طلباء یونین پر پاپندی اور اے ٹی آئی
- February 8, 2017 6:57 pm PST
عامر اسماعیل
آج سے تیس سال پہلے طلبا کے کندھوں پر سفر کرکے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے طلبہ کو اپنا آلہ کار اور دم چھلہ بنا رکھا تھا انکے ذریعے معاشرے میں کلاشنکوف کلچر اور تشدد کے واقعات عام کروائے۔
انہی واقعات کو وجہ اور بنیاد بناکر جنرل ضیاء الحق کے برسراقتدار آنے کے بعد 9فروری 1984کو گورنر پنجاب زون اے کے مارشل لاء ایڈمنسٹر جنرل غلام جیلانی نے جاری کیا جس سے پنجاب میں طلباء تنظیمیں اور طلباء یونین پر پابندی عائد کر دی گی۔
اس طرح صوبہ سندھ میں 11فروری1984ء کو گورنر سندھ اور زون سی کے مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر جنرل ایس ایم عباسی نے پابندی عائد کی26 اپریل1983ء کو صوبہ سرحدمیں پابندی عائد کی گئی انجمن طلباء اسلام اس دن کوملک بھر میں یوم سیاہ اوریوم حقوق طلبہ کے طور مناتی ہے انجمن طلباء اسلام نے اس پابندی کو کبھی بھی قبول نہیں کیا۔
بلکہ اس پابندی کے خلاف بھر پور جہدوجہد کی ہے یہ پابندیاں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی منتخب یونینوں پر ہی نہیں بلکہ طلبہ تنظیموں پربھی عائد کر دی گئیں، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں انجمن طلبہ اسلام سمیت دیگر طلبہ تنظیموں کے دفاتر سیل کر دیے گئے۔انجمن کا مرکزی دفتر بر وقت حکمتِ عملی سے سیل ہونے سے بچ گیا۔آزاد کشمیر میں یہ پابندیاں عائد نہیں کی گئیں۔
ستمبر1984ء میں طلباء حقوق کے لیے انجمن نے تحریک چلائی جس کی پاداش میں مرکزی و صوبائی قیادت کو کارکنان سمیت تعلیمی اداروں سے خارج کر دیا گیا فروری 1987کولاہورمیں شاہراہ قائد اعظم پر بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ کیاجس پر جنرل سیکریڑی پنجاب سمیت 50کارکنوں کوگرفتارکر لیا گیاجبکہ داخلے منسوخ،دفاتر سیل کر دئیے گئے ، ناکافی وسائل کے باوجود انجمن طلبہ اسلام نے حکومتی فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیا ۔
سترہ جنوری1988ء کو جناح ہال لاہور میں انجمن کے زیرِ اہتمام تعلیمی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ریٹائرڈ جسٹس انوار الحق نے حکومت پر زور دیا کہ طلبہ تنظیموں پر عائد پابندیاں فی الفور ختم کی جائیں تاکہ طلبہ تعلیمی اداروں میں اپنی پسند کے نمائندے منتخب کرکے اپنے مسائل حل کر سکیں۔
دو دسمبر 1988ء کو نو منتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے طلبہ یونینوں پر سے پابندی اٹھانے کا اعلان کیا۔اس وقت نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے جبکہ دیگر صوبوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ 9مارچ 1989ء کو صوبۂ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین الیکشن ہوئے ۔پنجاب کے علاوہ کسی اور صوبے میں جہاں پیپلز پارٹی کی حکو مت تھی، طلبہ یونین الیکشن نہیں کرائے گئے۔
پنجاب میں منعقدہ الیکشن میں انجمن طلبہ اسلام نے 155سے زائد تعلیمی اداروں میں کامیابی حاصل کرکے اوّل پوزیشن حاصل کی ( ڈیلی ڈان کراچی،10مارچ 1989ء)۔ اس کے بعد سے آج تک کسی صوبے میں طلبہ یونینز کے الیکشن منعقد نہیں ہوئے۔
دو ہزار نو میں متحدہ طلباء محاذ کی صدارت اے ٹی آئی کے پاس آئی توقائد طلباء برادرسید جواد الحسن کاظمی مرکزی صدر نے13ستمبر 2009 کو تمام طلباء تنظیموں کے مرکزی صدور کے دستخطوں کے ساتھ وزیر اعظم پاکستان کو احتجاجی خط لکھا گیا جس میں طلباء یونین پر پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔
اپریل دو ہزار دس میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں سید جواد الحسن کا ظمی کی صدارت میں حقوق طلباء سیمینار کا انعقاد کی گیا جس میں تمام طلباء جماعتوں کے سربراہان نے شرکت کی اور طلباء یونین کی بحالی کے عملی اقدامات اٹھانے کا عزم کیا ان پابندیوں کے باوجود ہم نے اپنی مثبت جمہوری سرگرمیاں جاری رکھیں ہوئی ہیں اس عرصے میں ہم نے قومی امن تحریک ،قومی یکجہتی مہم چلائی 9فروری دو ہزار تیرہ کوبھی اے ٹی آئی نے لاہور پریس کلب تا پنجاب اسمبلی ہال تک بھر پور ریلی نکالی اور طلباء کے جمہوری حقوق کیلئے جہدوجہدجاری رکھنے کا عزم کیا جبکہ حکمرانوں نے طلباء حقوق پر مسلسل ڈاکہ ڈال رکھا ہے جوکہ بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ 1973کے آئین کی صریح بغاوت ہے۔
یکم جولائی 1992ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد افضل ظلہ،مسٹر جسٹس افضل لون اور جسٹس سعید الزماں صدیقی پر مشتمل بنچ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی سماعت کے دوران تعلیمی نظام میں بدعنوانیوں سے متعلق مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے عبوری حکم سنایا کہ طلبہ کو کالجز میں داخلے سے قبل طلبہ تنظیموں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے انکار کا حلف نامہ دینا ہوگا۔
حلف نامے کی یہ تجویز پاکستان بار کونسل کے چیئرمین محمد نواز مری نے عدالت عظمیٰ کو پیش کی۔ مسئلہ پر غور و غو ض کرنے کے لیے انجمن طلبہ اسلام نے 26 جولائی 1992ء کو لاہور میں ایک سیمینار منعقد کیا جس میں مختلف طلبہ تنظیموں کے راہ نماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
طلبا کا موقف سنے بغیر سپریم کورٹ کا فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے‘‘، یہ بات ممتاز ماہر قانون اور سابق گورنر سندھ فخر الدین جی ابراہیم نے انجمن کے راہنماؤں کے ساتھ، ایک ملاقات میں کہی (روزنامہ میزان کراچی، 22اگست 1992)۔
اپریل 1993ء میں چیف جسٹس افضل ظلہ نے اپنی ریٹائرمنٹ(18اپریل1993ء) سے قبل یونینوں پر عائد پابندیاں اٹھانے کا فیصلہ لکھا جسے 12جولائی 1993ء کو جاری کیا گیا۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عدالت نے محسوس کیا ہے کہ سابقہ یونینوں کی طرز پر تعلیمی سرگرمیوں کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔عدالت نے تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر ایسے اقدامات کریں جو طلبہ کو صحت مند سرگرمیاں فراہم کرنے کی ضامن ہوں۔
مگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے باوجود نہ تو کہیں طلبہ یونین الیکشن منعقد ہوسکے اور نہ ہی جبری حلف نامے بھروانے کا سلسلہ بند ہوا ہے جبکہ جسٹس سید نسیم حسن شاہ نے بھی ایک موقع پر اس پابندی کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا کہ طلبہ تنظیموں کے کمزور ہونے سے مثبت سرگرمیاں اور لیڈر شپ کی صلاحیتیں مدھم ہوتی جارہی ہیں 29مارچ2008ء کو نو منتخب وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلے پالیسی بیان میں طلبا یونین کی بحالی کا اعلان کیا مگر سپریم کورٹ کے ان فیصلوں اورجمہوری حکومت کے اعلانات کے باوجود طلبہ یونین الیکشن نہیں ہوسکے۔
تیرہ13جنوری 2016کو انجمن طلباء اسلام کے مرکزی صدر محمد عاکف طاہر کی کوششوں سے پاکستان کے ایوان بالا میں تعلیمی اداروں میں طلباء حقوق کی بحالی کیلئے چےئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے سینٹ کے تمام معزز اراکین کو حکم دیا کہ وہ طلباء حقوق کی بحالی کیلئے اپنی سفارشات مرتب کریں تاکہ ان کی روشنی میں قوم کو سب سے مضبوط اور جوان آواز پر پابندی ختم کرکے جواں خون اور بلند حوصلوں سے ملک و ملت کی تعمیر کی جائے۔
