نوجوان کی خودی کا تحفظ کون کرے؟

  • August 9, 2018 11:56 pm PST
taleemizavia single page

محمد مرتضیٰ نور

اگست کا مہینہ ویسے تو پاکستان میں آزادی اور حب الوطنی کے جذبے کو بڑھاوا دینے کے لیے منایا جاتا ہے جب سے الیکڑانک میڈیا کا جال وطن عزیز میں پھیلا ہے تو ٹی وی کی سکرین پر یہ جوش و جذبہ قابل دید ہوتا ہے بلکہ رشک بھی آتا ہے۔ یہی اگست کا مہینہ نوجوانوں کے لیے بھی مختص ہے چنانچہ یوم آزادی سے دو دن پہلے ٹھیک بارہ اگست کو یہ دن منایا جاتا ہے۔

نوجوان کے مشاغل کیا ہوں؟ ریاست نوجوانوں کے لیے کیا اقدام کرے؟ بے روزگار نوجوانوں کا کیا بندوبست کیا جائے یا پھر نوجوان معاشی ترقی میں کیسے معاون ہوسکتے ہیں، ایسے کئی سوالات مباحثوں کا حصہ بنتے ہیں۔ پاکستان پر اقوام متحدہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ کل آبادی کا 64 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر کی حد 30 سال سے کم ہے۔

سماجی امن، اقتصادی ترقی میں نوجوان کی صلاحیت کا انکار ممکن نہیں ہے، سیاسی جماعتیں ہوں، قومی اور غیر ملکی کمپنیاں ہوں، مقامی فیکڑیاں ہوں، مارکیٹس ہوں، کالج یونیورسٹیز ہوں، نوجوان خون ہی بنیادی ایندھن ہوتا ہے جو انجن کو چلانے کا موجب بنتا ہے۔ اقوام عالم میں جہاں مقامی تحریکیں، خانہ جنگی کی جو کیفیت برپا ہے وہاں کا نوجوان ہی آلہ کار نظر آتا ہے، اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 40 کروڑ نوجوان دُنیا بھر میں مسلح تصادم اور تشدد کا شکار ہے اور براہ راست اس میں ملوث ہے۔

اب پاکستان میں نوجوان آبادی کا تناسب مجموعی آبادی کے تناسب پر ھاوی ہے، ریاست کے لیے چیلنج، حکومت کے لیے فکر مندی و منصوبہ بندی سے نوجوان کی اہمیت کو خارج کرنا ممکن نہیں ہے۔

سماج کی تشکیل میں جو فلسفہ و سیاست رائج ہوتا ہے، نوجوان ہی اس فلسفے میں سے راستہ تلاش کرتے ہیں، نوجوان عوامی رائے عامہ بنانے میں موثر بنتے ہیں۔ یہی نوجوان جب درسگاہ میں ہو تو علمی ترقی پاتا ہے، یہی نوجوان جب گلی محلے میں بے روزگار اور در بدر پھرے تو وہ چور، ڈاکو، رہزن اور آوارہ بنتا ہے۔ یہ ایک فرد کا قصور نہیں ہوسکتا گر یہ مجموعی المیہ بن جائے تو حکومتی ناکامی کا ٹھپہ ہوتا ہے۔ یہاں کا نوجوان، بچہ تعلیم سے محروم ہوگا تو پھر سماجی انتشار مقدر بنے گی اس کا خمیازہ پوری قوم اور ریاست کو بھگتنا ہوتا ہے۔

آئندہ پانچ سالوں میں پاکستان کی ریاست کو انہی نوجوانوں سے بڑا چیلنج درپیش ہوگا، جس تناسب سے نوجوان آبادی بڑھ رہی ہے، ریاست کو 4 کروڑ 50 لاکھ ملازمتوں کو نوجوانوں کے لیے پیدا کرنا ہوگا، بچوں کو سکولوں میں داخل کرانا ہوگا، صحت کیلئے نئے مراکز بنانا ہوں گے، نئی صنعتیں لگانا ہوں گی، معاشی اصلاحات کرنا ہوگی، نئی درسگاہیں بنانا ہوگی، اگر یہ سب کچھ نہ کیا گیا تو یہی نوجوان ذہنی انتشار میں مبتلا ہوگا۔

حالیہ عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹ ڈالنے والوں میں نوجوانوں کا تناسب 43 فیصد تھا جن کی عمر 18 سے 35 سال کے درمیان ہیں۔

پاکستان میں 17لاکھ سے زائد نوجوان 190جامعات ور 114سب کیمپسز میں زیر تعلیم ہونے کے باوجوداعلیٰ تعلیمی شعبہ کی پالیسی بنانے کے عمل سے دور ہیں اور اس سلسلے میں نوجوانوں کو کسی بھی اہم فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا جاتا۔

طلبا ء یونین پر پابندی نے نوجوانوں کو ایسے پلیٹ فارم سے محروم کر دیا ہے جہاں نوجوان اپنی با معنی شمولیت کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکتے تھے ،طلبا یونین پر پابندی کے باعث تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سر گرمیوں کا فقدان ہے اور اس خلاء کا فائدہ شدت پسند وں نے اٹھایا ہے ۔

جولائی 2018 میں ہونے والے انتخابات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں سیاست صرف اشرافیہ کے گرد گھومتی ہے جو پیسے کے بل بوتے پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر تے ہیں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے با صلاحیت نوجوانوں کو طلباء یونین پر پابندی اور غیر موثر بلدیاتی نظام کی وجہ سے سیاست سے دور رکھا جا رہا ہے ،ماضی میں یہ دو اہم ادارے نوجوانوں کی سیاسی و فکری تربیت میں نرسری کی اہمیت رکھتے تھے۔

امید کی جاتی ہے کہ نئی منتخب حکومتیں اس اہم مسئلے کی طرف بھرپور توجہ دیں گی اور اپنے انتخابی منشور پر عمل در آمد کرتے ہوئے نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں گی ۔

عالمی یوم نوجوان کے موقع پر تجدید عہد کریں کہ ہم نوجوان نسل کو بنیادی سہولیات اور بھر پور مواقع فراہم کرنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے اور وفاقی اور صوبائی سطح پر نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لئے طویل المدتی اور شارٹ ٹرم منصوبے تشکیل دیں ۔

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے تو اس قوم کے بچوں کو شاہین کا لقب دیا، یہاں کے نوجوان کی خودی کے تحفظ کی بات کی، خودی کا درس جو نصاب میں پڑھایا جاتا ہے، اس خودی کی حفاظت فرد نے خود کرنی ہے یا پھر ریاست و حکومت کی ذمہ داری؟

کہیں پھر ایسا نہ ہو کہ ہمارا نوجوان یہ کہنے پر مجبور ہوجائے؛

ہم نے اقبال کا کہا مانا اور فاقوں ہاتھوں مرتے رہے
لوگوں نے رفعتیں پائیں اور ہم خودی کو بُلند کرتے رہے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *