یو ای ٹی لاہور بچائو
- September 17, 2019 1:34 pm PST
سعد ابراہیم
طلباء جب بھی اجتماعی مسائل پر آواز اُٹھاتے ہیں، ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوتے ہیں تو جامعات میں انضباطی کارروائی کی چٹھیاں طلباء کو تھما دی جاتی ہیں. ایسا ہی گزشتہ ہفتے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے طلباء کے ساتھ ہوا. انتظامیہ میں شامل اساتذہ بھی ان کارروائیوں سے طلباء کی آواز دباتے ہیں.
گزشتہ جمعہ کے روز یو ای ٹی لاہور میں انتظامیہ نے رات کو ہاسٹل انسپکشن کے نام پر Raid کی تو طلباء یونیورسٹی میں ہی کسی اور مقام پر چھپ گئے چنانچہ سینئر وارڈن ڈاکٹر مشتاق کے حکم پر ان کے کمروں کو ڈبل لاک کر دیا گیا اور طلباء کی تصویریں اشتہاری مجرموں کی طرح گارڈز کو دے دی گئیں کہ انھیں پکڑا جائے جیسے ملزم کو گرفتار کیا جاتا ہے.
گویا رات گئے ان طلباء کو گارڈز نے زیر حراست لے کر رجسٹرار دفتر پہنچا دیا چونکہ میں خود یو ای ٹی میں زیر تعلیم ہوں تو میں ان طلباء کے پاس پہنچا لیکن ڈیڑھ گھنٹہ تک انھیں کمرے میں ہی محبوس رکھا گیا. رجسٹرار کے دفتر میں ڈائیریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز ڈاکٹر آصف علی قیصر نے طلباء کو زد و کوب کیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاںدیں جس پر ان طلباء نے احتجاج کی کال واپس لے لی.
اب یہ طلباء پر دبائو کا پہلا وار تھا لیکن احتجاج انفرادی مسائل پر نہیں بلکہ یو ای ٹی کے تمام طلباء کے مسائل سے متعلق تھا. فیسوں میں دو گنا اضافہ، سیکیورٹی گارڈز کی بدمعاشیاں، صاف پانی کی عدم دستیابی، سوشل میڈیا کے استعمال پر پاپندی، ہاسٹلز کے بد ترین حالات اور طلباء کے لیے بسوں کی کمی جیسے سنگین مسائل پر احتجاج تھا. اس احتجاج کو روکنے کے لیے ڈی ایس اے نے دھمکیوں کا راستہ اپنایا اور طلباء کی جمہوری آواز کا گلہ دبایا گیا.
جن طلباء کو رجسٹرار دفتر میں زیر تفتیش رکھا گیا انھوں نے احتجاج کی کال واپس لے لی اور خود ہی احتجاجی نکات کے خلاف ہوگئے.
سیکیورٹی کی بدمعاشی کا یہ حال ہے کہ یہاں ایڈمشن کے لیے آنے والے طلبہ کو باقاعدہ تھپڑ مارا گیا اور اگلے دن اسی جگہ مجھے خود دھکے دیے گئے ۔ ان کی رسیاں اتنی ڈھیلی بلکہ کھل چکی ہیں کہ ان کی بات شروع ہی بازوں سے پکڑ کے انتہائی بدتمیزی سے ہوتی ہے ، حالات ایسے ہیں کہ یہ لوگ پنجاب پولیس سے بھی آ گے نکل گئے ہیں اور یہی حالات ایڈمن میں بیٹھے کلرکوں کا ہے.
جمعہ کے روز طلباء اپنے مسائل سے متعلق آگاہ کرنے کے لیے وائس چانسلر ڈاکٹر منصور سرور کے پاس جا رہے تھے، ہم نے نعرے بازی نہیں کی، ہمارے ساتھ مزید طلباء بھی شامل ہوگئے تاہم سیکیورٹی آفیسر نے رجسٹرار محمد آصف کے ہمراہ ہمیں آئی بی ایم ڈیپارٹمنٹ کے سامنے یہ کہہ کر روک لیا گیا کہ ہم آپ کے مسائل سنتے ہیں. ہم طلباء ان کی مان کر آئی بی ایم چلے گئے.
آئی بی ایم میں 30 منٹ تک ہم نے اپنے مسائل بیان کیے اور وہاں موجود انتظامیہ کے افراد نے ہمارے مسائل کو جائز مانا اور انھیں حل کرانے کی یقین دہانی کرائی.
سیکیورٹی کا مسئلے سب کو تھا ، گندے پانی اور نہایت ہی غلیظ واش رومز اور طلباء کو دھمکیاں دینا معمول بن چکا ہے. اس میٹنگ میں ہمیں یقین دلایا گیا کہ طلباء کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی، دھمکی دینے والے سیکیورٹی اہلکار کے خلاف کارروائی اور بقیہ فیسوں کی ادائیگیوں کی تاریخ میں توسیع کی یقین دہانی کرائی گئی اور تمام مسائل کے حل کیلئے دو ہفتوں کا وقت مانگ لیا گیا.
اب مجھ سمیت ایک اور طالب علم کو انضباطی کارروائی کا نوٹس بھیج دیا گیا ہے اور ڈسپلنری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے. کیا طلبہ کی سننے والا کوئی نہیں ہے ؟ کیا ہم اپنے مسائل کے لیے آواز نہیں اُٹھا سکتے؟ کیا ہم وائس چانسلر سے ملاقات نہیں کر سکتے؟
یو ای ٹی لاہور پاکستان کی نامور انجینئرنگ یونیورسٹی ہے، یہاں کے طلباء اپنی ذہانت اور تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر داخلہ حاصل کرتے ہیں، یہ طلباء پاکستان کا شاندار مستقبل ہیں، ان طلباء کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کس کی ایماء پر کیا جارہا ہے؟
یو ای ٹی کے ڈائیریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز ڈاکٹر آصف علی قیصر نے طلباء کو دبانے کے لیے اب تک تین نوٹیفکیشن جاری کیے، اور تینوں منسوخ ہوئے. طلباء کا ڈریس کوڈ، میوزیک پر پاپندی اور کنٹینوں پر لڑکے لڑکیوں کا ایک ساتھ بیٹھنے کے نوٹیفکیشن شامل ہیں. ہم طلباء کی وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر ہائیر ایجوکیشن سے ہمدردانہ اپیل ہے کہ طلباء کے مسائل حل کرائے جائیں اور وائس چانسلر کو ہدایات جاری کی جائیں.
پاکستان میں تمام طبقہ ہائے زندگی کے افراد کو انجمنیں بنا کر اپنے سیاسی، جمہوری اور قومی حقوق کی آواز اُٹھانے کی اجازت ہے لیکن آئین پاکستان کے تحفظ کے باوجود طلباء کا جمہوری آواز کے ذریعے حقوق مانگنا جرم تصور کیا جاتا ہے یہی ضیاء آمریت کی باقیات ہیں.