جامعات کی درجہ بندی، حقائق کیا ہیں؟
- September 27, 2019 4:05 pm PST
ڈاکٹر محمد عثمان اعوان
برادر اکمل سومرو کا لکھا ہوا مضمون”کیا جامعات کی عالمی درجہ بندی فراڈ ہے ؟”پڑھا۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے آغاز، 1750ء سے لے کر 1900ء تک صنعتی انقلاب اور پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہونے والے صنعتی انقلاب کے بارے میں بتا کر بڑی خوبصورتی کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ علم بذاتِ خود طاقت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔دنیا بھر میں اس وقت جامعات کی درجہ بندی کے مختلف ادارے کام کر رہے ہیں۔ درجہ بندی کے طریقہ کار پر بہت سے سنجیدہ سوالات موجود ہیں۔ درجہ بندی کا ہر ادارہ اعشاریوں کا فیصلہ خود کرتا ہے اور بعض اوقات یہ فیصلہ بغیر کسی موئثر تحقیق کے ہی کر لیا جاتا ہے۔
ان تمام مسائل کے باوجود میرا خیال ہے کہ جامعات کی درجہ بندی ضروری ہے۔ خاص طور پر ہمارے جیسے ملک میں جو گزشتہ 72 سال سے تعلیم جیسے اہم شعبے پر صرف دو فیصد تک وسائل لگا رہے ہیں، کم از کم یہ سمجھنا کہ مختلف ادارے کن بنیادوں پر درجہ بندی کرتے ہیں، اور محدود وسائل کے باوجود ہم کس طرح کسی حد تک درجہ بندی کو بہتر کر سکتے ہیں، انتہائی اہم ہے۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی، کیمبرج یونیورسٹی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی اور سٹینفورڈ یونیورسٹی کا کسی بھی ترقی پذیر ملک کی سرکاری جامعہ سے موازنہ یقینا نہیں کیا جانا چاہیے۔ لیکن بہتری کا راستہ کیا ہونا چاہیے؟ کیا اس پر غوروفکر لازم نہیں؟ پاکستان کی جامعات میں اس وقت کچھ ہی جامعات ہیں جو درجہ بندی میں پہلی ہزار جامعات میں شامل ہیں۔ پہلی500 جامعات میں شامل پاکستان کی جامعات کی تعداد تو ہر سال بہت ہی کم ہوتی ہے۔
Benchmarking کا اصول ہمیشہ بتاتا ہے کہ بہت بڑی جست لگانے سے گریز کریں۔ اپنے مد مقابل کو سمجھیں، جن بنیادوں پر درجہ بندی ہوتی ہے، اُن بنیادوں کو سمجھیں۔ حقیقت پسندانہ عزائم رکھیں اور پھر دستیاب وسائل کے بہتر استعمال پر زور دے کر بتدریج اپنی منزل کی جانب بڑھیں۔
پہلی ترجیح یقینا زیادہ سے زیادہ پاکستانی جامعات کا پہلی 500 بین الاقوامی جامعات میں شمولیت ہونا چاہیے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن ہر گز نہیں۔ وسائل کے نہ ہونے کا بہانہ بنا کر کسی بھی قسم کی بہتری لانے کی کوشش نہ کرنا سرا سر گھاٹے کا سودا ہے۔ وسائل کا بہتر استعمال بھی ہماری جامعات کی درجہ بندی کو بہتر کر سکتا ہے۔
میرے خیال میں یہ کہنا کہ جامعات کی درجہ بندی کے اعشاریوں میں معیارِ تعلیم کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی، شاید موزوں نہیں۔ Academic Reputation کا اعشاریہ بہت سی درجہ بندیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی استاد اپنے شعبے میں کتنا ہی بڑا محقق کیوں نہ ہو، جب تک 45 منٹ یا 90 منٹ کے لیکچر میں اپنے طلباء کو مطمئن نہیں کرتا، وہ اصل استاد نہیں ہوتا۔ ترقی پذیر ممالک کی کچھ یونیورسٹیوں کے بہت سے شعبہ جات میں بدقسمتی سے باقاعدگی سے کلاسز نہیں ہوتیں۔
اگر استاد اپنے علم سے طالب علموں کو آگاہ نہیں کرتا تو یقینا طالب علم بھی اپنے ارد گرد اُس استاد یا شعبے کی تعریف نہیں کر سکتا۔ اس طرح کے تمام عوامل academic reputation پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
مغرب کی جامعات سے چھپنے والے تحقیقی جرائد کا کنٹرول بھی خود اُن کے پاس ہے۔ اسی طرح ترقی پذیر ممالک سے چھپنے والے جریدوں کا کنٹرول ترقی پذیر ممالک کے پاس ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں چھپنے والے جرائد کے مدیران اگر ذاتی پسند ناپسند، تعلقات، مفادات کی بنیاد پر مقالہ چھاپنے کی روِش اپنا لیں گے تو یقینا اس کا ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک کے جرائد کے مدیران کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
درجہ بندی کے اعشاریوں میں ایک بہت اہم اعشاریہ Academic Reputation ہے۔ بدقسمتی سے بہت سی جامعات میں اس طرف توجہ نہیں دی جاتی کہ کس طرح فارغ التحصیل ہونے کے بعد طالب علم آجر کو مطمئن کر سکتا ہے۔ صنعتی ترقی کے اس دور میں پرانا بوسیدہ نصاب پڑھنے والا ہُنر سے عاری گریجوایٹ یقینا کسی آجر کو مطمئن نہیں کر سکتا۔
بہت سی جامعات میں یہ ریکارڈ بھی موجود نہیں کہ پڑھایا جانے والا نصاب کب سے نافذ العمل ہے؟ اگر جامعات میں اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھا جائے تو یقینِ کامل ہے کہ ہم بتدریج بہتری کے راستے پر گامزن ہو جائیں گے۔
درجہ بندی کے اعشاریوں کو سمجھنا اہم ہے۔ ہو سکتا ہے مکمل طور پر نہ سہی، لیکن ایک مناسب حد تک ان اعشاریوں کو سمجھ کر اپنے معروضی حالات کے پیشِ نظر عملی اقدامات اُٹھا کر ترقی پذیر ممالک نہ صرف اپنی جامعات کی درجہ بندی میں مناسب حد تک اضافہ کر سکتے ہیں، بلکہ اپنی جامعات میں کیے گئے تحقیقی کام کو اپنے ملکی مسائل کے حل میں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے درجہ بندیوں کے سلسلے میں ایک میٹنگ میں شرکت کا موقع ملا۔ دورانِ میٹنگ راقم کا سوال تھا کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ پاکستان کی سرکاری جامعات کو آپس میں Compete کرنا ہے یا Collaborate کرنا ہے۔ بدقسمتی سے اس سوال کا جواب نہ مل سکا۔ اگر کسی ترقی پذیر ملک کے حکمران اس طرح کے بنیادی سوالات کا جواب بھی نہ دے سکیں تو براہِ مہربانی اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے دوسروں پر بلاوجہ تنقید نہ کی جائے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ یورپ و امریکہ یہ تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں کہ اُن ممالک میں قائم جامعات ہی بہترین ہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ اس تاثر کو ذائل کرنے کے لیے ہم نے بحیثیت قوم کوئی اقدامات نہیں اُٹھائے۔ کیا ملائشیا، جنوبی کوریا، سنگاپور، متحدہ عرب امارات اور ہندوستان اور کچھ دیگر ممالک میں قائم کچھ جامعات نے وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے بہتری نہیں کی؟ یقینا ان ممالک کو بھی یورپ اور امریکہ کی جامعات سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور ان ممالک کی جامعات نے مقابلے کے بعد اپنی جگہ بنائی ہے۔
جب بھی حکومتِ وقت، رئیسِ جامعات، کُلیات کے ڈین صاحبان اور شعبہ جات کے سربراہان اس بات کو ٹھان لیں گے کہ اُنہوں نے اپنی جامعہ کی کارکردگی سے طلباء اور معاشرے کو مطمئن کرنا ہے، یقین رکھیں محدود وسائل کے باوجود مناسب بہتری آئے گی۔ بہتری کے نتیجے میں درجہ بندی میں بھی بہتری آئے گی۔ اگرچہ یہ عمل ایک بتدریج عمل ہے لیکن عالمگیریت اور مسابقت کے اس دور میں جامعات کی درجہ بندی کے عمل سے دور رہنا کبوتر کے بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہوگا۔
Well said, lack of interest is the main issue here in underdeveloped countries like Pakistan. One can do something better limited resources.
بہترین تجزیہ ہے۔
Dear Dr Usman you and your team is doing a good job to uplift the ranking of Punjab University, appreciate. University World Ranking is a way to show how worthy we are in the global village. Besides it’s positives and negatives, we must not ignore to link our academia to our industry to resolve the local
problems at local level. Academic
only 25 % and we are improving, however rest of 75% must be addressed effectiveky. reputationn represents