علامہ اقبال کو نوبیل انعام کیوں نہ ملا ؟

  • February 21, 2019 12:10 pm PST
taleemizavia single page

عارف وقار

علامہ اقبال اور رابندر ناتھ ٹیگور ہندوستان کے دو عظیم ہم عصر شاعر تھے جن کا کلام ایک ہی زمانے میں مشہور ہوا۔ شاعری کی حدود سے نکل کر سیاسی اور سماجی میدان میں بھی دونوں شخصیات بیسویں صدی کے اوائل میں ایک ساتھ نمودار ہوئیں لیکن یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ عمر بھر دونوں کی ملاقات کبھی نہیں ہوئی۔

علامہ اقبال کے مداحوں کو اس بات کا ہمیشہ قلق رہا ہے کہ ہندوستان کے اوّلین نوبیل انعام کا اعزاز اقبال کی بجائے ٹیگور کو حاصل ہوا۔ شاید اس ’زیادتی‘ کی تلافی ہو جاتی اگر بعد کے برسوں میں اقبال کو بھی اس انعام کا مستحق قرار دے دیا جاتا لیکن 1913 سے 1938 تک کے 25 برسوں میں ایک بار بھی نوبیل کمیٹی کی توجہ اقبال پر مرکوز نہ ہو سکی۔

چونکہ نوبیل کمیٹی کی تمام دستاویزات اور خط و کتابت پر پچاس برس تک اِخفاء کی پابندی رہتی ہے اس لیے سن ساٹھ کے عشرے تک یہ محض ایک راز تھا اور اس پر ہر طرح کی چہ می گوئیاں ہوتی تھیں۔اسےایک سوچی سمجھی سازش بھی قرار دیا جاتا تھا ۔علامہ اقبال کو نوبیل پرائیز سے کیوں محروم رکھا گیا تھا۔

1963 میں پرانے دستاویزات کے سامنے آنے پر کھُلا کہ کمیٹی نے کوئی سازش نہیں کی تھی اور نہ ہی علامہ اقبال کی نامزدگی کا جھگڑا کبھی پیدا ہوا تھا۔

لیکن اگر بنگال کے شاعر رابندر ناتھ کا نام کمیٹی کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے تو اقبال کی نامزدگی میں کیا قباحت تھی؟ پرانے دستاویزات اس سلسلے میں کوئی واضح رہنمائی نہیں کرتے۔

سن 1914 کےاوائل میں تیار ہونے والی ایک رپورٹ میں نوبیل کمیٹی کے چئر مین ہیرلڈ ہئیارن نے جِن خیالات کا اظہار کیا ہے اُس سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ میں چھڑنےوالی جنگ کی ممکنہ تباہ کاری کو دیکھتے ہوئے کمیٹی سوچ رہی تھی کہ نوبیل انعام ایسے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہیئے جو جنگ اور تباہی کے پرچارک ہوں۔

کمیٹی کو احساس تھا کہ نوبیل انعام حاصل کرنے والا ادیب راتوں رات شہرت کےآسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ ظاہر ہے اِن تحریروں کا اثر دنیا کے سبھی باشندوں پر پڑتا ہے۔

ہیرلڈ ہئیارن نے مختلف ماہرین کی آراء پیش کرنے کے بعد رپورٹ میں خیال ظاہر کیا کہ ادب کا نوبیل انعام دیتے وقت اس امر کو بطور خاص مدِّ نظر رکھنا چاہیئے کے یہ انعام کسی قوم پرستانہ مصنف کو نہ چلا جائے یعنی کسی ایسے قلم کار کو جو ایک مخصوص قوم کے ملّی جذبات کو ابھار کر دنیا پرچھا جانے کی ترغیب دے رہا ہو۔

ٹیگور کو اقبال سے شکوہ تھا کہ اس نے اپنی مادری زبان کےلئے کچھ نہیں کیا۔ بقول ٹیگور اگر اقبال نے فارسی اور اُردو کی بجائے پنجابی کو اپنا ذریعہء اظہار بنایا ہوتا تو آج پنجابی ایک پُرمایہ زبان ہوتی

ظاہر ہے کہ اقبال کی شاعری کا بیشتر حصّہ اسلام اور مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کو یاد کرنے اور اسے بحال کرنے کی شدید خواہش کا مظہر ہے۔ اقبال اپنی ملت کو اقوامِ مغرب سے بالاتر سمجھتے تھے کیونکہ اُن کے خیال میں قومِ رسولِ ہاشمی جن عناصر سے مل کر بنی ہے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں پائے جاتے۔

اگرچہ پہلی جنگِ عظیم سے قبل بھی یورپ کے سلسلے میں اقبال کسی خوش فہمی کا شکار نہیں تھے لیکن جنگ کے بعد یورپ کے بارے میں اُن کی تلخی مزید بڑھ گئی۔

