ڈاکٹر عبد السلام نے نوبل انعام کیسے جیتا؟

  • October 7, 2016 11:32 am PST
taleemizavia single page

عاصم قریشی

ریاستی بیانیہ تبدیل کرو، نصاب تعلیم بدلو، سیاستدانوں کے چہرے بدلو۔

گلی محلوں سے لیکر چائے کے ڈھابوں اور پھر جامعات کے کمرہ جماعت میں دانشوری پر مبنی گفتگو اس لیے زور پکڑ گئی ہے کہ شدت پسندی کی لہر میں درسگاہوں کو نشانہ بنا کر تعلیم کا راستہ بند کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔

شدت پسندی کو شکست دینے کی ترکیبوں کے انبار ہیں اس کی وجوہات کو صرف جہاد افغانستان تک محدود کرنا ایک ایسا بیانیہ ہے جس سے ہماری ناواقفیت زہر قاتل بنتی جارہی ہے۔

شدت پسندی کی آخری حد دہشت گردی پر ختم ہوتی ہے اگر یہ نوبت نہ آئے تو پھر ذہنوں میںپنپنے والے شدت پسند خیالات کو ریاستی فیصلوں سے چنگاری ملتی رہتی ہے اور آگ بڑھکتی رہتی ہے۔

پاکستان نوآزاد ریاست بننے کے بعد سماجی و ذہنی توڑ پھوڑ کا شکار رہی غیر دانستہ یا پھر دانستہ طور پر علم کی حوصلہ شکنی کی گئی اور درسگاہوں کے طلباءپر علم کے نا م پر مذہبی مہریں لگائیں گئیں۔

اس کے باوجود علم کے میدان میں پاکستان کی پذیرائی اُس وقت عالمی سطح پر ہوئی جب کچے مکان اور رات کی تاریکی میں دیا جلا کر پڑھنے والے عبد السلام کودس دسمبر 1979ءکو سویڈن میں طبیعات کے مضمون میں نوبل انعام ملا۔

عبد السلام کی ذہانت کی بلندی کا آغاز اُس وقت ہوا جب اُنہوں نے چودہ سال کی عمر دسویں جماعت کے امتحان میں تاریخی کامیابی حاصل کی۔

اور پھر سترہ سال کی عمر میں ہی پہلا ریسرچ پیپر لکھ ڈالا۔ عبد السلام سائنسی رجحانات کے باعث صدر ایوب خان کے سائنسی امور میں مشیر مقرر ہوئے جس کے بعد ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے قیام سے کی گئی۔

یہ عبد السلام ہی تھے جو پاکستان کو سائنسی میدان میں عروج کی جانب لیکر جانے کے خواہاں تھے جنہوں نے کراچی نیو کلیئر پاور پلانٹ بنایا، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیو کلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی۔

عبد السلام علمی طور پر لبرل انسان تھے لہذا اپنی زندگی میں علمی ترقی کے سفر پر اُنہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

وہ مذہبی تصورات سے بالا تر ہوکر خالص سائنسی بنیادوں پر سماجی ترقی کے داعی تھے اپنی اسی جستجو کے باعث وہ علم کا پیالہ پینے کی خاطر یورپی ممالک کا چکر لگاتے رہے۔

عبد السلام نے یہ ثابت کیا کہ انسانی ذہن حصول علم کے لیے گھروں میں مکتب خانہ، برقی فانوس اور قمقموں کی چمکتی روشنی کا محتاج اور غلام نہیں ہوتا، مٹی کے تیل میں دیا جلا کر پڑھنے والا عبد السلام پاکستان کا پہلا اور آخری نوبل انعام یافتہ بنا۔

سویڈن میں نوبل انعام وصول کرنے والے عبد السلام کو کیا معلوم تھا کہ وطن عزیز میں واپس پہنچ کر یہاں کا شدت پسند ذہن انہیں قبول کرنے کو آمادہ نہیں ہوگا۔

