پاکستان میں سائنس کی تعلیم کا غیر سائنسی نصاب
- May 12, 2019 11:05 pm PST
پرویز ہود بھائی
حیاتیات (بائیولوجی) کی درسی کتاب سے اس مضمون کو بطور سائنس پڑھائے جانے کی توقع کی جاتی ہے۔ یعنی اس میں جاندار اشیا کی ساخت، نشوونما اور ماخذ کا سائنسی مطالعہ درج ہوگا۔ لیکن اگر اس کتاب میں یہ کہا گیا ہو کہ سائنس کو مخصوص نظریات کا پابند ہونا چاہیے اور حیاتیات کے بنیادی اصولوں کو غلط اور غیرعقلی قرار دے کر رد کیا گیا ہو تو؟
گزشتہ برس خیبر پختون خواہ میں شائع ہونے والی حیاتیات کی درسی کتاب میں کہا گیا ہے کہ ”انیسویں صدی میں چارلس ڈارون کا تجویز کردہ نظریہ ارتقا تاریخ میں کیے گئے سب سے ناقابل یقین اور غیرعقلی دعووں میں سے ایک ہے۔“ کتاب میں جانداروں کے سادہ سے پیچیدہ شکل اختیار کرنے کے دعوے کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ کامن سینس کے خلاف ہے اور اتنا ہی ”بے بنیاد“ ہے جتنا یہ سمجھنا کہ دو رِکشوں کے آپس میں ٹکرانے سے کار وجود میں آ جائے گی۔
بے شک دو رِکشوں کے آپس میں ٹکرانے سے کار وجود میں نہیں آسکتی۔ یہ عام فہم بات ہے۔ لیکن اس کا یک خلوی سے کثیرخلوی جانداروں کی طرف ارتقا سے کیا تعلق ہے (جسے مصنف رد کرنے کی کوشش کررہا ہے)؟ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ فہم عامہ یعنی کامن سینس سائنس کے لیے بہت زیادہ کارآمد چیز نہیں ہے۔ کیا یہ پرانے دور کی فہم عامہ نہیں تھی کہ سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے، زمین چپٹی ہے اور سردی میں باہر جانے سے زکام ہوتا ہے؟ سگریٹ نوشی مضر ہے یہ بات فہم عامہ سے نہیں بلکہ شواہد سے معلوم ہوئی۔
نیوٹن اور ڈارون نے قانونِ حرکت اور نظریہ ارتقا کے ثبوت فہم عامہ سے نہیں بلکہ طویل اور صبر آزما مشاہدات کے بعد اخذ کیے تھے۔
ان قوانین اور نظریات کو حیاتیات اور طبیعات سے نکال باہر کرنے سے دونوں مضامین بے معنی ہو کر رہ جائیں گے۔ پھر حیاتیات‘ حیاتیات اور طبیعات‘ طبیعات نہیں رہے گی بلکہ دونوں مضامین سائنس کے دائرے سے خارج ہوجائیں گے۔
میں نے جس درسی کتاب کا حوالہ دیا ہے اگر صرف وہی قابل اعتراض ہوتی تو یہ مضمون نہ لکھتا۔ لیکن تقریباً تمام درسی کتب کا یہی حال ہے۔ خیبرپختون خواہ کی ایک اور درسی کتاب میں کہا گیا ہے کہ متوازن اور درست دماغی حالت والا فرد مغربی سائنس کے بے لگام نظریات قبول نہیں کرسکتا۔ یعنی کوئی پاگل ہی ایسا کرسکتا ہے۔
سائنس کی مخالفت صرف ہماری درسی کتب تک ہی محدود نہیں ہے۔ پاکستان میں سائنس اور ریاضی کے بہت سے اساتذہ اپنے پیشے سے ہی خوش نہیں ہیں۔ سکول ہو یا یونیورسٹی، انہیں سرٹیفکیٹ اور ڈگری کی بنیاد پر ملازمت مل جاتی ہے لیکن بہت سے اساتذہ ان نظریات کو خود بھی نہیں سمجھتے جنہیں پڑھانا ان کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے اور جو اساتذہ ان نظریات کو سمجھتے ہیں ان میں سے بہت سے ان نظریات سے خود بھی اتفاق نہیں کرتے۔ یہ باعث حیرت نہیں کہ پاکستان میں حیاتیات کے بیشتر اساتذہ انسانی ارتقا کے سوال کو چھوتے بھی نہیں۔ یا شاید اس کی جرات نہیں کر پاتے۔
بعض اساتذہ عقیدے اور سائنس کے بیچ میں پھنس جاتے ہیں۔ قاری این (فرضی نام) قائداعظم یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر اور یونیورسٹی کی رہائشی کالونی میں میرے ہمسائے تھے۔ وہ نرم خو اور پرہیزگار انسان تھے۔ اپنی شلوار ٹخنوں سے خاصی اوپر باندھتے تھے اور نماز عید کے بعد روایتی انداز میں بغل گیر ہونے کو بدعت قرار دے کر جھٹک دیتے تھے۔
اگرچہ شریف النفس قاری صاحب نے ریاضی میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی لیکن اپنے ایم ایس سی کے طلبہ کو کہا کرتے تھے کہ وہ پڑھاتے تو ریاضی ہیں لیکن ریاضی پر اعتبار مت کرنا۔ وہ نہ صرف ریاضی بلکہ مغربی ثقافت سے آلودہ ہر شے کو رد کرتے تھے جس میں طب جدید بھی شامل ہے۔ ذیابیطس کے مرض کی شدت کے باوجود وہ عام ڈاکٹر کی بجائے حکیم پر اعتماد کرتے تھے جو انہیں روزانہ خالص شہد کے متعدد چمچ تجویز کرتا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ تدریسی مصروفیت کے باعث میں ان کے جنازے میں شریک نہ ہو سکا۔
پاکستان میں تخلیقی سائنس اور ٹیکنالوجی کے ناپید ہونے کی بنیادی وجہ ہماری سائنس سے نظریاتی خلش ہے۔ تاہم بعض دیگر وجوہ بھی ہیں۔ ان میں سب سے اہم درسی کتب کی اشاعت میں بدعنوانی اور انتہا درجے کی نااہلی ہے۔ میرے خیال میں پاکستان سے بڑھ کر کوئی ملک اپنے بچوں کو غلط اور غیر معیاری تعلیم نہیں دیتا۔
چار دہائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران میں نے اردو اور انگریزی زبانوں میں سکولوں کی بہت ساری درسی کتب کو جمع کیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کو پنجاب اور سندھ ٹیکسٹ بورڈز نے شائع کیا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ 20 کروڑ کی آبادی کے لئے کتنی زیادہ تعداد میں درسی کتب شائع کرنے کی ضرورت ہوتی ہو گی اور فی کتاب تھوڑا سا منافع بھی مجموعی طور پر کتنا زیادہ ہو جاتا ہوگا۔ اسی وجہ سے سرکاری شعبہ تعلیم میں بدعنوانی اور نااہلی کے فروغ کے مثالی حالات پائے جاتے ہیں۔
ایک سال قبل میرا مضمون ”برائے مہربانی ان کتب کو جلا دیں“ روزنامہ ڈان میں شائع ہوا تھا۔ اس میں استدعا کی گئی تھی کہ طلبہ کو سندھ وزارت تعلیم کے تحت کام کرنے والے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی بوسیدہ درسی کتب سے دور رکھا جائے ورنہ طبیعات، ریاضی، کیمیا اور حیاتیات جیسے مضامین سے بے بہرہ ایک اور نسل پیدا ہوجائے گی۔
سندھ کے سیکرٹری تعلیم (جو تبدیلی لانے میں سنجیدہ لگتے تھے) نے اس مضمون پر توجہ دی۔ انہوں نے مجھے سندھ مشاورتی بورڈ کا حصہ بننے کی دعوت دی۔ اس اعزازی حیثیت کو میں نے فوراً قبول کرلیا۔ کراچی میں مقیم ایک انسان دوست نے درسی کتب کو ازسر نو لکھنے کے اخراجات اٹھانے کی ذمہ داری لی اور کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے ہوائی سفر کے اخراجات بھیجے۔ کچھ جوش تھا اور بہتری کی کچھ امید تھی۔ مجھے امید ہوچلی تھی کہ شاید ہماری کوششیں رنگ لائیں گی۔
پہلا اجلاس ہوا اور پھر اس کے بعد متعدد اجلاس اور ہوئے۔ بدقسمتی سے کمیٹی کے سیکرٹری نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہ ہونے پائے۔ بہت سے وعدے کیے گئے لیکن عمل درآمد کسی پر نہ ہوا۔ اہم معاملات کو نظرانداز کیا گیا اور اس کام میں لاتعداد بیوروکریٹک رکاوٹیں ڈالی گئیں۔
ایک سال کے اندر اندر سب کچھ سبوتاژ کردیا گیا۔ کمیٹی میں شامل امریکی درسگاہ کے ایک قابل استاد کی بھی ایک نہیں چلنے دی گئی۔ اب میں افواہیں سن رہا ہوں کہ کمیٹی تحلیل کردی گئی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سنجیدگی پہلے ہی دن سے نہیں دکھائی گئی تھی۔ بھیڑوں کی رکھوالی کا ذمہ بھیڑیوں کے سر ہو تو انجام پر حیرت نہیں ہوتی۔
سندھ کی وزارت تعلیم میں اصلاحات نہیں ہو سکتیں۔ یہ میٹرک اور ایف ایس سی کی معیاری درسی کتب فراہم نہیں کرسکتی۔ میرا مشورہ اب بھی یہی ہے کہ پاکستان میں انتہائی قلیل اور مہنگے سکولوں میں ’او‘ اور ’اے‘ لیول میں زیرِ استعمال بین الاقوامی کتب کو ترجمے کے بعد اردو میں رعایتی قیمت پر فراہم کیا جائے۔ فی الحال اس مسئلے کا یہی واحد معقول حل نظر آتا ہے۔
جنہیں یہ اعتراض ہے کہ یوں مغربی ثقافت در آئے گی انہیں کہا جائے کہ وہ اپنی سائنس لا کر دکھائیں۔ اس دوران میں انہیں بجلی یا موبائل فون کی سہولت استعمال نہیں کرنی چاہیے اور صرف گدھے اور اونٹ پر سفر کرنا چاہیے۔ انہیں انسولین یا اینٹی بائیوٹک کی بجائے میرے مرحوم ہمسائے کی طرح شہد استعمال کرنا چاہیے.