مگر افسوس کہ بات اعلانات اور سفارشات سے آگے نہ جا سکی ۔اب ایک بار پھر 13جنوری 2017کو چےئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے حالات کو جانچتے ہوئے ایوان میں رولنگ دیتے ہوئے طلباء یونینز پر پابندی کے فیصلے کو غیر آئینی قراردیااور طلباء یونینز کی بحالی کیلئے قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے اورسینیٹ سیکریڑیٹ کو ہدایات جاری کی ہیں کہ دو ہفتوں میں قرار داد کا مسودہ تیار کریں تاکہ طلباء یونین کی بحالی ممکن ہو سکے ۔
پورے سینٹ کے معززاراکین میں سے کسی نے طلباء یونین کی بحالی پر اعتراض نہیں کیا سواء جمعیت علماء اسلام (ف)کے عبدالغفور حیدری نے نقطہ اعتراض پر کہا کہ سیاست کی بجائے بچوں کو پڑھنے دیا جائے یہ اعتراض پوری قوم کیلئے حیران کن تھا ۔وطن عزیز کو موروثی ،وڈیرہ شاہی ،سرمایہ دارنہ ،جاگیردارنہ اور صنعت کار سیاست نے بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔
دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی جمہوریت ہے وہاں طلباء تنظیمیں آزاد اورطلباء کو انکے جمہوری حقوق مل رہے ہیں ۔قیام پاکستان سے استحکام پاکستان کے سفر میں طلباء نے تمام تحریکوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ۔طلباء تنظیموں نے ہر دور میں ملک قوم کو بہترین قیادت دی ہے ،طلباء یونینز پر عائد پابندی سے باصلاحیت لیڈر شپ کافقدان پیدا ہورہا ہے۔
اور بد قسمتی سے ہمارے تدریسی اداروں میں لیڈر شپ ابھارنے کا کوئی موثر فورم بھی نہیں ہے ۔ماضی میں طلباء تنظیمیں جمہوریت کی نرسریاں سمجھی جاتی تھیں جہاں سے لیڈر شپ جنم لیتی تھی۔پہلے جہاں تعلیمی اداروں میں مثبت و تعمیر ی اور صحت مندانہ سر گرمیاں عروج پر ہوتی تھیں آج منشیات کے اڈے قائم ہو چکے ہیں۔
آج وہاں منفی سرگرمیاں عروج پر ہیں جبکہ اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے بعض جگہہوں پریونیورسٹی انتظامیہ خود منشیات فروشی کے مکروہ دھند میں ملوث ہے جس کی ایک مثال قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد ہے ۔ جبکہ آج مسلم لیگ ن کی جمہوری حکومت کو بھی چاہیے کہ طلبا یونین انتخابات کاٹایم فریم دے تو ہم بھر پورتیاری سے الیکشن میں حصہ لیں گے۔
آج بھی انجمن طلبا اسلام ملک کی سب سے بڑی طلبا تنظیم ہے جس کا کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہ ہے نہ اے ٹی آئی پہلے کسی وڈیرے ،جاگیر دار،سرمایہ دار،یاسیاست دان کی پرورہ آغوش تھی نہ ہی آئندہ کسی کے نام کا نعرہ لگائے گی کارکنان انجمن دربار مصطٖفوی ﷺمیں بک چکے ہیں انہیں اب خریدا نہیں جا سکتا۔
اب بھی ملک کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے الیکشن ہوئے تو اے ٹی آئی انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی اور اپنی سابقہ شاندار روایات کو زندہ رکھے گی ۔ جبکہ حکومت اور ارباب اقتدار کی زیر کفالت کام کرنے والی تنظیموں کوایک بار پھر ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ملک کے تعلیمی اداروں میں بدامنی کی ذمہ دار طلباء تنظیمیں نہیں ہیں بلکہ وہ سیاسی اداکار سیاست دان ہیں جو طلباء کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استمال کرتے ہیں آج ایک بار پھر انجمن طلبہ اسلام نے طلباء یونین کی بحالی کیلئے ملک گیرسطح پر بحالی حقوق طلباء تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے اس ضمن میں اے ٹی آئی 9فروری کو ملک بھر میں یوم سیاہ منائے گی ۔
اس روز ملک بھر میں احتجاجی جلسے جلوس ریلیاں اور مظاہرے ہونگے ،طلباء بازؤں پر سیاہ پٹیاں باندھکرشریک ہونگے اور ہاف ٹائم میں کلاسوں کا بھی بائیکاٹ کریں اور حکمرانوں کو مجبور کریں گے کہ وہ طلباء یونین کی بحالی کا اعلان کریں۔
good research
Great Amir Bhai.Historical Truth
Ma Sha Allah, good research
Allah pak Asanian paida kry
Anjmun Talaba e Islam ko Tarqi dy Ameen
Well done. Be struggle. ATI is excellent.