حالانکہ یہ انعام ایک فرد کی کامیابی نہیں بلکہ پاکستان کی کامیابی تھی۔ مغربی پاکستان ٹوٹنے کے بعد علمی دُنیا میں یہ پہلی اچھی خبرتھی ۔

لیکن شدت پسندوں نے مذہبی چھاپ کا سہارا لیا تو جب عبد السلام پاکستان واپس لوٹے تو ایئر پورٹ پر کوئی سرکاری سطح پر ملاقات تک کے لیے نہیں آیا بھلا کیوں آتا؟

شاید اُس وقت ہی شدت پسندی نے علم دوستی کو شکست دے دی تھی۔

ضیاءآمریت نے عبد السلام کے ساتھ جو سلوک کیا وہ خود سے الگ کہانی ہے لیکن گورنمنٹ کالج لاہور نے بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، عبد السلام پر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلے پر پاپندی عائد کر دی گئی حالانکہ یہ ان کی مادر علمی تھی۔

عبد السلام جب بمبئی میں طبیعات پر کام کرنے کی غرض سے دورہ کرنے کے بعد واپس لاہور پہنچے تو گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل نے اُن کی تذلیل کی اور اُن کے خلاف محکمہ تعلیم کو خط لکھ ڈالا۔

معروف تاریخ دان کے ۔ کے عزیز لکھتے ہیں کہ عبد السلام کی ذہانت کو سراہانے کی بجائے اُن کے ساتھ ہتک آمیز سلوک اپنایا گیا۔

گورنمنٹ کالج میں ریاضی کا اُستاد ہونے کے باوجود عبد السلام کو سرکاری رہائش دینے سے انکار کر دیا گیا، اُن کے لیکچرز پر پاپندی عائد کر دی گئی

تو اسی اثناءپر نوبل انعام یافتہ عبد السلام کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے مہمان خانے پر مدعو کیا اور خود اُن کے لیے کافی بنانے کے بعد کارپٹ پر بیٹھ کر یہ کافی عبد السلام کو پیش کی۔

جغرافیائی اعتبار سے ہمسایہ ملک جبکہ ریاستی تشریح میں دُشمن ملک کی وزیر اعظم کا شفقت بھرا رویہ یقینا عبد السلام کے لیے متاثر کن ہوگا کہ ایک طرف اپنا ملک قبول کرنے کو تیار نہیں تو دوسری طرف دُشمن وطن کی وزیر اعظم اُن کی خدمت گزاری کر رہی ہے۔

ضیاءآمریت اور مذہبی جنونیت کے اثرات سیاسی جماعتوں پر بھی مرتب ہوئے ملک کی قدآور سیاسی شخصیت بے نظیر بھٹو مرحومہ نے بھی عبد السلام سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

نوبل انعام وصول کرنے کے بعد عبد السلام کی پذیرائی کے بجائے اُنہیں گھٹن زدہ ماحول دیا جانے لگا جس سے بالاخر وہ تنگ آکر خاموشی سے وطن چھوڑ کر اٹلی روانہ ہوگئے۔

عبد السلام جیسے سائنسدان کی حب الوطنی کا اندازہ لگائیے کہ اُنہوں نے اپنے ملک کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولاتاہم اُنہوں نے علم کے ساتھ اپنا رشتہ نبھایا۔

پہلے اُنہوں نے امپریل کالج لندن میں ڈیپارٹمنٹ آف تھیورٹیکل فزکس بنایا پھر اٹلی میں سنٹر فار تھیورٹیکل فزکس قائم کر کے وہاں سائنسدانوں کو جمع کیا اور طبیعات کے مضمون میں نئی تحقیقات کا آغاز کیا۔

اٹلی نے بعد از وفات اس سنٹر کا نام عبد السلام انٹرنیشنل سنٹر فار تھیورٹیکل فزکس رکھ دیا۔ عبد السلام کا قصہ یہیں نہیں ختم ہوتا پاکستان میں یہ لبرل اور سیکولر سوچ کی عملی شکست کا آغاز تھا۔

شدت پسندی اور گروہیت کی چھاپ اسی تصور کے تحت تعلیمی اداروں میں بھی لگائی جانے لگی اور طلباءکو بذریعہ نصابی کتب اُنہیں مذہبی منافرت پر مبنی ٹوپیاں پہنا دی گئیں۔

یونیورسٹیوں میں عبد السلام پر پاپندی کا نقصان ہماری درسگاہوں نے اُٹھایا، آج ہمارے سماج میں تنگ نظری، ملوکیت اورانتہا پسندی کا عروج اسی پالیسی کا شاخسانہ ہے۔

عبد السلام کسی مذہبی عنوان کے تحت علمی بلندی تک نہیں پہنچے تھے بلکہ اقراءکے اُصول پر اور کائنات میں چھپے رازوں سے پردہ اُٹھانے کے حکم نامے کے تحت اپنی جدوجہد جاری رکھی تھی لیکن ہمارے سماج نے اُسے بھی عقائد کا لباس پہنا دیا۔

عبد السلام علم کی یہ جنگ لڑتے لڑتے آکسفورڈ میں 21نومبر1996ءکو اس جہان فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے لیکن اُن کی وفات ہمارے سماج کے رویوں کا پردہ چاک کر گئی۔

رویوں اور اخلاق میں ہمیں بنیادی فرق کو سمجھنا چاہیے، رویے انفرادی ہوتے ہیں جبکہ اخلاق اجتماعی و مجموعی ہوتے ہیں جن کا تعلق براہ راست سماج سے جڑتا ہے۔

قومی سطح پر ہمارے اجتماعی اخلاق کو انہیں تصورات کے تحت دیمک لگا کر کھوکھلا کیا گیا اور ہمارے ذہنوں میں ابہامات پیدا کیے گئے۔

جن انفرادی رویوں اور اجتماعی اخلاقیات کا بیج ہم نے عبد السلام کے خلاف بویا تھا آج اُسی بیج کی فصل ہم اپنے بچوں کی لاشوں کی صورت میں اُٹھا رہے ہیں۔

عبد السلام کے خلاف نفرت کا نتیجہ اجتماعی طور پر ہمارے سامنے آرہا ہے۔درسگاہیں اور درسی کتابوں میں درج مواد ہی نفرت پر مبنی ہوگا تو پھر یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ان درسگاہوں سے تعلیم یافتہ ہوکر ہمارے سماج کا حصہ بننے والے اثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

29جنوری کو عبد السلام کا جنم دن ہم نے اسی لیے خاموشی سے گزار دیا کہ آج بھی ہمارے ذہنوں پر مذہبی جنونیت سوار ہے ہم علم بانٹنے والوں کی قدر کرنے کی بجائے کفر کے فتویٰ بانٹنے والوں کو انسانیت کے خدمت گزار سمجھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔

گورنمنٹ کالج لاہور میں عبد السلام کو ملنے والا نوبل انعام اور خطوط تو الماریوں میں سجا کر رکھے گئے ہیں
لیکن اس عظیم ادارے نے بھی عبد السلام کی عظمت کا اعتراف کرنے کے لیے ایک بھی پروگرام منعقد کرنے کی جراءت نہیں کی۔

مذہبی جنونیت کا مقابلہ کرنے کا خوف ہمارے دلوں و دماغوں میں سرایت کر گیا ہے اس سے باہر نکل کر اعتدال پسندی کی سوچ کو فروغ دیے بغیر ہم نیشنل ایکشن پلان کو بھی کامیاب نہیں بناسکتے۔


asim

عاصم قریشی ملٹری اکیڈمی کاکول میں بطور اُستاد تعینات ہیں۔ اُنہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ روایت پرستی اور مروجہ سیاسی نظریات کو چیلنج کرتے ہیں۔

  1. We are still in medieval age,,,,,

    nikl k soraj ne doop dunya k nam kar de,,
    Yee ham thay k gar me ye sham kar dee,,

    njane kab mere sher me soraj nikla ga

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *