اعلیٰ تعلیم کا بزنس: عالمی یونیورسٹیوں کےاب اہداف کیا ہیں؟

  • September 6, 2016 10:04 pm PST
taleemizavia single page

خصوصی رپورٹ: نمرہ طاہر

اگر آپ گوگل پر دُنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو صرف اتنا لکھیں کہ نامور یونیورسٹیوں پر گوگل کیا رہنمائی کر سکتا ہے تو صرف ایک سیکنڈ میں 673 ملین نتائج آپ کے سامنے ہوں گے۔

امریکہ، افریقہ ، آسٹریلیا ، برطانیہ ، کینیڈا ، بھارت اورجاپان کی بلند ترین یونیورسٹیوں سے متعلق رہنمائی کے لئے دنیا کتب، رسالوں اور ویب صفحات سے اٹی پڑی ہے۔

صرف یہی نہیں آگے گوکل آپ کو مزید تفصیلات بھی فراہم کرے گا جس میں مضامین کے اعتبار سے تقسیم کی گئی ہے۔

انجینئرنگ یونیورسٹیاں، اعلیٰ تعلیمی ادارے، انڈرگریجویٹ اور ماسٹرز کی تعلیم کن کن اداروں میں بہترین ہے۔ یہ گوگل اس پر بھی ہماری رہنمائی کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔

عالمی سطح پر جو یونیورسٹیاں مختلف اشاعتی کام کر رہی ہیں ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ اب یونیورسٹیوں کی درجہ بندی میں تحقیقی مقالوں کی فہرست بھی پیش کی جاتی ہے۔

آسٹریلیا کی پہلی قومی یونیورسٹی نے تو طلباء کی رہنمائی کے لیے ایسی گائیڈ شائع کی ہے جس میں ہم جنس پرست طلباء، خواجہ سرا طلباء کے لیے بھی معلومات درج ہیں۔

امریکہ دُنیا بھر میں آج بھی یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم کے لیے رہنمائی فراہم کرنے میں سب سے آگے ہے اور اس کے لیے ہر سال خصوصی سٹوڈنٹ گائیڈز چھاپی جاتی ہیں۔

گوگل پر موجود معلومات کی ایک عام مثا ل ایشیا ،یو ر پ اور دیگر مقامات کی سو بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست ہے جن کو امریکی اور برطانوی اداروں پر خاص تائید حاصل ہے۔

دوسری عام مثال امریکی نیوز تنظیم کی جانب سے شائع کی گئی بہترین بین الاقوامی یونیورسٹیوں کی فہرست ہے جس میں یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی بنیاد تعلیمی تحقیق اور شہرت پر منحصر ہے۔

بلکہ ایک بار پھر امریکی ادارے برطانیہ میں اعلیٰ اہمیت حاصل کرنے کے سا تھ ساتھ انتہا ئی درجے پر ہیں۔

برطانونی یونیورسٹیوں کی مکمل گائیڈ بک طلباء کے لیے دس اہم ترین پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کی گئی ہے۔ جس میں 2017ء میں 270 یونیورسٹیوں اور 20 مضامین کی درجہ بندی اور تفصیلات جمع کی گئی ہیں۔

آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں کی مکمل گائیڈ بک ابھی آخری ہفتے شائع ہوئی ہے جس کی بین الاقوامی طلباء کے لیے خاصی اہمیت ہے۔

اس کتاب میں نہ صرف یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی گئی ہے بلکہ طلباء کے لئے شرح بندی، نصاب، فیس،کیمپس کی سہولیات اور روزگار کے نتائج کا موازنہ بھی موجود ہے۔

اب اس حوالے سے نئے رجحانات سامنے آرہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی درجہ بندی تدریسی معیار اور طلباءکی ملازمت کی قابلیت پر بھی منحصرہوتی ہے جس کے نتیجے میں علاقائی یونیورسٹیوں کو بہترین قرار دیا جارہا ہےاور دنیا کی 100 بہترین تحقیقی اداروں میں بھی درجہ بندی کی جا رہی ہے۔

گوگل پر موجود معلومات میں بہت کم ایسا مواد دیکھنے کو ملتا ہے جس میں عالمی سطح پر ایسی گائیڈ بکس تیار کی گئی ہوں جس میں بُری یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی گئی ہو۔

اعلیٰ تعلیم تو اب کاروبار بن گیا ہے۔1990 کی دہائی میں صرف چند یونیورسٹیوں کے پاس گائیڈ بک اور یونیورسٹی لیگ ٹیبل موجود تھے اور وہ بھی انتہائی محدود جس میں صرف چند ایک یونیورسٹیوں کے اداروں پر توجہ مرکوز تھی۔

لیکن پھر ترقی پزیر ممالک کے طلباء نے اعلیٰ تعلیم کی تلاش اپنے ممالک کی سرحدوں سے با ہر شروع کی تو مغرب میں یونیورسٹیوں کو ایک نیا مقام حاصل ہوا۔

جہاں انہوں نے غیر ملکی طلباءسے بھاری رقوم کے اعلیٰ نصاب کی پیشکش کےذریعے بہت سا سرمایہ حاصل کیا۔

سال2002 تک تقریباٌ 2 ملین طلباء غیر ملکی یونیورسٹیوں سے ڈگری حاصل کر رہے تھے جن میں اکثریت ریاست ہائے متحدہ امریکہ ، برطانیہ اور آسٹریلیاکی یونیورسٹیوں کو حاصل ہے۔

اس سال یہ تعداد 5 ملین کے قریب پہنچ گئی ہےاور ممالک جتنا زیادہ غیر ملکی طلباءکو اپنے ادارے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں اتنا زیادہ مارکیٹ(کاروباری میدان )کی قیمت کو اربوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

ان دنوں چند اقوام بین الاقوامی طلباء کی مارکیٹ پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہیں ۔اور دنیا کے محرک طلباء میں سے نصف کو راغب کرنے کے لئے چھ ممالک فہرست میں شا مل ہیں۔

جن میں امریکہ 18فیصد بین الاقوامی طلباء کو راغب کرنے میں سر فہرست ہے جبکہ برطانیہ 11 فیصد ، فرانس 7 فیصد ، آسٹریلیا 6فیصد ، جرمنی 5 فیصد ، روسی فیڈریشن اور جاپان 4 فیصد ، کینیڈا 2 فیصد اور چین 3 فیصد غیر ملکی طلباءکو راغب کرنے میں کامیاب ہیں۔

چین نہ صرف اپنی بہترین یونیورسٹیوں کو عالمی درجہ بندی کے مقابلے میں اگے بڑھانے کے لئے کوشاں ہے بلکہ غیر ملکی طلباء خصوصاً ایشیائی اور افریقی طلباء کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مذکور ہے۔

اب چین، ملائیشیا ، جنوبی کوریا ، سنگاپور اور نیوزی لینڈ غیر ملکی طلباء کی بھرتی میں آسٹریلیا اور جاپان کے مدمقابل ہیں جو کہ مشرقی ایشیاء اور اوقیانوس میں طلباء کو داخلہ دینے کے لئے روایتی ملک کے طور جانےجاتے تھے۔

عرب ممالک میں تین میزبان ممالک مصر ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دنیا کےمحرک طلباء کے چار فیصد داخلوں کے تناسب کو بڑھانے کےلئے توانا جدوجہد کر رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *