کاغذ کی ایجاد سے چھاپہ خانہ تک
- May 26, 2017 5:22 pm PST
مائیکل ہارٹ
کاغذ کے موجد تسائی لون کا نام بیشتر قارئین کے لیے غالباً معروف نہیں ہے۔تسائی لون کی زندگی کے بارے میں ہمیں زیادہ معلومات حاصل نہیں ہیں۔ چینی تاریخی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک مخنث تھا۔ یہ بات بھی ہمیں معلوم ہوئی ہے کہ شہنشاہ تسائی لون کی ایجاد سے بہت راضی تھا۔
بعد ازاں وہ شاہی محل کی سازشوں میں ملوث ہوگیا۔ چینی دستاویزات میں ہی یہ واقعہ بھی لکھا گیا ہے کہ اپنے جرم کی سزا کے طورپر اس نے غسل کیا، عمدہ لباس زیب تن کیا اورزہر پی لیا۔دوسری صدی عیسوی میں چین میں کاغذ کا استعمال عام ہوگیا۔
اگلی چند صدیوں میں چین کاغذ تیار کر کے ایشیاء کے مختلف علاقوں میں برآمد کرنے لگا تھا۔ طویل عرصہ تک انہوں نے کاغذ بنانے کی ترکیب کومخفی رکھا۔ 751ء میں چند کاغذ ساز چینی عربوں کی اسیری میں آئے۔ تو اس کے بعد تھوڑے ہی عرصہ بعد ثمرقند اور بغداد میں بھی کاغذ تیارکیاجانے لگا۔ کاغذ سازی کافن بتدریج تمام عرب دنیا میں پھیل گیا۔
بارہویں صدی عیسوی میں یورپی اقوام نے عربوں سے یہ فن سیکھا۔ کاغذ کا استعمال بھی بتدریج بڑھا۔ گٹن برگ نے چھاپہ خانہ ایجاد کیا تو کاغذ نے یورپ میں لکھنے کے بنیادی مواد کی حیثیت سے چرمی کاغذ کی جگہ لے لی۔آج کاغذ اس قدر عام ہوگیا ہے کہ ہم اسے درخوراعتناہی نہیں گردانتے۔
اب یہ قیاس کرنا دشوار ہے کہ کاغذ کے بغیر یہ دنیا کیسی تھی؟ چین میں تسائی لون سے پہلے بیشتر کتابیں بانس کی لکڑی پر لکھی جاتی تھیں۔ ظاہر ہے ایسی کتابیں نہایت وزنی اور بے ڈھنگی ہوتی تھیں۔ چند کتابیں ریشمی کپڑے پر بھی لکھی جاتی لیکن عمومی استعمال کے لیے یہ بہت مہنگاسامان تھا۔
مغرب میں کاغذ کے استعمال سے پیشتر زیادہ تر کتابیں چرمی کاغذ یا چمڑے کی باریک جھلی پر لکھی جاتی تھیں۔ جو خاص طورپر بھیڑیا بچھڑے کی کھال سے تیار کی جاتی تھیں۔ اس کی جگہ یونانیوں، رومیوں اورمصریوں کے مرغوب پیپرس کاغذ نے لی۔ یہ چرمی یا پیپرس کاغذ دونوں نہ صرف کمیاب تھے بلکہ ان کی تیاری بھی بڑی لاگت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
آج کتابیں اوردیگر لکھنے کا کاغذارزاں قیمت اور بڑی تعداد میں آسانی سے تیار کیا جاتا ہے، جو بیشتر کاغذ کے وجودکا سبب ہے۔ یہ سچ ہے کہ اگر چھاپہ خانہ ایجاد نہ ہوتا تو کاغذ آج اس قدر وقعت کا حامل نہ ہوتا، تاہم اسمیں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر چھپائی کے لیے اس قدرارزاں اور بکثرت کاغذ موجود نہ ہوتا، تو چھاپہ خانہ بھی کبھی اپنی موجودہ افادیت کو برقرار نہ ر کھ پاتا۔
سو مسئلہ یہ ہے کہ کس شخص کو زیادہ درجہ دیاجائے؟ تسائی لون کویاگٹن برگ کو۔ اگرچہ میراخیال یہ ہے کہ دونوں برابر اہم ہیں، تاہم میں نے تسائی لون کا شمارپہلے کیا ہے۔ کیا یہ مناسب ہوگا کہ تسائی لون اورگٹن برگ کو دس انتہائی اثرانگیز شخصیات میں شامل کیاجائے؟
کاغذ اور چھاپہ خانہ جیسی ایجادات کی افادیت کے کلی احساس کے لیے ان سے متعلقہ چین ا ورمغرب کی ثقافتی ترقی کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ دوسری صدی عیسوی سے پہلی چینی تہذیب کی نسبت کم ترقی یافتہ تھی۔ اگلی صدی کے دوران چینی ترقی کی رفتاری یورپ سے کئی چند ہوگئی۔
قریب سات یا آٹھ صدیوں کے وقفہ میں چینی تہذیب متعدد حوالوں سے دنیا کی سب سے ترقی یافتہ تہذیب بن گئی۔ پندرہویں صدی کے بعد مغربی یورپ نے چین پر برتری حاصل کی۔ ان تغیرات کے حوالے سے متعدد تمدنی توجیہات پیش کی گئی ہیں لیکن ان میں سے بیشتر نظریات نے اس توجیہہ کو نظر انداز کر دیا، جو میرے خیال میں سادہ ترین ہے۔
تسائی لون کی کاغذ کی ایجاد نے تمام صورت حال کو یکسر تبدیل کردیا۔ لکھنے کے لیے مناسب کاغذ کی موجودگی میں چینی تہذیبی ترقی کی رفتار تیز تر ہوگئی۔ بس چند صدیوں میں ہی یہ مغرب سے آگے بڑھ گئی۔ کاغذ کے استعمال کے آغاز کے بعد مغربی اقوام نے چین سے مقابلے میں اپنی حالت کو درست کیا اور تہذیبی خلاء کو پر کیا۔
مارکوپولو کی تحریروں سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ تیرہویں صدی میں بھی چین مغرب کی نسبت کہیں زیادہ آسودہ حال تھا۔ آخر کس طور چین، مغرب کے مقابلے میں پستی کا شکار ہوا؟ اس کی متعدد پیچیدہ تہذیبی توضیحات پیش کی گئی ہیں لیکن شاید تکنیکی ترقی ہی سادہ ترین وجہ بنتی ہے۔ پندرہویں صدی میں یورپ کے ایک فطین انسان گٹن برگ نے کتابوں کی وسیع پیمانے پر اشاعت کا طریقہ ایجاد کیا۔ بعدازاں یورپ کی تہذیبی ترقی سبک رو ہو گئی۔
چین کے پاس کوئی گٹن برگ موجود نہیں تھا۔ وہ سانچوں کی چھپائی تک ہی محدود رہا اور اسی تناسب سے اس کی تہذیبی ترقی بھی سست ہوتی گئی۔ اگر مندرجہ بالا تجزیہ کومان لیاجائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ تسائی لون اور جوہن گٹن برگ انسانی تاریخ کی دو نہایت اہم شخصیات تھے۔
تسائی لون کا مقام و مرتبہ چند وجوہات کی بناء پر دیگر موجدوں سے بلند ہے۔ زیادہ تر ایجادات اپنے زمانے کی ضرورت کا ایک نتیجہ تھیں۔ وہ معرض وجود میں آہی جانی چاہیے ان کاموجد کبھی پیدانہ بھی ہوتا۔ لیکن کاغذ کے معاملے میں بات مختلف ہے۔ یورپ میں تسائی لون کے ایک ہزار برس بعد کہیں جا کر کاغذ کا استعمال شروع ہوا۔ وہ بھی اس طورکہ عربوں نے اسے متعارف کروایا۔
یہی وجہ ہے کہ چینی کاغذ سے متعارف ہوجانے کے باوجود دیگر ایشیائی اقوام اس کی تیاری کے راز کو نہ پاسکیں۔ ظاہر ہے اس طرح کے کاغذکی تیاری کا طریقہ کار بہت زیادہ دشوارتھا، اس کی دریافت کسی معقول حد تک ترقی یافتہ تہذیب کی مرہون منت نہیں تھی، بلکہ اس کے لیے خداداد جوہر کی حامل شخصیت کا ہونا ضروری تھا۔
تسائی لون ایسی ہی ایک شخصیت تھا۔ اس کا کاغذ سازی کا طریقہ کار اسی بنیادی کلیہ پرمبنی تھا، جو ہمیشہ سے زیراستعمال رہا تھا۔