1907 کی ایک غزل میں اقبال نے کہا تھا:

دیارِ مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہی زرِ کم عیار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا

1914ء کی ایک رپورٹ میں نوبیل کمیٹی کے چیئرمین خیال ظاہر کرتے ہیں کہ سیاسی اتھل پتھل ایک عارضی مرحلہ ہے، ادب کو اِن وقتی مصلحتوں سے ماوراء ہوکر عالمی اور دائمی اقدار کا دامن تھامنا چاہیئے۔

کم و بیش یہی وہ خیالات تھے جن کی بنیاد پر مہاتما گاندھی کے نوبیل پرائز کا راستہ بھی عرصہ دراز تک رُکا رہا لیکن گاندھی کےکیس میں کم از کم چار مرتبہ ان کا نام کمیٹی کے سامنے آیا اور اس پر خاصی بحث بھی ہوئی بلکہ نئی تحقیق کے مطابق تو 1948 میں انھیں انعام ملنے ہی والا تھا کہ ان کی ناگہانی موت واقع ہوگئی۔

علامہ اقبال کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ 1913 میں ٹیگور کو انعام ملنے کے ربع صدی کے بعد تک اقبال زندہ رہے لیکن نوبیل کمیٹی نے کبھی اُن کے نام پر غور نہیں کیا۔ اقبال کی شہرت کا سورج اس وقت نصف النہار پر تھا اور یہی وہ زمانہ تھا جب اقبال کو حکومتِ برطانیہ نے ٰ سر ٰ کا خطاب عطا کیا تھا، اگرچہ یہاں بھی ٹیگور انہیں مات دے گئے کیونکہ ٹیگور کو سر کا خطاب سات برس پہلے 1915 ہی میں مِل گیا تھا۔

ٹیگور مادری زبان کو مقدس سجھتے تھے۔ ایک بار جب وہ اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علموں کی دعوت پر پنجاب آئے تو طالب علموں نے ان کے استقبال کےلیے اُن کا معروف بنگالی ترانہ گانا شروع کر دیا۔ ٹیگور نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے زیادہ خوشی ہوگی اگر آپ پنجاب کی کوئی سوغات پیش کریں۔ چنانچہ ٹیگور کی خدمت میں ہیر وارث شاہ کےچند بند، ہیر کی روائیتی طرز میں پیش کئے گئے۔ ٹیگور مسحور ہو کر رہ گئے اور محفل کےاختتام پر بولے میں زبان تو نہیں سمجھتا لیکن جتنی دیر ہیر پڑھی جاتی رہی میں مبہوت رہا اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے کوئی زخمی فرشتہ فریاد کر رہا ہو۔

علامہ اقبال کی شعری کائنات یقیناً ٹیگور کے شعری احاطے سے بہت بڑی تھی کیونکہ شعرِ اقبال کا ایک سرا اگر بطونِ ذات میں تھا تو دوسرا وسعتِ کائنات میں تھا لیکن ٹیگور کے مقابل نوبیل انعام سے محرومی یقیناً ان کے سینے کا ایک داغ بن گئی تھی جس کی کسک انہوں نے آخری دم تک محسوس کی ہوگی۔

ٹیگور کو اقبال سے بھی یہی شکوہ تھا کہ اس نے اپنی مادری زبان کےلئے کچھ نہیں کیا۔ بقول ٹیگور اگر اقبال نے فارسی اور اُردو کی بجائے پنجابی کو اپنا ذریعہء اظہار بنایا ہوتا تو آج پنجابی ایک پُرمایہ زبان ہوتی۔

اقبال کے سلسلے میں ٹیگور کا یہ بیان ایک نوبیل انعام یافتہ شاعر کا بیان بھی تھا —- ایک ایسے شاعر کے بارے میں جو اس اعزاز سے محروم رہا۔

یہ بیان تھا ٰ سر ٰ کا خطاب ٹھکرا دینے والے ایک شخص کا، اُس شخص کے بارے میں جس نے انگریزوں کے عطا کردہ اس خطاب کو عمر بھر سینت سینت کے رکھا۔

علامہ اقبال کی شعری کائنات یقیناً ٹیگور کے شعری احاطے سے بہت بڑی تھی کیونکہ شعرِ اقبال کا ایک سرا اگر بطونِ ذات میں تھا تو دوسرا وسعتِ کائنات میں تھا لیکن ٹیگور کے مقابل نوبیل انعام سے محرومی یقیناً ان کے سینے کا ایک داغ بن گئی تھی جس کی کسک انہوں نے آخری دم تک محسوس کی ہوگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *