ٹرمپ کی فتح: امریکہ میں ہائر ایجوکیشن کا مستقبل
- November 22, 2016 5:31 pm PST
رملہ ثاقب
جب امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری 2017ء کو اپنا عہدے کا حلف لیں گے تو امریکہ اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائے گا جہاں قوم پرستی، حقوق انسانیت کی خلاف ورزی اور زینو فوبک حکومتیں ہیں۔ان ممالک کی فہرست میں آج بھی ہنگری، پولینڈ، فلپائن اور کسی حد تک تُرکی بھی شامل ہے جبکہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانیہ بھی اس فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔
اسی طرح کی حکومتیں دُنیا کے دیگر ممالک میں بھی بننے کا اندیشہ ہے۔ 2017ء کو فرانس میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں نیشنل فرنٹ کا پلڑا بھاری ہوسکتا ہے۔ ہالینڈ میں بھی آئندہ سال الیکشن میں گیرٹ وائلڈرز کی قوم پرست جماعت پوپلسٹس تیزی سے اُبھر رہی ہے۔
جرمنی میں بھی الیکشن ہونے جارہے ہیں جہاں قوم پرستی کے حامیوں اور شام کے تارکین وطن کے مخالفین زور پکڑ رہے ہیں۔ یوں امریکہ بھی انہی ممالک کی فہرست مین شامل ہونے جارہا ہے جہاں قوم پرستی اپنے عروج پر ہے۔
ٹرمپ کی فتح کے سیاسی و معاشی نتائج کے ساتھ ساتھ یہ بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے پاس کانگرس سمیت دونوں ایوانوں میں مضبوطی ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ میں ہائر ایجوکیشن کا مستقبل، عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں بھی امریکہ پر براہ راست اثر ڈالیں گی۔
ٹرمپ کا الیکشن جیتنا بنیادی طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ قوم پرستی کا رجحان عالمی سطح پر فروغ پارہا ہے جس کی مماثلت بیسویں صدی کے پہلے عشرے کے ساتھ بہت زیادہ ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی ہائر ایجوکیشن سے متعلق کیا پالیسیاں ہوں گی فی الحال اس پر ٹھوس رائے دینا آسان نہیں کیونکہ صدارتی الیکشن کی مہم کے دوران اُنہوں نے تعلیمی پالیسی پر بہت ہی کم بات کی ہے۔
تاہم یہ امکان لگتا ہے کہ وفاقی حکومت ہائر ایجوکیشن سے جُڑی منافع بخش صنعت کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہی رکھے گی تاہم یہ خدشہ ہے کہ لبرل ایجوکیشن کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی۔ یوں لگتا ہے کہ اب امریکہ کی وفاقی حکومت تعلیمی پالیسیوں کے اعتبار سے زیادہ تر انحصار ریاستوں پر ہی کرے گی۔اگرچہ اس بات کے امکانات کم ہیں کہ اوبامہ انتظامیہ کی طرف سے شروع کیے گئے اقدامات کو ختم کر دیا جائے۔
امریکی سماج کا عالمی سطح پر یہ تاثر ہے کہ وہاں بین الاقوامی طلباء کو خوش آمدید کہا جاتا ہے، ہائر ایجوکیشن میں امریکہ کا دُنیا بھر میں کیا مقام ہوگا اس پر فی الحال بہت سارے سوالات باقی ہیں۔
برطانیہ کی یورپی یونین اتحاد سے علیحدگی کے بعد اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ برطانیہ کو ہائر ایجوکیشن کے معاملے پر کتنا نقصان ہوسکتا ہے اسی طرح امریکہ کے متعلق اگر یہ تاثر بن گیا کہ وہاں پر غیر ملکی طلباء کا خیر مقدم نہیں کیا جاتا تو مستقبل میں امریکہ غیر ملکی ذہین طلباء کے لیے پُرکشش ملک نہیں رہے گا۔
ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم کے دوران غیر ملکیوں ، مسلمانوں اور میکسیکو کی عوام کو نشانہ بنایا۔ غیر ملکی طلباء امریکہ میں جاکر تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ محض جذبات کی بنیاد پر نہیں کرتے بلکہ اُن کے پیش نظر تعلیمی مقاصد ہوتے ہیں اگر امریکہ میں ان طلباء کے لیے رکاوٹیں ڈالی گئیں تو اس سے امریکہ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ٹرمپ نے تمام غیر ملکیوں کو نشانہ بنایا ہے جس میں سے مسلمانوں اور میکسیکوں کی نشانرہی کرتے ہوے اپنی مہم میں انہیں خاص طور پر غصے کا نشانہ بنایا ہے۔
فی الحال امریکہ میں اس وقت چین کے 3 لاکھ 4 ہزار طلباء زیر تعلیم ہیں جو امریکہ میں موجود دس لاکھ غیر ملکی طلباء کا 31 فیصد ہیں۔ کیا چینی طلباء امریکہ جاکر تعلیم حاصل کریں گے اگر دونوں ملکوں میں تجارتی جنگ چھڑ گئی؟
سعودی عرب سے متعلق ٹرمپ کے بیانات کو اگر پالیسی کی شکل دے دی گئی تو اس وقت جو 60 ہزار سعودی طلباء امریکہ میں زیر تعلیم ہیں، کیا مستقبل میں سکالر شپ پر پڑھنے والے طلباء کو سعودی حکومت امریکہ بھیجتی رہے گی؟
یہ خدشہ ہے کہ ٹرمپ کی حکومت میں مخصوص پالیسیاں بنائی جائیں گی جس میں سخت ویزے کے ضوابط میں مسلمانوں اور دیگر غیر ملکیوں کی جانچ پڑتال کی نگرانی مزید سخت کر دی جائے گی۔
اگر ٹرمپ دور میں امریکی حکومت بین الاقوامی تعلیم پر بہت کم خرچ کرتی ہے تو پھر اس بات کا بھی امکان ہے کہ ان پروگراموں کو یا تو ختم کر دیا جائے گا یا پھر کم کر دیا جائے گا۔
فُل برائٹ پروگرام جو اس وقت امریکہ کا سب سے بڑا پروگرام ہے جس کی وجہ سے غیر ملکی طلباء کو امریکہ جاکر پڑھنے کا موقع ملتا ہے اس پروگرام کو بھی محدود کر دیا جائے۔ تو پھر خدشہ ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی فیکلٹی کی تعداد میں بھی کمی نظر آئے گی جو کہ امریکہ میں کوالٹی ایجوکیشن کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ گویا ویزے سخت ہونے سے امریکہ میں ذہین طلباء کے داخلے کم ہوں گے اور نوبل انعام جیتنے کی شرح بھی کم ہوسکتی ہے۔
آخر میں اس بات کے بھی امکان ہیں کہ ترقی پذیر دنیا میں یو ایس ایڈز اور اس جیسے دیگر امدادی پروگرام کی گنجائش بھی ختم ہونے کے امکانات ہیں۔
اگر امریکہ میں ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو پھر یہ امکان ہے کہ دوسرے ممالک آگے بڑھ کر ان انگریزی بولنے والے دونوں ممالک کو پیچھے چھوڑ دیں. اس میں کینیڈا اور آسڑیلیا کے زیادہ روشن امکانات ہیں۔
آئرلینڈ تازہ صورتحال کے مطابق اپنی تعلیمی حکمت عملی میں غیر ملکی طلباء کے لیے کشش پیدا کرنا چاہتا ہے خاص طور پر وہ طلباء جو یورپی یونین میں انگریزی بولنے کے لیے ماحول کی تلاش میں ہیں انکی مدد کرے گا۔
اسی طرح عالمی سطح پر بہت سے دیگر یورپی ممالک مثال کے طور پر چین، بھارت، جنوبی کوریا، سنگاپور اور جنوبی افریقہ بڑی تعداد میں انگریزی میں تعلیمی ڈگری پروگرام بڑھا رہے ہیں۔
امریکہ کی بڑی یونیورسٹیاں پھر بھی مضبوط رہنے کا امکان ہے جو غیر ملکی طلباء کے لیے پُرکشش بھی رہیں گی کیونکہ ان یونیورسٹیوں میں وفاقی سطح پر امریکی حکومت کی مداخلت یا پھر ریاست کی حکومتوں کی مداخلت نہیں ہوتی، ان یونیورسٹیوں کو خود یہاں کی انتظامیہ یا پھر کیمونٹیز کی مشاورت سے چلایا جاتا ہے۔ لہذا ان کے متاثر ہونے کے امکانات کم ہیں۔
ایم بات یہ ہے کہ امریکہ میں قوم پرستی، مذاحمتی سیاست کا رجحان بڑھ رہا ہے اس سے متعلق سوال اپنی جگہ ہے، اہم سوال یہ ہے کہ اس نئے اور ناپسندیدہ ماحول میں امریکی اعلیٰ تعلیم کیسے کام کرے گی؟