یہ شاہ عبد الرحیم ہی تھے جنہوں نے آزادی کی تحریک کے اس کٹھن مرحلے میں انگریز سرکار کے خلاف ہندستان کے مسلمانوں کو انسانیت اور خود دار قومیت کی بنیاد پر جدوجہد پر آمادہ کیا۔

میکالے فلسفہ کی بنیاد پر قائم تعلیمی ڈھانچہ تو ہمیں تصوف اور صوفی کے اصل کردار سے بھی روشناس نہیں کراتا اور شاہ عبد الرحیم جیسے صوفی بزرگ کی شخصیت کا تعارف کرانے کی بجائے صوفیت کے تنہائی پر مبنی فلسفہ کو پیش کیا جاتا ہے تاکہ نظام ظلم کے خلاف حق شناس شخصیات کے نظریات کو نہ پنپنے دیا جائے۔

فکر ولی اللہی کے جانشینوں کا تو یہ شیوہ رہا کہ وہ حق پر لڑے اور ظلم کے خلاف عملی جدوجہد کی۔ اس خطے میں انگریز کے خلاف تعلیمی مزاحمت کیلئے دیوبند میں مدرسہ کا قیام ہو، تحریک ریشمی رومال ہو یا پھر اس مدرسہ کے پہلے شاگرد محمود الحسن المعروف شیخ الہند ہوں یا پھر شیخ الہند کے شاگرد عبید اللہ سندھی ہوں یہ تحریک آزادی کی قد آور شخصیات نے ہمیشہ انگریز تسلط کے خلاف عملی کام کیا۔

شاہ عبد الرحیم رائپوری کی جدوجہد تو سیاست معیشت اور مذہب کی بنیاد پر جامع دینی جدوجہد تھی، انگریزوں نے مسلمانوں کی عبادات پر پاپندی عائد نہیں کی لیکن انہیں سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر غلام بنایا تو شاہ عبد الرحیم نے رائپور سے فکر ولی اللہی کے کام کو اگلے مرحلے میں داخل کیا اور ہندوستانیوں میں سیاسی و دینی فرائض کا شعور بیدار کیا۔

شاہ عبدالرحیم رائپوری نے تو فرمایا تھا کہ تصوف کا ابتدائی درجہ تصحیح نیت ہے اور اعلی درجہ دینی فقاہت ہے، اُنہوں نے یورپ کے مونٹیسوری کے تعلیمی تصورسے بہت پہلے مکاتیب قرآنیہ کے قیام کا سلسلہ پورے برصغیر میں شروع کرایا اور تصور پیش کیا کہ مسلمان بچوں کی تعلیم کا آغاز قرآن کی تعلیم سے ہونا چاہیے۔

دراصل شاہ عبد الرحیم رائپوری نے انگریز کے خلاف مزاحمتی سوچ کو ترویج دیا۔ اس خطے میں انگریز نے دو مسئلے پیدا کیے ایک طرف تو اس نے ہمیں غلام بنایا اور دوسرا ہمارے مذہب اور ہماری تاریخ کو بگاڑنے کی کوشش کی لیکن خانقاہ رائپور سے چلنے والی تحریک نے انگریز کو اپنے اس مشن میں پوری کامیابی نہیں ہونے دی۔

مفتی عبد الخالق آزاد کے بقول یہ جھوٹ کا نہیں دجل کا دور ہے۔ گویا شریعت کے نام پر عدم برداشت اور فتوی بازی، تصوف کے نام پر بے عملی ، سیاست ے نام پر مفاد پرسی و گروہیت پروان چڑھی۔ پاکستان کے نوجوان کو اس وقت تحریک آزادی کے رہنماؤوں سے تعارف حاصل کرنے اور ملک میں رائج غلامی کے نظام کو سمجھنے کے لیے ان شخصیات کا مطالعہ کرنا ہوگا تاکہ وہ دُشمن کی پہچان کر سکیں۔


akram-soomro-2

محمد اکرم سومرو میڈیا اسٹڈیز کے اُستاد ہیں وہ آج کل لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف کیمونیکیشن اسٹڈیز میں تعینات ہیں، وہ شعور کے ساتھ تنقیدی سوچ پر یقین رکھتے ہیں۔

  1. آپ کا مضمون بہت ہی اچھا ہے اگر اس تعارف میں آپ ان کی زندگی کی ہلکی سی جھلک بھی متعارف کروا دیتے تو کتاب پرھنے کا شوق اور بڑھ جاتا۔

  2. بہت خوب لکھا ہے۔ کتاب کے تعارف میں اتنی تاریخ سما گئی ہے تو خود کتاب کیا ہوگی۔ اب کتاب کو بھی ضرور پڑھا جائے گا۔

  3. شکریہ جناب نفیس صاحب اور جناب حسن جمیل صاحب . انشا اللہ اگلی دفعہ کوشش کریں گے اس کمی کو پورا کرنے کی.

  4. اسلام علیکم،
    ماشااللّٰہ نہ ہے خوب لکھا ہے، ہمارے معاشرے میں انکے تعارف کی بہت ضرورت ہے اور نوجوان نسل میں اسلام کے مکمل شعور اس کے فکری معاشی، سماجی اور سیاسی نظام کی مکمل تعلیم کے ذریعہ سے ہی معاشرہ میں موجود شدت پسندی، فرقہ واریت اور شخصیت پرستی انفرادیت سے نکال کر اجتماعی سورج پیدا کرنے کی ضرورت ہے ،

  5. very nice and informative. May we all learn about our true leaders and follow their path to change this system.

    1. It is great effort to recognize our real National Hero’s, who have serve their lives for providing guidance in the light of Islamic prospective according to best possible contextual need of society.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *