اُردو زبان کی بقاء کی جنگ
- May 18, 2019 1:16 pm PST
بلال غوری
اردو ہماری قومی زبان ہے مگر ہم نے اِس سے وہی سلوک کیا ہے جو دیگر قومی نشانات اور علامات سے روا رکھا گیا۔ مثال کے طور پر ہمارا قومی کھیل ہاکی، کرکٹ کے مقابلے میں کس قدر زبوں حالی کا شکار ہے، کوئی سابق اولمپین بتانا بھی چاہے تو ہمیں یہ جاننے میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔ دیودار پاکستان کا قومی درخت ہے، اِس لئے بتدریج ناپید ہوتا چلا جا رہا ہے.
مارخور ہمارا قومی جانور ہے اِس لئے ہم ٹرافی ہنٹنگ کے تحت ڈالر لیکر اُسے شکاریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان کا قومی پھول چنبیلی ہے مگر ہمیں گلاب پسند ہے۔ ہمارا قومی مشروب گنے کا رس ہے مگر ہم دیگر مشروبات سے پیاس بجھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ چکور پاکستان کا قومی پرندہ ہے جو جذبات و احساسات کے اعتبار سے ہمارے قومی مزاج کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔
ماہرینِ حیوانات کے مطابق چکور چاند پر فریفتہ ہے، اُسے ہر آن، ہر پل چاند کو چھونے کی آرزو بیتاب کرتی ہے اور یہ اونچی اُڑان بھرکر چاند کو چھونا چاہتا ہے، اپنے محبوب کو پانے کی جستجو میں اونچی اُڑان بھرتے ہوئے یہ اکثر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ بہر حال اِن قومی استعاروں، علامات اور نشانات پر پھر کبھی بات ہوگی، فی الحال تو قومی زبان کی حالت ِزار پہ مرثیہ خوانی کرنے کا ارادہ ہے۔ بچپن سے یہی سنتے آئے ہیں کہ جس طرح ملکی سلامتی کو ہمیشہ خطرات لاحق رہتے ہیں اُسی طرح اردو زبان بھی اپنی بقا کی جنگ لڑتی چلی آئی ہے۔
جب 1973کا آئین منظور ہوا تو اُس کے آرٹیکل 251میں واضح طور پر لکھا گیا ’’پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور آغاز سے 15سال کے اندر اندر یہ انتظام کیا جائے گا کہ اُسے سرکاری اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے‘‘۔ اِس شق کی ذیلی دفعات میں وضاحت کی گئی ہے کہ جب تک اردو سرکاری زبان کی جگہ نہیں لے لیتی، انگریزی زبان کو سرکاری زبان کے طور پر استعمال کیا جائے گا لیکن آج 46برس گزرنے کے باوجود اس آئینی تقاضے کو پورا نہیں کیا گیا۔
بلاشبہ جمہوریت پر شب خون مارنے والے غاصب ڈکٹیٹر آئین شکنی کے ملزم ہیں اور اُن کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی ہونا چاہئے لیکن کیا آئین کے کسی آرٹیکل کو جان بوجھ کر معطل رکھنا، سبوتاژ کرنا، عملدرآمد کی نوبت نہ آنے دینا، سنگین غداری کے مترادف نہیں؟
ہماری مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو یقیناً اِس پہلو پر غور کرنا چاہئے۔ آئین کی منظوری سے پہلے اردو کی ترویج کے لئے اردو سائنس بورڈ کے نام سے ایک ادارہ موجود تھا جو 24مئی 1962میں قائم ہوا مگر 4اکتوبر 1979کو نیشنل لینگویج اتھارٹی قائم کی گئی تاکہ آئین کے آرٹیکل 251پر عملدرآمد یقینی بنانے کے عملی اقدامات کئے جائیں۔
اِس اتھارٹی کو بعد ازاں ادارہ برائے فروغ قومی زبان کا نام دیدیا گیا۔ ایک بار اسلام آباد میں اِس ادارے کے مرکزی دفتر جانے کا اتفاق ہوا تو یہ داخلی دروازے پر نصب بورڈ پر اردو کے بجائے انگریزی زبان میں لکھا ادارے کا نام منہ چڑا رہا تھا۔ ڈاکٹر فتح محمد ملک جو 2002سے2005 تک اِس ادارے کے چیئرمین کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں، یہ کہہ کر اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے کہ ادارہ اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے لئے تفویض کی گئی تمام ذمہ داریاں پوری کر چکا ہے اور اب اِس ضمن میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں رہی مگر اُس کے باوجود کسی حکومت نے اِس طرف توجہ نہ دی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ پہلے چیف جسٹس تھے، جنہوں نے اردو زبان میں حلف اُٹھایا اور پھر 8ستمبر 2015کو دیئے گئے فیصلے میں حکم دیا کہ آئینی تقاضے کے مطابق اردو زبان کو تین ماہ کی مدت میں بطور سرکاری زبان رائج کیا جائے۔ اِس سے قبل 6جولائی کو کابینہ ڈویژن کی طرف سے جاری کئے گئے مراسلے میں تمام محکموں کو وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے یہ ہدایت دی جا چکی تھی کہ سرکاری احکامات و مراسلے اردو میں جاری کئے جائیں اور پہلے سے موجود سرکاری دستاویزات کا اردو میں ترجمہ کیا جائے مگر سپریم کورٹ کے اِس فیصلے پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا اور حکومت نہ صرف آئین شکنی کی مرتکب ہو رہی ہے بلکہ توہین عدالت کا ارتکاب بھی کیا جا رہا ہے۔
اردو زبان کی ترویج اور فروغ کے لئے پنجاب کے ضلع وہاڑی کے ایک چھوٹے سے گائوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شریف نظامی نے بے مثال جدوجہد کی اور اب اِس ضمن میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ایک قابل ذکر قدم اُٹھایا ہے۔ سراج الحق نے سینیٹ میں قرارداد پیش کی تھی کہ بہت سے ذہین و فطین اور قابل نوجوان سول سروس کے امتحان میں اِس لئے ناکام ہوجاتے ہیں کہ اُن کی انگریزی اچھی نہیں، اس لئے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو پابند کیا جائے کہ امیدواروں کو اردو میں مقابلے کا امتحان دینے کا حق فراہم کرے۔ یہ قرارداد منظور کر لی گئی ہے لیکن حسبِ سابق اِس پر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ اُس سے انگریزی زبان پر عبور رکھنے والے ’’بابوئوں‘‘ کی اجارہ داری ختم ہو سکتی ہے۔
یہ اِس نوعیت کی پہلی کوشش نہیں بلکہ اِس سے قبل فروری 2017میں لاہور ہائیکورٹ نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو حکم دیا تھا کہ 2018کا امتحان اردو میں لیا جائے مگر کمیشن نے وقت کی کمی کا عذر پیش کرتے ہوئے اُس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تو لاہور ہائیکورٹ کے ہی ایک اور بنچ نے اِس فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا۔ ایک وقت تھا جب قوم پرست اردو کو بطور سرکاری زبان قبول کرنے سے گریزاں تھے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اردو کو قبولیت حاصل نہ تھی۔
اکبر بگٹی وفاق سے خفا ہوئے تو اُنہوں نے اردو کا بائیکاٹ کر دیا مگر اب ایک پختون رہنما کی طرف سے اردو کے حق میں قرارداد پیش کیا جانا خوش آئند پیشرفت ہے اور ماضی کی یاد دلاتی ہے جب مولانا مفتی محمود نے بطور وزیراعلیٰ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) اور عطااللہ مینگل نے بطور وزیراعلیٰ بلوچستان قوم پرستوں کی مخالفت مول لے کر اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا فیصلہ کیا۔ اِس کے برعکس وفاقی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت مصلحتوں کا شکار رہی۔
حنیف رامے پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اور ڈاکٹر فتح محمد ملک کی سربراہی میں ’’مجلس زبانِ دفتری کمیٹی‘‘ نہایت برق رفتاری سے انگریزی کی جگہ اردو کو رائج کرنے کی تیاریاں کر رہی تھی۔ اِس دوران ذوالفقار علی بھٹو نے حنیف رامے کو کہا کہ آہستہ چلیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ سندھ میں میرے لئے مشکلات پیدا ہو جائیں اور پھر ممتاز بھٹو کے دور میں سندھ اسمبلی نے یہ قرارداد منظور کرلی کہ سندھی کو صوبے کی سرکاری زبان بنایا جائے۔جب بھی اردو کو سرکاری زبان بنانے کی بات ہوتی ہے تو ’’بابو‘‘ بھد اُڑاتے ہوئے کہتے ہیں کنگھے کو کیا کہا جائے اردو میں ’’آلہ آرائش و زیبائش گیسو‘‘۔ چیف سیکرٹری کو کیا ’’اسٹار منشی‘‘ کہہ کر بلایا جائے۔
اگر نیت میں فتور ہو تو اس نوعیت کے بیشمار مضحکہ خیز متبادل الفاظ پیش کئے جا سکتے ہیں ورنہ اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر سرکاری اصطلاح کو تبدیل کیا جائے، جو الفاظ زبان زدعام ہیں، اُنہیں جوں کا توں رکھا جائے یا بتدریج بدلا جائے.