بل گیٹس کی دوبارہ طالبعلم بننے کی خواہش؟

  • December 10, 2016 4:15 pm PST
taleemizavia single page

ترجمہ رملہ ثاقب / بل گیٹس

کیمپس کے دورے کے دوران میں دنگ رہ گیا کے کال ٹیک جیسے ادارے کا طالب علم ہونا کتنی زبردست بات ہے انجینرنگ، بائیولوجی، کیمسٹری، کمپیوٹر سائنس سے لے کر ہر شعبے میں غیر معمولی تحقیق کی جا رہی ہے تا کہ صحت کو بہتر بنایا جائے، توانائی کے نئے ذرائع تلاش ہوں اور دنیا کو رہنے کے لیے بہتر جگہ بنایا جا سکے۔

ہم سب پھر سے نوجوان بننا چاہتے ہیں لیکن میں شازوناذر ہی اس کا خواہش مند ہوتا ہوں جیسے میں اپنے کالج کال ٹیک کے دورے کے دوران ہوا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ امریکی شہری ہیں تو آپ کیمپس کے ناقابل یقین منصوبوں کے لیے خود کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں۔ اور یہ سب آپکے دئیے ہو ئے ٹیکس کی بدولت ہے اور اس سے ان کو بہت فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔

لوگوں کا خیال یہ ہے کہ امریکہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر بہت زیادہ خرچہ کر رہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ قومی آمدنی کا صرف ایک فیصد ہی خرچ کر رہے ہیں۔

حکومت کی مدد سے یونیورسٹیوں اور لیبارٹریوں میں ہونے والی تحقیقات نئے خیالات اور ٹیکنالوجی کی طرف لے کر جا رہی ہے جو روزگار کے مواقع پیدا کرے گی ارو مجمعوی طور پر معیشت کو مضبوط کرے گی۔

یہ تمام بڑی دریافتیں اور ایجادات جنہوں نے ہماری تمام زندگیاں بدل دی ہیں اکثر کسی لیباٹری میں ہونے والے تجربات کا نتیجہ ہوتی ہیں یا استاد کے کیے گئے سوال کے نتیجے میں طلبہ کے جوابات کی بدولت ہوتا ہے۔

نیا خیال نازک چیز ہوتی ہے۔ اس کی پرورش کے لئے اتحادیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور گورنمنٹ آر اینڈ ڈی کی سرمایہ کاری اس کو تعاون فراہم کرتی ہے۔اس کے بغیر ہم چند سائنسی ایجادات ہی کرسکتے ہیں۔

یہ کیوں ضروری ہے اس بات کی اہمیت چند مثالوں سے بتائی جا سکتی ہے۔

کال ٹیک کے دورے کے دوران کچھ حیرت انگیز تحققیات جو میں نے دیکھی ان میں سےایک سے ایک پاکستان میں ہونےوالی نیورو ڈیجنریٹو بیماریوں جیسے الزائمر کے علاج کے متعلق تھی۔ ان تمام تحقیقات کے لئے حکومت کی طرف سے فنڈز دئیے جاتے ہیں۔

ہمارے پاس فی الوقت ان بیماریوں سے لڑنے کے لیئے کوئی اثر انداز علاج موجود نہیں ہے لیکن کال ٹیک میں اس وقت دو تحقیقات اس بیماری کے علاج کے لئے کام کر رہے ہیں۔ بائیولوجی کے پروفیسر بروس نے اپنی ریسرچ کے ذریعے الزائمر کے بڑھتے اثرات کی خستہ گھڑی کو روکنے کی امید دکھائی ہے۔

بروس کی تحقیق بڑھتی عمر میں مائٹوکونڈریا اور مائٹوکانڈریل ڈی این اے کے کردار پر مرکوز ہے۔ مائٹو کانڈریل سیل ہمارے کھانے کی کیمیائی توانائی کو اے ٹی پی میں تبدیل کرتی ہے۔

بروس کا مقصد مائٹوکانڈریا سیل کو میوٹیڈ ہونے سے روک کر ہمیں جوان رکھنا ہے۔

ہمارے جسم میں ان میوتیڈ سیل کو خارج کرنے کے لیے نظام موجود ہے پر یہ ناکافی ہے۔ بروس ان کو خارج کرنے کے طریقے ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ مستقبل میں ایسے دن کا خواہش مند ہے جب لوگ سپا جا کر ان کو جارج کروائیں گے اور جوان محسوس کریں گے۔اس کا خیال ہے کہ ہم سب کو ایسے فعل کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

میں بائیولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر وویانا سے ملا جو دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھنے کے لئے نئے آلات اور طریقے دریافت کر رہی ہیں۔ وہ لوگوں کی دماغی قوت کو ان بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔

وہ اس دماغ محرک کی گہری تحقیق کر رہی ہیںجو کہ پارکنسن کی کمزور علامات کے علاج کے لئے برقی محرک کا استعمال ہے۔ یہ اثر انداز ہے لیکن اس بات کی تحقیق نہیں ہوئی کہ یہ الزائمر جیسی بیماریوں کے لیے کتنا فائدہ مند ہے وہ آپٹوجینیٹکس کا مطالعہ بھی کر رہی ہیں۔

ہو سکتا ہے انکی سب سے حیرت انگیز تحقیق عصبی سرکٹس کو دیکھنے کے لئے باریک ٹشو بنانا ہے۔ اس تحقیق کی مدد سے ہم بہت سی دماغی بیماریوں کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

آخر میں میری گفتگو ایک عظیم مائیکرو بائیولوجسٹ ڈیان نیومین کے ساتھ ہوئی جو پھیپھڑوں کی بیماریوں پر کام کر رہے ہیں۔ ڈیان کاماحولیاتی ہندسیات، زمین کی سائنس اور جیوباالوجی میں ایک انوکھا پس منظر ہے۔ وہ اپنی اس تحقیق کی مدد سے زمین کے قدیم بیکٹیریا کی معلومات حاصل کر رہی ہیں تاکہ اسکی مدد سے کم آکسیجن میں رہنے والے بیکٹیریا کے بارے مےں معلومات حاصل ہو۔ ان کی تحقیق ہمیں ٹی بی کو سمجھنے میں بھی مدد کر سکتی ہیں۔

اس دورے کے آخر میں میں نے طلبہ کے ساتھ سوال جواب بھی کیے جس میں ایک طلبہ نے پوچھا کہ سائنس اود ٹیکنالوجی کے کونسے شعبے ہمارے معاشرے کو اثر انداز بنا سکتے ہیں۔ یہ سوال بہت اجھا تھا لیکن اس کا جواب دینا مشکل تھا۔ میں نے اس دوران یہ محسوس کیا کہ کالٹیچ میں ہر شعبے میں کوئی تحقیق چل رہی ہے۔ اس طرح کا طرز عمل مجھے حیرت انگیز رکھنے کے لیے کافی ہے۔ میں نے طلبہ سے کہا کہ جس مقدار میں یہاں تحقیق اور ایجادات ہو رہی ہیں ہیں دنیا میں سپ سے زیادہ تیز ہیں۔

حکومت کے مکمل ساتھ کی بدولت یہاں ایجادات بڑھتی رہیں گی اور ساتھ ہی انکے فائدے بھی۔ یہ تحریر بل گیٹس نے خود لکھی ہے جو گیٹس فاؤنڈیشن ویب سائٹ پر شائع ہوئی


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *