آدم سمتھ معاشی لبرل ازم کا بانی

  • May 7, 2023 11:33 am PST
taleemizavia single page

اکمل سومرو

آدم سمتھ کی 1776ء میں لکھی جانے والی کتاب دی ویلتھ آف نیشنز یعنی دولت اقوام کو معاشی لبرل ازم کی اساس سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب برطانیہ تجارتی معیشت یعنی مرکنٹائل ازم سے سرمایہ داری کے عبوری دور میں داخل ہورہا تھا۔

سولہویں سے اٹھارویں صدی تک تجارتی معیشت میں شہزادوں اور بادشاہوں نے اپنی اقتصادی پالیسیوں کی کامیابیوں کی معیار کا ضامن ان کے پاس جمع ہونے والے سونے اور چاندی کے ذخائر قرار دیے۔ اس صورتحال میں تجارت ایک لاحاصل کھیل تھا جس میں ہر ملک اپنے محصولات کے لیے دوسرے ملک کے استحصال پر انصار کرتا تھا۔

جس کے باعث اشیاء کی درآمد پر سخت ٹیکس لگائے جاتے تھے اور اجناس کی درآمد کو تقویت دی جاتی تھی۔ شاہی دربار نہ صرف معیشت کو چلاتے بلکہ پیداواری کمیت اور پیدا کنندگان کی تفصیل کے ضابطے بھی مرتب کرتے تھے۔ اشیاء بنانے والی انجمنوں کا کام صرف یہ دیکھنا تھا کہ کہاں کیا پیدا کیا جارہا ہے اور کتنی مقدار میں پیدا کیا جارہا ہے۔

مندرجہ بالا بے سمت اور ساقط معاشی ضابط کے انہدام کے لیے سمتھ نے جو کُچھ لکھا اسے ہم سرمایہ دارانہ منشور کا نام دے سکتے ہیں۔ اس کی تحریروں کا تیر نشانے پر لگا اور اس طرح آدم سمتھ نے اپنے معاشی اور تجارتی نظریے کو متعارف کرایا۔ سمتھ کے نظریہ نے قومی معیشت کے تصور دولت کو یکسر تبدیل کر دیا اور واضح کیا کہ دولت کو ناپنے کا معیار محنت ہونا چاہیے نہ کہ تجارتی معیشت کے مطابق سونے کے ذخائر۔

سمتھ کے مطابق عمومی خوشحالی پانے کے تین طریقے ہیں؛

ذاتی مفاد و ملکیت کے لیے جدوجہد
محنت اور مہارت کی تقسیم
آزاد تجارت اور مسابقت

اپنی کتاب دولت اقوام ککے فقرہ اول میں ہی اس نے محنت کی تقسیم کو معاشی ترقی کا لازمی محرک قرار دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مزدور کی صلاحیت پیداوار، ہنر، چابکدستی اور فیصلہ کی صلاحیت و عمل داری محنت کی تقسیم کی ہی مرہون منت ہے۔

سمتھ محنت کی تقسیم کے فوائد سوئی کی فیکٹری کی مثال دے کر سمجھاتا ہے کہ ایک اکیلا سوئی ساز ایک دن میں کچھ ہی سوئیاں بنا سکتا ہے لیکن اگر سوئی کی پیداوار کو حصوں میں تقسیم کیا جائے اور اس تقسیم پیداوار میں ہر ایک ماہر مزدور سوئیاں بنانے کے عمل میں اپنے مخصوص حصے کا کام کرے تو یومیہ ہزاروں سوئیاں بنائی جاسکتی ہیں۔

مزدوروں کے درمیان محنت کی تقسیم سے ہی شریک کار ایک دوسرے کے ساتھ آزاد تجارت کر سکتے ہیں اور اپنے ماہرانہ کام میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ مجموعی پیداوار بڑھانے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ سمتھ آخر کار اسی آزاد تجارت اور مقابلہ کی وکالت کرتا ہے۔ اس کے مطابق مارکیٹ کا غیر مرئی ہاتھ ہی پیداوار کو معین کرتا ہے اور یہی وہ طریقہ کار ہے جو کسی بھی مرکزی معاشی منصوبے کی بانسبت موثر ترین اور باعث ترغیب ہے۔ اسی زمرے میں سمتھ پرتگال اور اسکاٹ لینڈ کی مثالیں دیتا ہے۔

جیسا کہ سکاٹ لینڈ اُون اور پرتگال شراب پیدا کرنے میں مہارت رکھتا ہے سمتھ ان نمایاں خصوصیات کو تقابلی مواقع قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر دونوں ممالک اپنی انہی خاص اجناس کی تجارت کریں تو یہ عمل دونوں کے لیے مفید ہوگا۔

سمتھ کا معاشیات کے بارے میں یہ نقطء نظر اپنے ہم عصر نظریات سے یکسر مختلف ہے جن کے مطابق تجارت ایک صفر درجے کی معاشی سرگرمی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ سمتھ بحثیت ایک کسٹم آفیسر ایک دہائی تک انہی تجارتی ضوابط کا ناظرو شاہد رہا تھا۔

سمتھ کے مطابق ترغیب منافع، محنت کی تقسیم، تجارت اور مسابقت ہی خوشحالی کا منبع ہیں اور ریاست کو حتی الامکان ان عناصر کو آزاد چھوڑ کر صرف بلاواسطہ ہی مارکیٹ پر اثر انداز ہونا چاہیے۔

یہیں سے شخصی آزادی میں ریاست کی عدم مداخلت کا اُصول مشتق ہوتا ہے۔ یہی اُصول ریاست کو تحفظ عوام، قومی دفاع، قانونی استحکام، بنیادی ڈھانچہ اور تعلیم کی فراہمی تک محدود کر دیتا ہے۔ یہ اُصول ریاست کو مارکیٹ میں مداخلت کرنے سے روکتا ہے جس کے باعث زیادہ سے زیادہ پیداوار ممکن ہوتی ہے۔

سمتھ نے اس معیشت کی آزادی کے نظریہ یعنی لبرلائزیشن آف اکانومی کی بنیاد رکھی جس نے اُنیسوویں صدی کے صنعتی انقلاب کے فقید المثال پیداواری قوتوں کو جنم دیا اور اس بات کی وکالت کی کہ آزاد منڈی خود اپنے طور پر توازن قائم رکھنے کی اہلیت رکھتی ہے اور اپنی بیماریوں کا خود آپ سد باب کر سکتی ہے۔

سمتھ بھی مارکس کی طرح سرمایہ داری کے تاریک پہلو یعنی مزدوروں کے استحصال اور بیگانگی محنت سے خوب واقف تھا۔ اسے احتمال تھا کہ تقسیم محنت کی مستقل تخلیص مزدوروں میں ترمیم خیال کا باعث بنے گی اور اس کا تدارک وسیع تر تعلیمی ترغیبات سے ہی ممکن ہے۔

اپنی نسبتا کم مقبول کتاب نظریہ ہائے جذبہ اخلاق میں سمتھ تدبر اور معقول رویے کی افادیت کی وکالت کرتے ہوئے اجتماعی ضروریات کے لیے لوگوں کو تعدیب انا کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔ لہذا وہ ایسے تمام افکار کی نفی کرتا ہے جو انسان کو کسی ایسے ذی حیات کی شکل میں پیش کرتے ہیں جن کا منتہائے مقصود ہم جنس نوع کی افادیت کے لیے قربان ہونا ہو۔

ایک معیشت داں کی نسبت سمتھ اپنے آپ کو اخلاقیات کا فلسفی کہلانا پسند کرتا ہے جو کاروباری لین دین میں انصاف، اعتماد اور ایمانداری قائم رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔

عالمگیر بحران 1929ء تک سمتھ کے نظریات پر مبنی لبرل ازم کا کلاسیکی نظریہ چھایا رہا۔ بعد ازاں یہ شکوک پیدا ہونے شروع ہوئے کہ کیا غیر مرئی ہاتھ کے سہارے چلنے والی منڈیاں ہمیشہ از خود توازن حاصل کرتی ہیں۔ اس شدید بحران اور مستقل بیروزگاری کی شخصی آزادی کے ریاستی عدم مداخلت کا نظریہ کوئی قابل قدر توضیح و توجیح نہ کر سکا اور جس کی وجہ سے کلاسیکل لبرل معیشت کی بنیادیں ہل گئیں۔ نوبل انعام یافتہ جوزف سٹگ لٹز اس دور کے بارے میں کہتا ہے؛

غیر مرئی ہاتھ کی توجیح یہ ہے کہ وہاں کوئی غیر مرئی ہاتھ تھا ہی نہیں۔

اس کے بعد کی دہائیاں کینز کے عہد پر مبنی تھیں۔ بعد ازاں کچھ سال کی دشت آوری کے بعد معاشی لبرل ازم نے نیو لبرل ازم کے نام سے 1980ء میں اپنے نشاۃ ثانیہ کا آغاز کیا۔

فریڈرک آگسٹ اور ملٹن فرائیڈ مین وہ نامور معیشت دان ہیں جنہوں نے سمتھ کے نظریات کو پھر سے منظم کیا اور اس کے مبلغ بنے۔ فرائیڈ مین شگاگو یونیورسٹی کا پروفیسر تھا اس نے لبرل معاشی نظام کا نظریہ پیش کیا جو کہ شگاگو مکتبہ فکر کے نام سے مشہور ہوا۔ تاہم نیو لبرلز نے اپنے آپ کو سمتھ کے ان نظریات تک محدود رکھا جن کا تعلق انتقاد و ریاست اور منڈی کی آزادی کی ترویج سے تھا۔ فریڈرک اور فرائیڈمین نے کینز کی نظریہ ہائے جذبہ اخلاق سے اتفاق نہیں کیا۔

سمتھ کے نظریات کی اس نئی توضیح نے ان دونوں معیشت دانوں کو رونالڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر کے دور میں امریکہ اور برطانیہ میں بہت مقبول اور بااثر بنا دیا۔ ان دونوں مفکرین کا رہنما اُصول یہ تھا کہ ریاست بذات خود کسی مسئلہ کا حل نہیں بلکہ خود ایک مسئلہ ہے چنانچہ نجکاری و عدم ضابطگی اور ریاست کی مراعت میں تخفیف ہی مسئلے کا حل ہیں۔

حامیان آزاد منڈی نے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر بھی قوی اثر ڈالا۔ نام نہاد واشنگٹن موافقت کے سانچے میں رہتے ہوئے ان اداروں نے اپنے لبرل معاشی نظریات کو وسعت دی جس کی مثالیں لاطینی امریکہ کی مابعد کیمونسٹ ریاستیں اور جنوب مشرقی ایشیاء میں 1987ء کا ایشیائی بحران ہیں۔

مالیاتی منڈی کی عدم ضابطگی کا عمل حتمی طور پر انہی نظریات کے زیر اثر ہوا جس کے نتائج دہائیوں تک عالمی مالیاتی ڈھانچے کا بدترین بحران اور 2008ء سے جاری عالمی کساد بازاری ہیں۔ بحران کے حجم اور احاطہ کی شدت نے منڈی کے معاشی لبرل ام کی اندھی تقلید کے بجائے ایک نئی سوچ کو جنم دیا اب فوقیت انہیں حاصل ہے جو منڈی اور ریاست میں ایک توازن اور سیاست کو معیشت پر ترجیح دیتے ہیں۔


اکمل سومرو  نے پولیٹیکل سائنس میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *